boys, kids, children-286245.jpg 64

خدا کا کنبہ
محسن حیات شارف۔ مٹھہ ٹوانہ خوشاب

کمرہ جماعت میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مس تبسم ریاضی کے سوال سمجھا رہی تھیں۔ ان کا رعب و دبدبہ پورے اسکول میں مشہور تھا۔ سب بچے ان کی طرف متوجہ تھے لیکن ہادی بے چین نظر آرہا تھا۔ وہ اپنے دوست طاہر کو کچھ بتانا چاہتا تھا لیکن وہ دوسرے سیکشن میں پڑھتا تھا۔ اب ہادی کو تفریح ہونے کا انتظار تھا۔
”میں تم سے ایک اہم مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔“ تفریح ہوتے ہی ہادی نے طاہر کو جا پکڑا۔ وہ کینٹین پر موجود تھا۔
”تم کافی پریشان اور بے چین نظر آرہے ہو۔“طاہر نے فکرمندی سے کہا۔ ”مجھے کھل کر بتاؤ کہ آخر کیا مسئلہ ہے؟“
”آج صبح سکول آتے ہوئے میں نے ایک دردناک منظر دیکھا۔ کچھ بچے ایک زخمی گدھے کو پتھر مار رہے تھے۔ وہ گدھا انتہائی کمزور تھا۔“ ہادی نے ایک بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”افف! ہمارے پیار نگر میں اتنا ظلم! ہمارے گاؤں کا نام تو پیار نگر ہے۔ جہاں سب آپس میں پیار سے رہتے ہیں۔ کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“طاہر نے افسوس سے سر ہلایا۔
”مگر یہ پیار و محبت صرف انسانوں تک محدود ہے۔ یہاں جانوروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔“ ہادی نے کہا۔”حالاں کہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں اور ہم سے ان کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔“
”تم صحیح کہہ رہے ہو۔ لاوارث اور بے گھر جانوروں کی حالت ابتر ہے۔ ابھی کل میں نے بلی کے دو بچوں کو ٹھنڈ سے کانپتے ہوئے دیکھا۔“ طاہر نے بتایا۔”میں انہیں اپنے گھر لے کر گیا اور ان کی مناسب دیکھ بھال کر رہا ہوں۔“
”مجھے جہاں کوئی معذور، بوڑھا یا کمزور جانور ملے تو میں اس کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔“ہادی نے کہا۔ ”لیکن ہم انفرادی طور پر سب جانوروں کی مدد نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس کے لیے کوئی منظم بندوبست کرنا پڑے گا۔“
”میں تمہاری بات سمجھ رہا ہوں۔ اس سلسلے میں ہمیں پرنسپل صاحب سے بات کرنا ہو گی۔“ طاہر نے راہ سجھائی۔ ”وہ درد دل رکھنے والے شخص ہیں۔ وہ ضرور ہماری مدد کریں گے۔“
آخر کار چھٹی کے بعد وہ دونوں پرنسپل آفس میں موجود تھے۔ انھیں ساری بات بتائی۔ وہ بچوں کے جذبے سے بہت متاثر ہوئے۔ پانچ دن اسکول میں سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب تھی۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ تقریب میں اس بات کا ضرور ذکر کریں گے۔
٭
آخر کار تقریب کا دن آن پہنچا۔ اسکول میں خوب گہما گہمی تھی۔ پرنسپل صاحب نے تقریب میں علاقہ بھر کے معززین کو مدعو کیا تھا۔تقریب میں بچوں کے مابین مختلف مقابلے کروائے گئے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پوزیشنز حاصل کرنے پر انعامات تقسیم کیے گئے۔ آخر میں پرنسپل صاحب کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔
”آپ سب کا بہت شکریہ کہ اس تقریب میں آکر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی۔ آپ کو یہاں بلانے کا ایک خاص مقصد تھا۔“ رسمی گفتگو کے بعد پرنسپل صاحب اصل مدعے پر آگئے۔
”ہمارے اس گاؤں کا نام پیار نگر ہے اور یہاں کے رہنے والوں کا پیار مثالی ہے۔ مگر ہمارے اس پیار نگر میں کوئی ایسا بھی ہے جو ظلم کا شکار ہو رہا ہے۔“پرنسپل صاحب کی بات سن کر تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔
”میں لاوارث اور بے گھر جانوروں کی بات کر رہا ہوں۔ ہمارا دین محبت اور رحمت کا دین ہے۔ اس میں نہ صرف انسانوں کے بلکہ جانوروں کے حقوق بھی بیان کیے گئے ہیں۔ جانور ہماری زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں۔ کچھ جانور ساری زندگی گھروں اور بازاروں میں ہماری خدمت کرتے ہیں۔ ہماری زراعت اور معیشت کا زیادہ تر دارومدار ان پر ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی نظام میں جانوروں کا اہم کردار ہے۔“ پرنسپل صاحب سب کو سمجھا رہے تھے۔ ”اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔“
”ہم سب کو چاہیے کہ اپنے پالتو جانوروں کا مناسب خیال رکھیں۔ اگر ان میں سے کوئی بوڑھا یا بیمار ہو جائے تو اسے گھر سے نہ نکالیں لیکن بعض اوقات کسی ایک فرد کے لیے ایسے جانور کا خیال رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے علاقوں سے بھی بیمار اور لاغر جانور یہاں آجاتے ہیں۔ اب ہمیں مل کر اس کا کوئی حل نکالنا ہو گا۔ ان کی رہائش، خوراک اور علاج کا بندوبست کرنا ہو گا۔“ پرنسپل صاحب نے سب کی طرف دیکھا۔”اچھا! میں آپ سب سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ ”مرج الاخضر“ سے واقف ہیں؟ یہ کیا چیز تھی اور اس کا کیا مقصد تھا؟“
سب نے نفی میں سر ہلا دیا۔ وہ اس بارے میں نہیں جانتے تھے۔
”یہ دمشق میں ایک وقف شدہ چراگاہ تھی۔ جہاں بوڑھے گھوڑے اپنی باقی ماندہ زندگی سکون سے گزارتے تھے۔ اس کے علاوہ دمشق میں ایک اور وقف تھا جہاں سینکڑوں لاوارث بلیاں رہتی تھیں۔ ہم سب کو بھی اس نیک کام کی ابتدا کرنی چاہیے۔“
پرنسپل صاحب کی یہ باتیں سب کے لیے نئی تھیں۔ سب نے عزم کیا کہ وہ اس کام میں ضرور حصہ لیں گے۔
کچھ عرصے بعد ”پیار نگر“ میں ایک خوب صورت چار دیواری تعمیر ہو چکی تھی۔ جس کا ایک حصہ چراگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا جب کہ ایک حصے میں جانوروں کی رہائش تھی۔ ان کے علاج کا بھی مناسب بندوبست کیا گیا تھا۔ یہ سب گاؤں والوں نے امداد باہمی اور اپنی مدد آپ کے اصول پر کیا تھا۔ہادی اور طاہر بہت خوش تھے۔ اس عمارت کی پیشانی پر الطاف حسین حالی کا یہ شعر جگمگا رہا تھا:
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں