95

بڑے اور غیر مقبول فیصلے ناگزیر

تحریر:حسن اختر

اتحادی حکومت نے بالآخر بڑے فیصلے کرنا شرع کر دیے ہیں۔ بظاہر وہ بہت زیادہ خوشگوار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پسندیدہ نہیں ہیں لیکن ضروری ہیں انتہائی ضروری ہیں ان کے نتائج اچھے نکلنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ حکومت اپنے ایسے فیصلوں کا دفاع بھی کر رہی ہے۔انہیں ایسا کرنا بھی چاہیے۔ ایسے فیصلے ناگوار مگر ضروری نظر آ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں ایسے فیصلے ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ حکومت کے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں بھاری اضافے کے بعد پٹرول 30روپے اضافے کے ساتھ 179.88روپے فی لٹر اور ڈیزل 30روپے اضافے کے بعد 174.15 روپے لٹر ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ فی الحقیقت اسے پٹرول بم کہاجا سکتا ہے جو حکومت نے عوام پر گرا دیا ہے۔ تین پہلے روز دوہا میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات مکمل ہوئے انہوں نے ہماری ساری باتیں ماننے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات پر دی گئی اعانت یعنی سبسڈی واپس لئے بغیر معاملات آگے بڑھانے سے قطعاً انکار کر دیا، اس سے ظاہر ہوا کہ شاید مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور پاکستانی معیشت بند گلی میں چلی گئی ہے، لیکن اصل بات جو طے ہوئی کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور پاکستانی وفد وزیراعظم سے ہدایات لے کر آگاہ کرے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ فنڈ کی شرط ماننے کا عملی اظہار ہے۔ گویا معاملات آگے بڑھیں گے۔ حکومت کے بڑے فیصلے کا ایک مثبت اور پاکستانی معیشت کی بہتری کے لئے درکار نتیجہ، یعنی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو کر رہے گا۔ ان سے ہمیں درکار قرض بھی مل جائے گا اور قرض ملنے کے ساتھ ہی دیگر عالمی اداروں اور ممالک سے بھی امداد ملنا شروع ہو جائے گی۔ ہماری جاں بلب معیشت کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ پاکستان کا سری لنکا بن جانے کا خدشہ بھی ختم ہو جائے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت قومی معیشت کو بحران سے نکال لے گی۔ دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے،یعنی پٹرول بم کے گرائے جانے کے بعد مہنگائی کی ایک بڑی لہر آئے گی۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ہیٹ ویو نے تباہی مچا رکھی ہے۔ ہماری زراعت اور نظام آبپاشی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ ”بندر وائرس“ کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے،ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ”منکی وائرس“ ویو نے پاکستان میں 100سے زیادہ افراد کو متاثر کر دیا ہے۔ گویا کورونا وائرس کی طرح یہ وائرس بھی یہاں پہنچ چکا ہے اور اس نے پنجے گاڑنا شروع کر دیئے ہیں ابھی اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی ہے، لیکن ”بندر وائرس“ کے وبا بننے کا خطرہ حقیقت بھی بن سکتا ہے۔ہمیں اسے روکنے کے لئے اس کا تدارک کرنے کے لئے بھی ہماری حکومت کو بڑا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں تو دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ حالیہ پٹرول بم کے نتائج عوام کے لئے کسی طور بھی قابل قبول نہیں۔ ڈالر کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے جو روپے کو بے قدر کر رہی ہے۔ مہنگائی کا طوفان اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ معیشت پر حملہ آور ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ شدید ہے اور اس کے ہماری انفرادی معیشت یعنی عوام پر ناقابل بیان منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک عام آدمی کی معیشت کا پہلے بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہے قدر زر میں گراوٹ اور ذرائع آمدنی میں جمود کے باعث فرد کی قوت خرید گھٹتی چلی گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ یقیناً ناقابل برداشت اور جان لیوا ہے۔ اس اضافے کے دور رس اثرات تو سردست پتہ نہیں کیا ہوں گے،لیکن عوامی معیشت پر فوری اثرات یقینا تباہ کن ہوں گے۔ دوسرا بڑا فیصلہ جو حکومت نے کیا وہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کا تھا۔ عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار کے اعلان کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ کسی کو جتھہ لے کر اسلام آباد آنے اور اپنا مطالبہ منوانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی۔یہ ایک بڑا فیصلہ تھا کیونکہ عمران خان سرکاری و ریاستی معاملات میں مداخلت کرنے اور دھونس دھاندلی و دشنام طرازی کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے لئے مشہور ہیں، وہ بڑھکیں بھی لگاتے رہتے ہیں۔ شیخ رشید تو عمران خان کے اعلان کردہ حالیہ لانگ مارچ کو خونی بھی قرار دے چکے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد آئیں گے اور اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت نے ان کے کسی بھی مطالبے کے سامنے سرنگوں نہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور فیصلہ ہوا کہ انہیں اس طرح ریاست کو مفلوج نہیں کرنے دیا جائے گا۔ بطور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے لانگ مارچ کو فی الاصل شارٹ مارچ بنا کر دکھایا۔بڑے بڑے بڑھک مار لیڈر اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل نہ پائے۔ حد تو یہ ہے کہ شیخ رشید جیسے بڑھک باز سامنے نہ آ پائے۔ رانا ثناء اللہ نے اپنی حکومت کے بڑے فیصلے پر عمل درآمد کرکے ریاستی رٹ قائم کر دکھائی، اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے طریقہ کار بارے معاملات کے حوالے سے سابقہ حکومت کی ترامیم کو یکسر ختم کرنے اور قومی احتساب آرڈیننس میں مزید ترمیم کرنے کے بل منظور کر لئے ہیں جس کے مطابق صوبائی اور وفاقی ٹیکس معاملات کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت میں شامل کئی سیاسی رہنما اس حوالے سے اپنے تجربات کی بنیاد پر اس بات پر متفق پائے گئے ہیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنانے کی بجائے، حقیقی احتساب کا ایک ایسا ادارہ بنایا جانا چاہیے جو سیاسی اور وقتی ضروریات کے مطابق نہیں،بلکہ آئین اور قانون کے مطابق احتساب کے عمل کو جاری رکھے اور اس طرح معاملات میں بہتری پیدا ہو۔
اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ احتساب بیورو سیاسی نہیں، بلکہ قومی ادارہ ہونا چاہیے جس کا سربراہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت کے بغیر احتساب کے عمل کو آئینی و قانونی انداز میں چلانے احتساب صرف ہونا ہی نہیں چاہیے،بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ ایسے فیصلے قومی معیشت اور سیاست کے لئے ضروری ہیں اور ان کے اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں