77

مالک…علی اکمل تصور

”چل بیٹا…!روزی کمانے چلتے ہیں۔“
اپنے مالک کی آواز سن کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔مالک نے اسے دلہن کی طرح سجایا۔اس نے سر جھکا رکھا تھا۔ پھر مالک اس کی مہار پکڑے گھر سے باہر نکل آیا۔ وہ سر جھکائے پیچھے چل رہا تھا مگر جیسے جیسے وہ ساحل سمندر کے قریب پہنچ رہا تھا، ایک خوف اس کے اعصاب پر چھا رہا تھا…مگر وہ اپنے مالک سے اس بات کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنے مالک کی رضا میں راضی تھا۔ آج چھٹی کا دن تھا۔ساحل سمندر پر میلے کا سا سماں تھا۔ اسے دیکھتے ہی بچوں کا دل مچلنے لگا۔
”ابو جی…ہم اونٹ کی سواری کریں گے…!“ بچوں کی خوشی میں والدین کی خوشی تھی۔ مالک بھی خوش ہو رہا تھا۔ آج اچھی دیہاڑی لگنے کی امید تھی۔ بچوں کا ایک گروپ اونٹ پر سوار ہوگیا۔ مالک مہار پکڑے آگے چل پڑا، وہ سر جھکائے پیچھے آ رہا تھا۔ سمندر کی لہریں اس کے قدم چوم رہی تھیں مگر یہ پیار اسے پسند نہیں تھا۔وہ گیلی ریت پر چلا جا رہا تھا…اس کا یہ سفر سارا دن جاری رہا۔ مالک کی جیب پیسوں سے بھر گئی، اس کا دل شکوے سے بھر گیا۔
رات کو واپسی ہوئی۔اب بھی وہ سر جھکائے چل رہا تھا۔ گھر پہنچ کر مالک نے اس کے جسم پر سے سجاوٹ کا سامان اتار لیا۔ وہ اب بھی سر جھکائے کھڑا تھا،پھر مالک اس کی گردن سہلاتے ہوئے بولا:
”بیٹھ جا بیٹا…!“
وہ بیٹھ گیا۔ اب مالک اس کے کھروں پر دوا لگا رہا تھا۔
”میں جانتا ہوں بیٹا…!تو ریگستان کی تپتی ریت پر چلنے کا عادی ہے اور میں تمہیں گیلی ریت پر چلاتا ہوں۔کیا کروں…! روزی روٹی کا معاملہ ہے….!“
یہ بات سن کر اس کا دل سلگ کر رہ گیا، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا مالک اس کی بات سمجھ نہیں پائے گا مگر پھر بھی وہ بولا:
”مالک…! آپ روزی روٹی کے لیے کر رہے ہیں مگر میں وفاداری میں کر رہا ہوں۔ کیا آپ بھی اپنے مالک کے اتنے ہی وفادار ہیں، جتنا میں اپنے مالک کا وفادارہوں…؟“
اس کا اندازہ درست تھا۔ اس کا مالک واقعی اس کی بات سمجھ نہیں پایا تھا…!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں