81

سستی زندگی

تحریر:محمد جمیل اختر

”معلوم نہیں وہ کون سی جگہ تھی۔ پانی تھا، ریت تھی یا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں وہاں تھا مگر نہیں تھا۔ تھا، ہوں نہیں۔ کیا مطلب۔ یہ سب وقتی بکواس ہے جو چل رہی ہے۔ مہنگائی مہنگائی۔ پچھلی حکومت میں سب چیزیں سستی تھیں۔ زندگی بھی۔ ابھی چیزیں مہنگی ہیں۔ زندگی پھر بھی سستی ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آخر آدمی کتنا سوچے؟“
”بھئی صاحب بات سنیے۔ یہ زندگی یہاں کب مہنگی ہوگی؟“
”ارے بھئی کچھ سستا بھی رہنے دو، اور یہ کس طرف جا رہے ہو؟“
”یہ بس پارک تک۔“
”ارے پاگل ہوگئے ہو۔ کوئی مار وار دے گا۔ ٹائم تو دیکھو۔“
”وجہ؟“
”وہی سستی زندگی۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں