67

وہ ایک ہیولا __ محمد فیصل علی

یہ مغرب کے بعد کا وقت تھا۔ میں نے نماز ادا کر لی تھی اور مدرسہ کے صحن میں کھڑا اپنے ہم مکتب ساتھیوں سے گپ شپ لگار ہا تھا۔ اچانک میرے کانوں میں استادصاحب کی آواز پڑی:
”علی بیٹا! ذرا گھر سے ایک کام تو کر آؤ۔“
میں تیزی سے مڑا۔استاداحمد صاحب میرے سامنے تھے۔
”جی جناب، ٹھیک ہے، کام بتایئے۔“
میں نے مؤدب ہوتے ہوئے کہا۔
”گھر جاؤ اور وہاں سے میری کتاب لے آؤ، میز پر پڑی ہوگی تفسیر بیضاوی والی۔“
استاد صاحب نے ہدایات دیں۔
”جی ٹھیک ہے۔“
میں نے کہا اور چل پڑا۔ استاد صاحب کا گھر مدر سے سے دوگلیوں کی دوری پر واقع تھا۔ چوں کہ استاد صاحب کی اہلیہ میری قریبی رشتہ دار تھیں، اس لیے میں ان کے گھر آ تا جاتار ہتا تھا۔ اب میں تیزی سے چلا جار ہا تھا۔گلی میں کافی اندھیرا تھا اور چاروں طرف سناٹا چھا یا ہوا تھا۔ اس وقت گلی میں میرے قدموں کی چاپ کے علاوہ اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اچانک مجھے عجیب سا احساس ہوا۔ یوں لگا جیسے کسی نے میرے کانوں کے قریب آہستہ سے سانس لیا ہو۔ ایسا کئی بار محسوس ہوا، عین اسی وقت گلی میں پانچ چھے قدموں کی آوازیں گونجنے لگیں، جیسے پانچ چھے لوگ جلدی سے چلتے ہوئے آ رہے ہوں۔ میں نے رک کر پیچھے دیکھاتوکوئی بھی نہ تھا۔ اسی وقت یکلخت آوازیں آنا بھی بند ہوگئیں۔
میں نے دوبارہ چلنا شروع کیا تو آوازیں پھر سے آنے لگیں اور کانوں کے قریب آہستہ سے سانس لینے کا احساس بھی پہلے کی نسبت بڑھ گیا۔ یہ صورت حال لرزہ خیزتھی۔ میری عمراس وقت پندرہ برس تھی اور میں خودکو بہادراورمضبوط سمجھتا تھا لیکن اس وقت میری پیشانی سے پسینہ بہنے لگا تھا، میرے ہونٹ خشک ہو گئے تھے اور جسم ہولے ہولے کا نپنے لگا تھا۔ میں دل ہی دل میں ”یا حفیظ یا حفیظ“ کا ورد کرنے لگا تھا۔ اچا نک وہ آوازیں بالکل قریب آ گئیں اور یوں لگا کہ کوئی میرے کپڑوں کو ہاتھ لگارہا ہے۔ مجھے سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ اس وقت میرادل بھی زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا۔ مارے خوف کے میرے پاؤں زمین کے ساتھ چپک سے گئے تھے اور قدموں نے اٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب قدموں کی آوازیں اور آہٹیں میرے چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔ میں دہشت زدہ کھڑاتھا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہور ہا ہے۔ اچانک میں نے ایک کر یہہ صورت والاسرخ ہیولا ساد یکھا، جس کی آنکھوں سے لہو ٹپک رہا تھا اور پھر میرے منھ سے نکلی ایک لرزہ خیز چیخ سناٹے کے پردے کو چیرتی چلی گئی اور میں زمین پر گرتا چلا گیا، پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔
٭
مجھے ہوش آ یا تو میں استاد صاحب کے گھر میں ایک چارپائی پر پڑاتھا اور میرے ساتھ ان کا بیٹاز بیر موجودتھا۔ چوں کہ میں ان کے گھر کے باہر ہی گراتھا اور یقینا انہوں نے میری چیخ بھی سنی ہوگی، اس لیے وہ مجھے اندر لے آئے تھے۔
”کیا ہواعلی؟ خیر تو ہے، میں صحن میں ہی تھا جب میں نے تمہاری چیخ سنی۔“
زبیر نے مجھ سے پوچھا۔
”وہ….وہ کک….کچھ تھا باہر۔“
میں ہکلا یا۔
”کیا تھا؟“
اس نے الجھن بھرے لہجے میں پوچھا۔
”میں نے کوئی بلا دیکھی ہے۔“
میں نے رود ینے والے لہجے میں کہا۔ میری بات سن کر ز بیرکھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ ہنس رہا تھا اور میں ہونق بنا اس کا منھ تک رہا تھا۔ مجھے اس کا یہ انداز پسند نہیں آ یا تھا، لہٰذ امیں چار پائی سے نیچے اترا اور کہا:
”مجھے استاد صاحب کی میز سے تفسیر بیضاوی والی کتاب اٹھادو، میں چلتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے اور وہ بلا؟ اس کا کیا بنے گا؟ اچھا چھوڑ و، میں ابھی آیا۔“
زبیر نے میرامذاق اڑایا، میں خاموش رہا۔ زبیراٹھ کھڑا ہوا اوراندر کمرے میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی تو اس نے تفسیر بیضاوی اٹھارکھی تھی۔
”چلو، میں بھی مدر سے جار ہا ہوں، اکٹھے چلتے ہیں۔“
زبیر نے کتاب مجھے تھماتے ہوئے کہا اور ہم مدر سے کی جانب چل پڑے۔
٭
یہ رات کا تیسرا پہر تھا۔ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔شعور بیدار ہوتے ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ کمرے میں ہم چار دوستوں کے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔ایک عجیب سا خوف رگ و پے میں سرایت کر نے لگا تھا۔ مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہورہی تھی لیکن میں نے ضبط سے کام لیالیکن کب تک؟ آخر مجبوراً مجھے اٹھنا پڑا۔ میں کمرے سے باہر نکلا اور بیت الخلا کی طرف بڑھنے لگا۔ ہمارے مدرسے میں چاروں طرف کمرے اور درمیان میں صحن تھا۔ صحن کچا تھا۔ اس وقت پورا مدرسہ محوخواب تھا۔ میں بیت الخلا چلا گیا۔ واپسی پر میں نے ویسے ہی ماحول کا جائزہ لینے کے لیے دائیں بائیں نگا ہیں دوڑائیں اوراگلے ہی لمحے میرادل دھک سے رہ گیا۔ میرے سامنے ایک ایسا منظر تھا جس کے بارے میں، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مدرسے کے صحن میں دو چھوٹے قد والے بچے کھیل رہے تھے۔ یہ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ ایک بچہ خالی بوری پر بیٹھا تھا جب کہ دوسرا اس بوری کو کھینچے صحن کی دوسری طرف گھسیٹتا ہوا لیے جارہا تھا اور وہ اسی طرح چکر پہ چکر لگار ہے تھے۔ ان کے چہرے جھکے ہوئے تھے اور مجھے صاف دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
اچانک نظر آنے والی اس مخلوق نے مجھے خوف زدہ کر دیا تھا۔ میں رک کران کی کارستانیاں دیکھ ر ہا تھا کہ اچانک میں چونک گیا اور سردی کی تیز لہر میرے وجود میں دوڑ گئی۔میرے دیکھنے کے دوران ہی وہ دونوں بچے اچانک غائب ہو چکے تھے۔ عین اسی وقت میرے کانوں کے قریب آہستہ آہستہ سانس لینے کی آواز محسوس ہوئی جیسے پہلے ہوئی تھی اور میں ہذیانی انداز میں چیختا ہوا اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے کنڈی لگائی اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ کمرے میں زیرو بلب روشن تھا۔ جیسے ہی میں اپنے بستر کے قریب پہنچا، اچانک میرے کانوں میں ”ٹک ٹک“اور ”ٹپ ٹپ“ کی سی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے غور کیا تو میرے بستر پرکسی سیال مادے کے قطرے گر رہے تھے۔ میں نے ہاتھ لگایا تو میرے ہاتھ لال ہو گئے۔ میراسانس سینے میں رک گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے او پر نظر گھمائی اور پھر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔او پرچھت پر دو چھوٹی چھوٹی بچیاں چپکی ہوئی بیٹھی تھیں اور وہ ایک جانور کا گوشت کاٹ کر ہنڈیا میں ڈال کر پکارہی تھیں۔اس وقت ان کی نگاہیں میری طرف مڑیں جو کہ آگ کی طرح روشن تھیں۔ یہ منظردیکھ کر میں پوری قوت سے چلا تا ہوا دوڑا اور کمرے کے دوسرے کونے میں پڑی چار پائی سے جاٹکرایا۔پھر مجھے کوئی ہوش نہ ر ہا۔
٭
ان غیر معمولی واقعات نے میرے تمام معمولات زندگی تہ وبالا کر دیے تھے۔ چناں چہ میں نے ایک روز یہ ساری باتیں اپنے استادصاحب کو بتادیں۔ استاد صاحب نے مجھے کہا:
”لگتا ہے کہ کوئی شریر جادوگر جن تمہیں تنگ کر رہا ہے، کیوں کہ انسانوں کی طرح جنات بھی جادوگر ہوتے ہیں۔ تم پابندی سے آیت الکرسی پڑھا کرو، بیت الخلا کی دعائیں بھی یاد کرکے پڑھا کرو، اس کے علاوہ معوذتین صبح شام شروع کر دو۔“
میں نے ان کی ہدایات سنیں اور صرف ”جی جناب“ کہنے پراکتفا کیا اور پھرا جازت لے کر باہر آ گیا۔
یہ دو پہر کا وقت تھا۔ میں اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔ مجھ پر آہستہ آہستہ نیند طاری ہونے لگی۔ابھی میں پوری طرح سویانہیں تھا کہ اچانک مجھے کمرے کے کونے میں ایک ہیولا سا دکھائی دیا۔ وہ فضا میں معلق تھا۔ اس کا چہرہ گہرا سیاہ تھا اور زبان اور دانت شد ید سرخ۔اس نے اپنامنھ کھولا اور پھر وہ رفتہ رفتہ میری طرف بڑھنے لگا۔ میں نے آیت الکرسی شروع کر دی۔ اچا نک ایک عجیب کام ہوا، آیت الکرسی کے پڑھتے ہی اس کے جسم کے حصوں میں آگ لگ گئی تھی۔ میں حیران تھا کہ اس طرح کی باتیں تو ہم کتابوں میں پڑھتے تھے کہ شیاطین کو آیت الکرسی سے آگ لگ جاتی ہے مگر آج یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہور ہا تھا۔ میں نے آیت الکرسی مکمل کی، ادھروہ ہیولا جلتے وجود کے ساتھ غائب ہو گیا۔
اس واقعے کے بعد وہ ہیولا مجھے آج تک نظرنہیں آ یا، نہ ہی کچھ اور پیش آیا۔ البتہ اس واقعے کے بعد مجھے تیز بخار نے آلیا۔ میں چھٹی لے کر اپنے گا ؤں واپس آ گیا اورکئی دن تک بستر پر بیمار پڑارہا۔
قارئین!آپ کیا کہتے ہیں کہ وہ ایک ہیولا یا وہ مخلوق کون تھی؟ مجھے تو آج بھی وہ لمحات یاد آتے ہیں تو میرا وجود خوف میں ڈوب جا تا ہے اور اعضا سن ہو جاتے ہیں۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں