60

زروا اور مس شاہین…. تنزیلہ یوسف

”مس شاہین کو دیکھا؟“ زروا سخت غصے میں تھی۔
”کیوں بھئی کیا ہوگیا؟“مجھے اس کا غصے میں آجانا حیران کررہا تھا۔
”تین سال ہمیں پڑھایا، کبھی کسی قسم کا فیشن نہ کیا۔ میں اور میری ہم جماعت لڑکیاں انھیں اپنے لیے رول ماڈل سمجھتی تھیں۔“
”ارے بھئی! یہی تو میں بھی پوچھ رہی ہوں کہ اب ایسا کیا ہوگیا؟“
”آج میں اسکول سے بورڈ کا رزلٹ کارڈ لینے گئی تھی۔ وہاں آفس میں مس شاہین بھی بیٹھی تھیں۔ اف ف ف…لگ رہا تھا کئی گھنٹے پارلر میں لگا کر آئی ہیں۔“
”دیکھو زروا! اگر انھوں نے خود پر دھیان دے ہی دیا ہے تو تمھیں اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔“
”مگر اپیا! مجھے اتنی حیرت ہوئی نا۔ پہلے میں یہی سمجھی کہ اسکول میں یہ کوئی نئی مس آئی ہیں۔ مگر جب انھوں نے مجھے اچھے نمبروں سے پاس ہونے کی مبارک باد دی تو یقین جانیے مجھے اتنا غصہ آیا کہ یہ تو اتنی اچھی ہوتی تھیں۔ اب انھیں کیا ہوگیا؟“ زروا پھٹ پڑی۔
”دیکھو گڑیا! کسی کے بارے میں بدگمانی اچھی بات نہیں۔ وہ اب بھی تمھاری مس ہیں، یہ یاد رکھنا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے:
”جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھادیا، اس نے گویا مجھے اپنا غلام بنالیا۔“
اس سے استاد کے بلند مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے۔
کبھی بھی کسی کی ظاہری وضع قطع سے اس کو اچھا یا برا گمان مت کرنا۔“
”افسوس مجھے اس بات پر ہورہا ہے کہ میری بہن حقیقت سے پوری طرح واقف ہوئے بغیر ہی اپنی پسندیدہ مس کے لیے اس طرح بھی سوچ سکتی ہے۔ ایک بار تم نے مجھے بتایا تھا کہ تمھاری مس کی چار بہنیں اور بھی ہیں۔ مس شاہین سب سے بڑی ہیں اور بہنوں سے چھوٹے دو بھائی ہیں۔ ان کے والد سرکاری محکمے سے ریٹائر ہوچکے ہیں۔ اس لیے پورے گھر کی ذمّہ داری اکیلی مس شاہین پر آگئی ہے۔“
”جی اپیا! انھوں نے اپنی ساری بہنوں کی شادیاں کروائیں۔ ان کے بھائی ابھی پڑھ رہے ہیں۔ کچھ سال بعد ان کی پڑھائی مکمل ہوجائے گی تو مس شاہین کی ذمّہ داریاں بھی کم ہوجائیں گی۔ اپنے امی ابو اور بہن بھائیوں سے انھیں بہت محبت ہے۔ ان کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں۔“
”یہ سب جانتے ہوئے بھی تم نے اپنی استانی کے لیے اتنے سخت الفاظ بولے!“
”آج تم نے جانتے بوجھتے غلط کام کرڈالے ہیں؟“
”وہ کیسے؟“ زروا بولی تو لہجے میں کافی حیرت تھی۔
”سب سے پہلے اپنی مس کی طرف سے دل میں بدگمانی کو جگہ دی، جب کہ تم اپنی مس کو بہت اچھی طرح سے جانتی ہو۔ انھوں نے کتنے مشکل حالات کا سامنا کیا؟ اس سے بھی واقف ہو۔“ میں نے زروا کو آئینہ دکھانا شروع کیا۔
”دوسرا یہ کہ تم نے اپنی ٹیچر کے مرتبے کا اندازہ نہ کرتے ہوئے ان کی بے ادبی کی۔ میں تمھیں ایک خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کا ایک مشہور واقعہ سناتی ہوں۔“ اپیا نے کہنا شروع کیا۔
”ایک دفعہ مامون اور امین کے استاد محترم مسجد میں بیٹھے تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید بھی اپنے بیٹوں کے ساتھ وہیں تھے۔ استاد محترم اٹھ کر جانے لگے تو مامون اور امین دونوں اٹھ کر بھاگے کہ دونوں میں سے کون اپنے استاد کو جوتیاں پہلے پہناتا ہے۔ خلیفہ نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بے حد خوش ہوئے کہ ان کے برخودار اپنے استاد محترم کی تکریم میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی سعی کرتے ہیں۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بعد میں دربار میں اپنے مصاحبین سے پوچھا:
”بتاؤ آج کس کی قدرو منزلت زیادہ ہے؟“سبھی ایک زبان ہوکر بولے کہ آپ کی۔
خلیفہ بولے:
”نہیں، بلکہ اس استاد کی جس کو جوتیاں پہنانے کے لیے خلیفہ کے بیٹے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا پسند کرتے ہیں۔“
”اس سے تمھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ استاد کی ہمارے دین میں کتنی تکریم ہے۔“
اپیا نے دیکھا کہ زروا کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔
”تیسرا یہ کہ تم نے اپنی مس کی غیبت کی۔ کیا تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کروگی؟“ اپیا نے کہتے کہتے زروا سے اچانک سوال کیا۔
”نہیں اپیا، کیسی باتیں کرتی ہیں؟“زروا ایک دم سے گھبرا کر بولی۔
”تو پھر آئندہ کبھی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی بھی مت کرنا۔ غیبت کرنا اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔“اپیا نے تنبیہی انداز اپنایا۔
”جی اپیا بالکل آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں نے آج اتنے غلط کام کیے۔ مجھے معاف کردیجیے۔“
”معافی مجھ سے نہیں اللہ سے مانگو۔“اپیا نے زروا کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں