55

ماں… سیدہ بشریٰ نور

مس ثانیہ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پرائمری اسکول میں جماعت پنجم کی اُستانی تھیں۔ اُن کی ایک عادت تھی کہ وہ جماعت میں داخل ہوتے ہی ”عزیز طلبا السلام علیکم!“ کہا کرتی تھیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ وہ جماعت کے سبھی طلبا کو عزیز بالکل نہیں سمجھتی تھیں۔ اُسی جماعت میں ایک وسیم نام کا ایک بچہ تھا جو مس ثانیہ کو ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ وسیم میلی کچیلی حالت میں اسکول آ جایا کرتا تھا۔ اُس کے بال بگڑے ہوئے ہوتے، جوتوں کے تسمے کھلے ہوتے، قمیض کے کالر پر میل کے نشانات دُور سے دکھائی دے جاتے تھے۔ پڑھائی کے دوران بھی وسیم کا دھیان کہیں اور ہوتا۔ مس ثانیہ کے ڈانٹنے پر وہ چونک کر ظاہری طور پر متوجہ تو ہو جاتا لیکن اُس کی پھٹی پھٹی نگاہیں بتاتیں کہ وہ ذہنی طور پر غائب ہے۔
رفتہ رفتہ مس ثانیہ کو وسیم سے نفرت ہونے لگی۔ جماعت میں داخل ہوتے ہی اُن کا نشانہ وسیم ہوتا۔ ہر بری مثال کو وسیم سے منسوب کیا جاتا۔ بچے اُس پر ہنستے اور مس ثانیہ اس کی بے عزتی کر کے تسکین حاصل کرتیں۔ وسیم نے کبھی کسی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ ہر ڈانٹ، ہر طنز اور سزا کے جواب میں وہ بس انھیں دیکھا کرتا اور سر جھکا لیا کرتا۔
شش ماہی امتحانات ختم ہوئے تو مس ثانیہ نے وسیم کی رپورٹ میں اُس کی تمام برائیاں لکھ دیں۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے جب وسیم کی رپورٹ دیکھی تو مس ثانیہ کو اپنے دفتر میں بلایا اور کہنے لگیں:
”مس ثانیہ! رپورٹ میں کچھ تو بچے کی اچھائی لکھ دیتیں۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے،اس سے تو وسیم مایوسی کا شکار ہو جائے گا۔“
”میں معذرت خواہ ہوں میڈم! مگر وسیم ایک بدتمیز بچہ ہے۔ میں اس کے متعلق کچھ اچھا کیسے لکھ سکتی ہوں!“ مس ثانیہ یہ کہہ کر دفتر سے باہر آ گئیں۔
ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے ایک عجیب کام کیا۔ انھوں نے چپڑاسی کے ہاتھ سے مس ثانیہ کے ڈیسک پر وسیم کی گزشتہ سال کی رپورٹس رکھوا دیں۔
اگلے دن مس ثانیہ جماعت میں داخل ہوئیں تو اُن کی نظر رپورٹس پر پڑی۔ انھوں نے اُلٹ پلٹ کر جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ وسیم کی رپورٹس ہیں۔ پہلے تو انھیں تعجب ہوا، پھر سوچا کہ پچھلی جماعتوں میں بھی وسیم نے یقینا بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ انھوں نے سوم جماعت والی رپورٹ نکال کر دیکھی تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ساری رپورٹ وسیم کی تعریفوں سے بھری تھی۔ مس ثانیہ نے بے یقینی میں جماعت چہارم کی رپورٹ کھولی تو اُس میں لکھا تھا:
وسیم نے اپنی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے۔
اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ رہی ہے۔
وسیم کی ماں کینسر کی آخری اسٹیج پر ہیں۔ گھر میں اس کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں۔
اگلی رپورٹ میں لکھا تھا، وسیم کی ماں فوت ہو چکی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وسیم کی زندگی بھی…… اسے ہر صورت بچانا ہو گا۔
ان رپورٹس سے مس ثانیہ پر رقت طاری ہو گئی۔ کانپتے ہاتھوں سے انھوں نے فائل بند کی۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔
اگلے دن جب مس ثانیہ جماعت میں داخل ہوئیں تو انھوں نے حسب عادت بولا، ”عزیز طلبا! السلام علیکم!“ مگر وہ جانتی تھیں کہ آج بھی وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ جماعت میں بیٹھے بے ترتیب بالوں اور میلا کچیلا لباس پہنے وسیم کے لیے جو محبت وہ محسوس کر رہی تھیں، وہ جماعت کے دیگر بچوں کے لیے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
دورانِ لیکچر انھوں نے وسیم سے سوال کیا اور ہمیشہ کی طرح وسیم نے اپنا سر جھکا لیا۔ اُسے یقین تھا کہ مس ثانیہ خوب ڈانٹیں گی مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اُس نے سر اُٹھا کر مس ثانیہ کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہی تھیں۔ انھوں نے وسیم کو اپنے پاس بلایا اور سوال کا جواب بتا کر اسے دہرانے کے لیے کہا۔ پہلے تو وسیم ہچکچایا مگر مس ثانیہ کے ہمت دلانے پر بالآخر وہ بول ہی پڑا۔ اُس کے جواب دیتے ہی مس ثانیہ نے پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں اور سبھی طلبا سے بھی تالیاں بجانے کے لیے کہا۔
ہر روز یوں ہی مس ثانیہ اُس کی خوب رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتیں۔ ہر اچھی مثال وسیم سے منسوب کی جانے لگی۔ اب وسیم بلا نقص جوابات دے کر سب کو متاثر کرتا۔ اُس کے بال بھی کافی حد سنورے ہوتے اور کپڑوں پر میل کچیل بھی دکھائی نہ دیتا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے کپڑے خود دھوتا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے سال گزر گیا اور وسیم نے پنجم جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس ثانیہ کے لیے تحائف لے کر آئے اور ان کی میز پر رکھتے گئے۔ ان خوب صورت سے پیک کیے گئے تحفوں میں ایک ایسا تحفہ بھی موجود تھا جسے پرانے اخبار میں سلیقے سے لپیٹا گیا تھا۔ بچوں نے وہ تحفہ دیکھا تو ہنسنے لگے۔ کسی کو یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ ایسا تحفہ وسیم ہی لا سکتا ہے۔ مس ثانیہ نے تحائف کے ڈھیر میں سے وسیم کا لایا گیا تحفہ اُٹھایا۔ جب انھوں نے کھول کر دیکھا تو اُس کے اندر ایک لیڈیز پرفیوم تھا۔ پرفیوم کی شیشی نصف تک استعمال شدہ تھی اور ساتھ ہی ہاتھ میں پہننے کے لیے ایک کڑا بھی موجود تھا۔ کڑے کے بیشتر موتی نکل چکے تھے۔ مس ثانیہ نے مسکراتے ہوئے پرفیوم کو اپنے لباس پر چھڑکا اور ہاتھ میں کڑا پہن لیا۔ بچے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وسیم بھی ہکا بکا کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ مس ثانیہ کے پاس آیا اور اٹکتے ہوئے بولا:
”مس! آج آپ سے بالکل میری امی جیسی خوش بو آ رہی ہے۔“
٭
وقت گزرتا گیا اور ہر سال کے اختتام پر مس ثانیہ کو ایک خط موصول ہوتا جو وسیم کی جانب سے بھیجا جاتا۔ وہ مس ثانیہ کو ڈھیروں دعائیں دیتا۔ پھر وسیم کی سکول کی پڑھائی ختم ہو گئی اور خطوط کا سلسلہ بھی رُک گیا۔ کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ مس ثانیہ سکول سے ریٹائر ہو گئیں۔ وسیم سکالرشپ کے ذریعے ڈاکٹر بن گیا۔
ایک دن مس ثانیہ کو وسیم کا خط ملاجس میں لکھا تھا:
”اس مہینے کی پچیس تاریخ کو میری شادی طے پائی ہے۔ میں آپ کی موجودگی کے بغیر شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میں پتا لکھ رہا ہوں، آپ نے ضرور شرکت کرنی ہے۔“
مس ثانیہ خود کو روک نہ سکیں۔ انھوں نے گھر والوں کو اطلاع دی اور شادی والے دن گھر سے دوسرے شہر روانہ ہو گئیں۔
جب وہ بتائے گئے پتے پر پہنچیں تو کچھ تاخیر ہو چکی تھی۔ انھیں لگا شاید تقریب ختم ہو چکی ہے مگر وہ شدید حیران ہوئیں کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹر، بزنس مین یہاں تک کہ نکاح خوان بھی اُکتائے کھڑا تھا۔ پھر سب نے دیکھا کہ ایک بزرگ خاتون مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئیں اور وسیم اُن کی جانب لپکا۔ اُس نے مس ثانیہ کو سہارا دینے کے لیے اُن کا ہاتھ پکڑا۔ اُس ہاتھ میں وہ کڑا اب بھی موجود تھا۔ وسیم انھیں سیدھا اسٹیج پر لے آیا اور صوفے پہ بٹھا کر مائیک سنبھال لیا۔
”تاخیر کے لیے سبھی مہمانوں سے معذرت، میں اپنے دوستوں سے کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ آپ مجھ سے اکثر میری ماں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں نے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ کو ماں سے ملواؤں گا۔ عزیز دوستو! یہ ہیں میری ماں! مجھے اس مقام تک پہنچانے کا سہرا ان کے سر ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہر طالب علم کو ایسی ماں عطا فرمائے۔“
وسیم نے کپکپاتی آواز کے ساتھ مائیک چھوڑ دیا۔ تقریب میں موجود سبھی لوگوں کی آنکھیں پر نم تھیں اور مس ثانیہ کے لرزتے لب ذات باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتے نہ تھکتے تھے۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں