74

ایک دائرہ ہے زندگی

تحریر:محمد جمیل اختر

یہ ایک دیگچی ہے جسے سڑک کے بیچوں بیچ کوئی رکھ کر چلا گیا ہے۔ آتے جاتے لوگوں کے قدموں سے ٹکرا کر کبھی یہ ایک طرف لڑھک جاتی ہے تو کبھی دوسری طرف۔ اس کا پیندا ہی گول ہے۔ یہ بھلا ایک جگہ مضبوطی سے کس طرح رُک سکتی ہے۔ یہ کوئی نئی دیگچی نہیں، بہت استعمال شدہ ہے۔ اسے ایک آدمی نے اس عمارت سے چرایا تھا جو ابھی زیرِ تعمیر تھی اور مزدور اس دیگچی میں دن میں دو مرتبہ چائے بناتے تھے۔
وہ آدمی جب اس عمارت میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ تمام مزدور اپنے کام میں اس قدر منہمک ہیں کہ انہیں اپنے سامان کی خبر ہی نہیں۔ وہ بالکل بلی کی طرح بغیر چاپ کے چلتا ہوا اس ستون تک آیا جہاں یہ دیگچی اور 10 کپ موجود تھے۔ اس نے یہ سامان اٹھایا اور عمارت سے باہر نکل آیا۔ وہ خوش تھا کہ اسے کسی نے نہیں دیکھا حالانکہ وہ کوئی باقاعدہ چور نہیں تھا۔ پہلے پہل تو اس عمارت میں داخل ہوتے وقت اس کا ارادہ تھا کہ وہ یہاں مزدوری کرے گا مگر بھوک کے باعث اس کے لیے اس خیال کو عملی جامہ پہنانا مشکل تھا۔
”دس کپ اور دیگچی اگر بیچ دی جائے تو 2 وقت کا کھانا یقیناً مل سکتا ہے۔“اس نے سوچا اور آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ تبھی اس کی نظر سڑک کنارے ایک ہجوم پر پڑی۔
”مہربان، قدردان! آجاؤ اور دیکھو۔ دنیا میں کیسے کیسے عجائب ہیں۔ کوئی دھوکا، کوئی فراڈ نہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے۔ ایک تیز دھار تلوار جسم کے آر پار کروں گا۔ کوئی دھوکا کوئی فراڈ نہیں۔ بچے پیچھے اور بڑے آگے آجائیں۔ اگلی قطار والے بیٹھ جائیں تاکہ پیچھے والوں کو بھی نظر آئے۔ تو بھائی جان، مہربان، قدردان! آئٹم پسند آئے تو فنکار کی حوصلہ افزائی ضرور کریں۔“
اگرچہ اسے آگے جانا تھا تاکہ دیگچی بیچ سکے مگر وہ تماشا دیکھنے میں منہمک ہوگیا۔ تماشا ختم ہوا۔ لوگ تالیاں بجا کر رخصت ہوگئے، فنکار کی ٹوپی نوٹوں سے بھر گئی۔ وہ آدمی جس نے دیگچی چرائی تھی، اپنا سب سامان وہیں چھوڑ کر اس فنکار کے پیچھے چل پڑا، دراصل اسے اب یہی تلوار چاہیے تھی اور دیگچی سڑک پر لڑھک رہی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں