grayscale photo of man in sweater covering his face 113

ایک بے ربط مکالمہ

تحریر: محمد جمیل اختر

”ایک چیونٹی جو دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر بڑی ہوگئی کہ اس نے مجھے نگل لیا۔ اس کے منہ میں ایک لیس دار مادہ تھا جو شاید اسے خوراک ہضم کرنے میں مدد دیتا ہو۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا چیونٹی مجھے کھا گئی اور میں چھوٹے چھوٹے ذروں میں بٹ گیا۔ اس کے منہ میں گول گول گھومتے ہوئے میں چاہ رہا تھا کہ ایسا نہ ہو مگر ایسا ہو رہا تھا۔ اور ایسا میں نے کئی بار خواب میں دیکھا۔ آپ نے ایسا کبھی دیکھا کہ خواب میں بھی بعض اوقات آدمی اذیت بالکل ویسے ہی محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ سب کچھ اصل میں ہو رہا ہو۔ آپ میرا ناپ لے لیجیے، مجھے نئے کپڑے سلوانے ہیں۔ اب چونکہ میں چیونٹی کے چنگل سے بچ گیا ہوں تو مجھے اپنا حلیہ درست کرلینا چاہیے۔“
”میں درزی نہیں، ڈاکٹر ہوں۔“
”آپ کی شکل ہو بہ ہو ایک درزی سے ملتی ہے۔ اس درزی کا کوئی نام بھی تھا مگر مجھے یاد نہیں۔ ویسے میرا نام کیا ہے؟ میں نے شروع میں شاید آپ کو بتایا ہو۔ ایک منٹ رکیے۔ شناختی کارڈ تلاش کرنے دیجیے۔ معذرت دوسری جیب میں ہوگا۔ اس میں بھی نہیں۔ میں گھر بھول گیا ہوں۔ گھر؟
میں تو گھر سے آ ہی نہیں رہا۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں کہاں سے آ رہا ہوں؟“
”تم کہیں سے نہیں آرہے اور نہ کہیں جا رہے ہو۔ تم ہمیشہ سے یہیں پر تھے اور شاید ہمیشہ یہیں رہو۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں