119

اورینگ میڈان……..ایک جادوئی بحری بیڑا

تحریر: عاطف حسین شاہ


آج ہم آپ کو ایک حیران کن دنیا کی سیر کرانے لے جا رہے ہیں۔ایک ایسی دنیا جو ہمارے تصورات کی حد سے پار وجود رکھتی ہے۔قدرت نے انسان کو اِس وسیع کائنات کے فہم و ادراک کے لیے عقل عطا کی ہے۔اِس کے باوجود پروردگار نے ہمارے گردوپیش کئی اسرارو رموز رکھ چھوڑے ہیں،جن کا احاطہ کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے اور یوں بے شمار کہانیاں جنم لینے لگتی ہیں۔
ملائیشیا اورسمراٹا جزیرے کے درمیان،مصروف ترین اور تنگ آبنائے واقع ہیں، جن کا ربط دنیا کے عظیم معاشی ممالک،چین،انڈیا اور جاپان کے ساتھ ہے۔تقریباً 260 بحری بیڑے ان آبناؤں سے روزانہ کی بنیاد پر گزرتے ہیں جن پر دنیا کا ایک چوتھائی تجارتی سامان لدا ہوتا ہے۔یہیں پر اورینگ میڈان کو ایک حیران کن اور شدید حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔یہ کہانی جون 1947ء سے شروع ہوتی ہے جب مَلاکا کے آبنائے سے خطرناک پیغامات وصول کیے گئے جو اُس وقت ایک نامعلوم مقام تھا۔پیغام دو حصوں پر مشتمل تھاجس سے موجودہ صورت حال میں اضطراب پھیل گیا۔پیغام کا پہلا حصہ کچھ یوں تھا:
”تمام افسران بشمول کپتان مرگئے ہیں۔چارٹ روم اور جہاز کے پُل پر لیٹے ہوئے ہیں۔ممکنہ طور پر پورا اسٹاف مرچکا ہے۔“
خطرے سے گھری ہوئی اس صورت حال سے جانکاری کے بعد یہ سادہ الفاظ سنائی دیے:
”میں مررہا ہوں…..“
اس نکتے کے بعد کچھ سنائی نہ دیا۔اتھارٹیز نے خود کو وقت کے خلاف ایک دوڑ میں مبتلا پایا۔بحری جہاز کا مقام،اُن کے سامنے ایک سوال بن کر کھڑا تھا۔تلاش کے ابتدائی مرحلوں میں کچھ بھی دریافت نہ ہوسکا۔بالآخر برطانیہ اور جرمنی کے سمعی مقامات کی مدد سے وہ سگنل کا منبع ماپنے میں کامیاب ہوگئے۔جائے وقوعہ بحر ہند کے وسط میں دریافت ہوا جو کہ ایک مستحکم آبنائے ہے۔سلور سٹار کاایک امریکی مرچنٹ سرچشمے کے قریب ترین تھا۔اس نے اپنے ماتحتوں کو کھوج کے لیے روانہ کیا۔سلورسٹار کیپٹن نے چند ہی گھنٹوں میں سطح سمندر پر ایک بحری جہاز دیکھا،جو کہ اورینگ میڈان تھا۔اورینگ میڈان کھلے سمندر پر بے مقصد جھول رہا تھا،گویا وہ کسی کے کنٹرول میں نہ ہو۔اُس میں موجود اسٹاف سے رابطے کی ہرکوشش ناکام رہی۔ظاہری آثاربتلارہے تھے کہ وہاں زندگی کی کوئی علامت نہیں ہے۔جونہی وہ جہاز کے تختے کی جانب بڑھے،انھیں وہاں تمام بالکونیاں مردہ اجسام سے آلودہ نظر آئیں۔ہرایک کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں اور خلا کو گھور رہی تھیں۔منہ ممکنہ حد تک کھلے ہوئے تھے۔اُن کے چہرے دہشت زدہ تھے۔اُن کی ٹانگیں اور بازو ایک سمت میں جم سے گئے تھے۔اس سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ انھوں نے دفاع کی کوشش کی تھی۔ حتیٰ کہ جہاز کا کتا بھی مردہ حالت میں پایا گیا۔اس کے دانت باہر نکلے ہوئے تھے اور ہونٹ ایک بھیانک گچھے کا روپ دھارے ہوئے تھے۔ریڈیو آپریٹر جس نے ایس او ایس سگنل بھیجے تھے،وہ اپنی جگہ پر اِس حالت میں مردہ پایا گیا کہ اس کا جسم کمیونیکیشن کے آلات پر بے ترتیب انداز میں پھیلا ہوا تھا۔جہاز کی ابھری ہوئی بالکونی پر کپتان کی میت تھی۔دیگر تمام افسران چارٹ روم میں تھے۔انجینئرنگ اسٹاف اپنے مقرر کردہ سٹیشنوں پر تھا۔سب کے چہرے خوف و ہراس کی عکاسی کررہے تھے۔ ہرکوئی کرب ناک حالت میں مرا پڑا تھا۔تاہم مرنے کی وجہ اخذ نہ ہوسکی۔
عجیب بات یہ تھی کہ بحری جہاز بالکل سلامت تھااور اس کا عملہ کسی بھی چوٹ کا شکار نہیں تھا بلکہ ان کے اجسام مکمل صحت مند تھے۔آبنائے پر صرف یہی ایک حیران کن واقعہ نہ تھا۔عملے نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ گرمیوں کے اس صاف مطلع میں درجہ حرارت سینتیس ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر رہا تھامگر ہوا میں خنکی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی تھی۔ان تمام حقائق کے باوجود سلور سٹار کے کیپٹن نے بحری جہاز کو مزید کسی خطرے سے بچاؤ کے لیے کھینچ کر واپس لے جانے کا فیصلہ کیا۔اس نے رسیوں کی مدد سے اپنا جہاز،اورینگ میڈان کے ساتھ باندھ دیا۔کچھ لمحوں بعد دونوں جہازوں کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرگیا۔اتنے میں اورینگ میڈان کی بالکونی کے نچلے حصے سے دھواں نمودار ہونے لگا۔حفاظتی کارندے حرکت میں آگئے۔وہ پھرتی سے کھینچے جانے والی رسیوں کو کاٹنے میں عین وقت پر کامیاب ہوئے۔پھر اورینگ میڈان دھماکے کی اس قدر شدت سے تباہ ہوا کہ اُس کا ڈھانچہ پانی سے باہر فضا میں معلق ہوا اور پھر ریزہ ریزہ ہوکر کبھی نمودار نہ ہونے کے لیے واپس پانی میں غوطہ زن ہوگیا۔خوش قسمتی سے سلورسٹار کے عملے میں سے کوئی بھی دھماکے سے متاثر نہ ہوا۔
ناضرین! یہ کہانی دستاویزی طور پر پہلی مرتبہ مئی 1954ء کو رپورٹ کی گئی۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بحری جہاز ماورائی یا طلسماتی قوتوں کے زیرعتاب ہوا۔منطقی دلائل کی روشنی میں کوئی کیسے ان حیران کن اموات کی وضاحت کرسکتا تھا؟
لیکن کوئی تو منطقی وجہ ہوسکتی تھی….
آٹو مِئیک نام کے جرمن مصنف نے1954ء میں اپنی ریسرچ شائع کی جس میں خصوصی طور پر یہ مذکورتھا کہ اورینگ میڈان پر مہلک کیمیکلز لدے ہوئے تھے۔ جیسا کہ پوٹاشیم سائنائڈ اور نائٹرو گلسرین،جو کہ قطعاً غیر قانونی سمگلنگ میں شمار ہوتے تھے۔اس پر یہ تھیوری پیش کی گئی کہ سمندری پانی کھیپ کے اندر داخل ہوگیا اور پھر پوٹاشیم سائنائڈسے تعامل کر گیا،جس سے زہرلی گیسیں وجود میں آئیں اور اُس عملے کو زہرآلود کرگئیں۔بعد ازاں نمکین پانی گلسرین تک جاپہنچا،جس سے چنگاری بھڑکی اور نتیجے کے طور پر ہولناک دھماکا ہوگیا۔اِس تھیوری پر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ حفاظتی کارندے سائنائڈ کے مہلک اثرات سے کیسے محفوظ رہے۔اِس تھیوری کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ سائنائڈ کا اثر تیز ہوتا ہے،جس سے فورًا موت واقع ہوجاتی ہے۔جب کہ وہاں مردہ اجسام پر دہشت اور تکلیف کے آثار تھے۔
دیگر تحقیقات سے یہ سامنے آیا کہ جہاز پر ٹَیبَن نام کا کیمکل تھاجو کہ انتہائی زہریلا اعصابی ایجنٹ ہے۔ٹَیبن دھیرے دھیرے ان اجسام میں سرایت ہوتا گیا نروس سسٹم کو متاثرکرکے مسلز کو منجمد کرتاگیا۔
اورینگ میڈان کی کہانی کو ہم تصدیق شدہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی غیر تصدیق شدہ،کیوں کہ یہ اس میں شواہد کا فقدان ہے۔یہ ایک سمندری کہانی ہے اور سمند ر کے اندر کیا ہے،اس پر صرف پانچ فیصد تک رسائی حاصل کی جاسکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں