man holding bamboo stick on rice field during daytime 51

پاکستان کے موجودہ مسائل اور ان کا حل

تحریر:مددعلی

سویابین کا قصہ تمام ہوا. . .
پولٹری فارمرز مارے گئے. . .
پولٹری انڈسٹری کے لیے غور و فکر کا مقام
اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی کابینہ نے سویابین کے مسئلے پر وزارتی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دے دی جس کے مطابق آئندہ ملک میں جی ایم او سویابین کا بیج منگوانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سویابین کا نان جی ایم او بیج منگوانے کی اجازت ہو گی، کراچی پورٹ پر موجود سویابین کے دو جہازوں کا مال ری ایکسپورٹ کیا جائے گا اور سمندر میں موجود جہازوں کا مال چیک کیا جائے گا۔ کینولا کے بیج کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا،
وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ چودھری طارق بشیر چیمہ نے پریس کانفرنس میں برملا کہا کہ جی ایم او سویابین جو نقصان دہ ہے اس کی درآمد کی قطعی اجازت نہیں دی جائے گی حکومت نے اگر یہ کام کروانا ہے تو کسی اور سے کروا لے میں بالکل نہیں کروں گا۔
دوسری طرف چیئرمین پولٹری ایسوسی ایشن نے بھی ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہہ دیا کہ سویابین کے مسئلے پر سالونٹ پلانٹ والوں کے چند ممبران نے دھوکا کیا ہے انہوں نے مرغی کے گوشت اور انڈے کے مہنگے داموں فروخت ہونے کا بھی دعویٰ کیا اور کہا کہ سویابین کے بحران کے باعث پولٹری انڈسٹری یک دم بند ہونے کا خدشہ ہے جس سے 15 لاکھ خاندان معاشی مشکلات کا شکا ر ہوں گے حکومت اپنے مسئلے پر غور کرے۔ اس وقت مکئی کے ریٹ کم ہو گئے ہیں اور عوام کو مرغی اور انڈے مہنگی قیمت پر مل رہے ہیں۔
حکومت کی طرف سے انکار کے بعد اب فوری طور پر پولٹری انڈسٹری کو اپنا لائحہ عمل طے کرنا ہو گا ایک بات تو طے شدہ ہے کہ فوری طور پر مرغی اور انڈے کی پیداوار میں 50 فیصد تک کمی آئے گی کیونکہ جو پولٹری فیڈ تیار ہو گی اس میں ایف سی آر کا پہلے جیسا بہتر ہونا ناممکن ہے۔ اب ایک بوری فیڈ کھا کر 20 کلو وزن حاصل ہو گا اور پولٹری 20 سال پہلے کی جگہ پر آ جائے گی، بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور پولٹری سے وابستہ تمام لوگ معاشی مشکلات کا شکار ہوں گے جس کے لئے پولٹری والوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے، اور آئندہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، اس بحران سے ایک سبق تو حاصل ہو گیا کہ کسی بھی صنعت کو اپنی پیداوار کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے ملکی وسائل پر ہی انحصار کرنا چاہیے۔ بیرونی دنیا اور ٹیکنالوجی پر حد سے زیادہ انحصار کرنا بے وقوفی کی بات ہے۔ پاکستان میں پولٹری کے علاوہ ڈیری کی صنعت بھی درآمدات پر انحصار کر رہی ہے جس کو بھی آنے والے دنوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان کا مستقبل اب صرف اور صرف زرعی شعبہ سے وابستہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ خوراک کے مسئلے پر کسی بھی دوست ملک پر بھی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اپنی خامیاں خود دور کرنی ہوں گی اپنے اخراجات میں توازن پیدا کرنا ہو گا اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے ہوں گے۔زرعی شعبہ میں سائنسدانوں اور ماہرین کو کام کرنا پڑے گا حکومت کے پلے اب پیسہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس وسائل ہیں کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کر سکے اس لیے عوام کو اپنے اوپر انحصار کرنا پڑے گا اور اپنی روٹی روزی کے لئے خود محنت کرنا ہو گی۔ حکومت اب کوئی بھی ہو مشکلات کا جو دور شروع ہو چکا ہے وہ جلد دور ہونے والا نہیں ہے اب دفاع میں ایٹم بم کی نہیں بلکہ خوراک کے بم کی ضرورت ہے اگر آپ کے پاس خوراک نہیں ہے تو ایٹم بم آپ کو کوئی تحفظ نہیں دے سکتا۔ یہ بات تمام اداروں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے اور اپنی فکر میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ سیاست دانوں کے لیے اب آخری سبق یہی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی تذلیل کی بجائے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے سمجھوتہ کر لیں اور غداری کے تمغے ایک دوسرے کے گلوں میں ڈالنے کی بجائے اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔ فوج ، بیوروکریسی، عدلیہ اور تمام اداروں کو اپنے معاملات پر غور کرنا چاہیے، خارجہ پالیسی میں بھی اہم تبدیلی کی ضرورت ہے، اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر درست کیے جائیں اور اپنے نظریات اور خیالات کو کسی دوسرے ملک میں ایکسپورٹ کرنے کی بجائے اپنے پاس ہی رکھا جائے تو اسی میں عافیت ہے۔ پاکستان کو پاکستان بنایا جائے نہ کہ منتشر خیال لوگوں کی آماجگاہ۔ مشکلات بعض اوقات کامیابی کے راستے بھی کھول دیتی ہیں لیکن اگر ان کا مقابلہ کیا جائے تو !!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں