84

سوال…علی اکمل تصور

میں پیدائشی مسلمان تھا۔ مذہب مجھے وراثت میں ملا تھا، تحقیق کرنا میرا حق تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں تحقیق کرنے نکلااور الجھ کر رہ گیا۔ ہر عالم سے مجھے مذہب کا تعارف دوسرے سے الگ ملتا۔کوئی عمل پر تھا تو کوئی فرمان پر تھا…کوئی خوش ہونے والا تھا تو کوئی رونے والا تھا…ہر کوئی کتاب وسنت سے اپنے مطلب کی دلیل ڈھونڈ لاتا تھا….
پیارے نبی ﷺ کے میلاد کے حوالے سے بھی اختلاف دیکھا۔ سنت والوں کا کہنا تھا کہ وہ”یا“ہیں،اس لیے ہم تو خوشی منائیں گے۔ حدیث والوں کا کہنا تھا کہ اصحاب ِرسول ﷺ نے خوشی نہیں منائی تو ہم کیوں منائیں…!
میں نے الجھن میں اپنی ساری زندگی گزاری اور پھر مرنے کے بعد مجھے میرے سوالوں کا جواب مل گیا۔
میں نے زندگی میں بہت دولت کمائی۔ سب کچھ تھا میرے پاس… دولت کے علاوہ زرعی اراضی… پلازہ اور بہت سے مکانات… میں بستر مرگ پر تھا، میری اولاد جائیداد کی تقسیم کے لئے میرے پاس آئی۔ میرا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ اس غم میں مرنا میرے لیے آسان ہو گیا۔میرا جنازہ ابھی گھر میں تھا اور میری اولا د ’یہ تیرا، وہ میرا‘ کے حصول کے لیے لڑ رہے تھے۔ غم ان لوگوں کو تھا…. زندگی مِیں،مَیں جن کے کام آیا تھا۔ یہی تھے وہ جو میری’نجات‘ کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے،ذکر اذکار میں لگے ہوئے تھے۔میں جانتا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ مجھے یاد رکھیں گے….۔
پھر مجھے دفن کر دیا گیا۔ اب میں اکیلا تھا، تنہا تھا۔ پھر روشنی کی لہر میری قبر میں اتری،نورانی فرشتے آ پہنچے تھے۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا،
”من ربّک…من رسولک…من دینک…!“
”تیرا رب کون ہے….؟“
”اللہ…!“
”تیرا رسول کون ہے…؟“
”محمد ﷺ…!“
”تیرا دین کیا ہے….؟“
”اسلام…!“
میرے چاروں طرف روشنی پھیل گئی… میری نجات ہوچکی تھی۔ مجھے میرے سوالوں کا جواب مل چکا تھا مگر اب ایک سوال مجھے پھر سے پریشان کر رہا تھا۔ مجھ سے میرے’فرقہ‘کے متعلق سوال تو کیا ہی نہیں گیا تھا….!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں