204

سانجھ۔۔۔گرمکھی پنجابی ادب سے

تحریر: ماسٹر گرمیل سنگھ
ترجمہ: عاطف حسین شاہ

باج دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوا۔ یہ وہی گھر تھا جو پانچ مہینے قبل صاف ستھرا تھا۔ صحن کچا ہونے کے باوجود صاف ستھرا دکھائی دیتا تھا، مگر اس تھوڑے سے عرصے میں گھر کا پورا نقشہ ہی جیسے بدل گیا تھا۔ باج کی بیوی ”بنتی“ کو گزرے تیس سال بیت چکے تھے۔ سُکھ جیت تب مشکل سے تین برس کا ہی ہو گا جب اُس کی ماں اِس جہان سے رخصت ہو گئی مگر باج نے اپنے بیٹے کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ انتہائی غریبی کی حالت میں اُس نے سخت جان مزدوری کر کے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ رب کی کرم نوازی سے وہ چنڈی گڑھ میں اعلیٰ سرکاری افسر بن گیا۔
کچھ عرصہ بعد اُس نے وہیں ایک کھاتے پیتے گھرانے میں رشتہ جوڑ لیا اور پھر چنڈی گڑھ کا ہی ہو کے رہ گیا، لیکن اُس کے باپ نے اپنا گھر نہ چھوڑا۔
پانچ مہینے پہلے کی بات ہے جب سخت جاڑے کے دنوں میں بھی باج تازہ پانی سے نہاتا رہا اور ٹھنڈ سے بیمار پڑ گیا۔ جب سُکھ جیت کو پتا چلا تو وہ باپ کے گھر اُسے ملنے آ پہنچا اور کہنے لگا:
”ابو جی!میں نے آپ کو کئی بار کہا کہ میرے ساتھ ہی شہر میں آ کر رہیں مگر آپ نے میری بات نہیں مانی۔“
”نہیں بیٹا! بھلا مجھے یہاں کون سی تنگی ہے۔ دو وقت کا کھانا کھاتا ہوں، سویرے اکٹھی روٹیاں پکا لیتا ہوں اور شام کو گرم کر کے کھا لیتا ہوں۔“ باج نے اپنا صافہ کھول کر دوبارہ باندھتے ہوئے کہا۔
”ابو جی!اب میں کچھ نہیں سنوں گا۔ آپ بیگ میں کپڑے رکھیں اور چلیں میرے ساتھ، بیٹھیں گاڑی میں۔“
سُکھ جیت نے باپ کو بازو سے پکڑ کر چارپائی سے اُٹھاتے ہوئے کہا۔
بیٹے کے یوں اصرار کرنے پر وہ انکار نہ کر سکا اور اپنے کپڑے ایک تھیلے میں ڈال کر سُکھ جیت کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔
٭
اپنے بیٹے کے گھر میں رہتے ہوئے باج کو ایک دو دنوں میں ہی پرایا پن محسوس ہونے لگا۔ اُس کی بہو بہت امیر گھرانے کی بیٹی تھی، اُسے اپنے باپ کی امارت اور شوہر کی افسری پر بڑا ناز تھا۔ اُس نے دل سے کبھی اپنے سسر کا احترام نہ کیا۔ تھالی میں دو روٹیاں رکھتے ہی وہ پوچھنے لگتی:
”کیا آپ اور روٹی لیں گے؟“
بھلا گاؤں کی موٹی موٹی پانچ سات روٹیاں کھانے والا باج، ان دو سوکھی روٹیوں سے کہاں سیر ہوتا۔ وہ تیسری روٹی مانگتے ہوئے بھی شرم محسوس کرتا۔ اُس کی بہو اپنے بیٹے اور بیٹی کو اُس کے پاس جانے سے روکتی۔
جب رات کو باج اُداس ہوتا تو اپنے پوتے اور پوتی کو پاس بلا کر کہانی سنانے لگتا یا پھر اچھی اچھی باتیں کرتا۔ اُس کی بہو اِسے اپنے بچوں کی پڑھائی میں حرج سمجھتی اور باج سے پوچھے بنا اپنے بچوں کو اُٹھا کر لے جاتی۔
باج کو شہر میں آئے دو مہینے بیت چکے تھے۔ سُکھ جیت نے محسوس کیا کہ اُس کا ہنس مکھ طبیعت والا باپ اب بجھا بجھا رہتا ہے۔ ایک دن وہ اپنے باپ سے کہنے لگا:
”ابو جی!ہمارے گھر سے کچھ ہی دُور ایک پارک ہے۔ آپ صبح و شام وہاں گھوم پھر آیا کریں، آپ کا وقت اچھا گزر جائے گا۔“
باج نے یہ سنتے ہی فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
پھر وہ روزانہ صبح و شام پارک میں جانے لگا۔ ایک دن پارک کے آگے سے گزرتے ہوئے اُسے اپنے گاؤں کا صُوبا اور اس کا بیٹا پالی مل گئے۔ باج کو تو جیسے کوہِ نور کا خزانہ مل گیا۔
”اوئے صوبے!تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ باج نے اُسے زور سے گلے لگاتے ہوئے کہا۔
”بس یار باج سنگھ، شریکوں نے زمین کا کیس اب ہائی کورٹ میں کر دیا ہے۔ اس کی تاریخ بھگتانے آتے ہیں چنڈی گڑھ۔“ صوبے نے بوجھل دل سے کہا۔
”لو، کون سا پیار رہ گیا ہے آج کل…اب تو پیسہ ہی باپ ہے سب کا۔ اچھا چھوڑو، گاؤں کی سناؤ کوئی نئی تازی؟ چلو آؤ گھر چلتے ہیں۔“
راستے میں بھی باج نہ جانے کتنی باتیں کرتا چلا گیا۔
بن بلائے مہمان کو گھر میں دیکھ کر باج کی بہو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ اُس نے گاؤں سے آئے مہمانوں کو بس دُور سے ہی آداب کہا اور شرم کے مارے ڈھابے سے روٹیاں منگوا کر انھیں کھانا کھلانے کے بعد رخصت کر دیا۔ باج کو اُس کا یہ رویہ بہت ناگوار گزرا۔
کچھ دنوں بعد جب باج گھر کی چھت پہ گیا تو اُسے ساتھ والے گھر میں گہما گہمی محسوس ہوئی۔ غور سے دیکھا تو ساتھ والے گھر میں لینٹر ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ باج تو جیسے خوشی سے جھوم ہی اُٹھا۔ وہ بنا کسی کو بتائے پڑوس کے گھر چلا گیا اور سارا دن بالٹی میں بجری بھر بھر کے دیتا رہا۔ باج نے آج کئی مہینوں بعد ہاتھ سے کام کیا تھا۔ شام کو جب لتھڑا ہوا باج گھر لوٹا تو اُس کی بہو پھر سے نکتہ چینی کرنے لگی:
”آپ کی تو کوئی ریپوٹیشن ہے نہیں سماج میں، ہمارے اسٹیٹس کا ہی خیال کر لیا کریں۔ آپ مزدوروں کی طرح کام کر رہے تھے اُن کے گھر، مجھے تو سچ میں بہت شرم آ رہی تھی۔“
”نہ بیٹا!اس میں شرم والی کون سی بات ہے بھلا، گاؤں میں تو لوگ اپنے آپ ہی لینٹر والے گھر چلے جاتے ہیں اور کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تو ایک طرح کی خدمت ہوتی ہے، خدمت۔“باج نے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا۔ اُس کی بہو بُڑ بُڑ کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
باج کا اب اس گھر میں دل نہیں لگتا تھا۔ وہ خود کو اس گھر میں ایک قیدی محسوس کرنے لگا تھا۔ اکثر رات کو سوتے میں وہ سوچتا:
”کاش!میں پرندہ بن جاؤں تو پل بھر میں اپنے گھر پہنچ جاؤں، اپنے گاؤں۔ وہ گھر جسے بنتو اور میں نے مل کر بنایا تھا۔“
ایک دن باج اتنا اُداس تھا کہ سوچوں میں کھویا ہوا پارک سے آگے نکل گیا۔ بدقسمتی سے سڑک پر غلط سمت سے آتا ہوا ایک موٹر سائیکل اُس سے بری طرح ٹکرا گیا۔ باج سڑک پہ گر گیا اور اسے گھٹنے اور کندھے پر تھوڑی بہت رگڑیں لگیں۔ آس پاس کے لوگوں نے اس کی مرہم پٹی کروائی اور اسے گھر چھوڑ آئے۔ اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے سُکھ جیت بھی گھر میں تھا۔ باپ کو زخمی دیکھ کر وہ گھبرا گیا، اُس نے باپ کو پکڑ کر بیڈ پہ لٹا دیا۔ باج نے اُسے ساری بپتا سنا دی۔
”نہیں تو آپ اتنی ٹریفک میں کرنے کیا گئے تھے؟اگر آپ کو سڑک کے دائیں بائیں کا پتا ہی نہیں ہے تو کیوں گئے تھے وہاں؟“نہ جانے اس کی جلی بھنی بہو نے کیا کیا کہنا شروع کر دیا۔
”کڑیے!اتنا بھی پاگل مت سمجھا کر مجھے۔ یہ جو تمھارا شوہر اتنا بڑا افسر بنا ہے نا،میں ہی جانتاہوں کہ اس کی ماں کے مرنے کے بعد کیسے پالا میں نے۔ اب میں اس گھر میں نہیں رہوں گا۔ بیٹا سُکھ جیت! مجھے کل پہلی بس پر بٹھا آنا، میں اب گاؤں جانا چاہتا ہوں۔“
باج نہ جانے کتنے مہینوں کا غبار باہر نکال رہا تھا۔ بیٹے نے کافی سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کا باپ گاؤں واپس جانے پر اڑ گیا تھا۔ سکھ جیت نے اگلی صبح کار میں گاؤں چھوڑ آنے کا کہا مگر باج نے صاف منع کر دیا۔
اگلے دن سکھ جیت اپنے باپ کو کار میں بٹھا کر بس اسٹینڈ تک چھوڑنے گیا۔
”ابو جی! میں جانتا ہوں کہ آپ کی بہو کا رویہ آپ سے اچھا نہیں ہے۔ میں آپ کا دکھ محسوس کر سکتا ہوں۔ کیا کروں، اگر کچھ کہا تو پھر گھر میں فساد مچے گا۔“
”نہ بیٹا! فساد کیوں مچانا ہے، میں تمھاری مجبوری سمجھتا ہوں۔ تم اپنا گھر سنبھالو، میری خیر ہے۔ پتا نہیں آج کل کی بہوؤں کو کیا ہو گیا ہے، باپ کو دیوتا سمجھتی ہیں اور سسر کو بندہ بھی نہیں۔“
اتنے میں بس اسٹینڈ آ گیا۔ باج بس میں سوار ہو کر شام تک گھر لوٹ آیا۔ رات کو باج چولہے میں لکڑیاں جلا کر ایک پتھر گرم کر کے گھٹنے پر ٹکور کرنے لگا۔ باج کو اپنے گھر واپس آ کر جیسے جنت ہی مل گئی ہو۔ وہ بے خیالی میں اپنی مری ہوئی بیوی بنتو سے باتیں کرنے لگا:
”دیکھ بنتو! آ گیا میں اپنے گھر، تمھیں یاد ہے نا…یہ گھر تم نے اور میں نے مل کر بنایا تھا۔ بتاؤ بھلا کیسے چھوڑ دیتا اسے؟ اپنا گھر تو پھر اپنا ہی ہوتا ہے، چاہے جیسا بھی ہو۔ اب اس کا اور میرا ساتھ تو مرتے دم تک رہے گا۔“ یہ کہتا ہوا باج چارپائی پر دری بچھا کر لیٹ گیا۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں