102

خاموش محبت ___ حافظ بلال شاہ

وہ ایک سرد رات تھی۔آسمان پر کہیں کہیں ستارے ٹم ٹما رہے تھے۔چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی۔آگ کاالاؤروشن کر کے ہم چاروں اس کے گردآلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ہماری ملاقات کافی دنوں کے بعد ہوئی تھی۔کالج میں ایک ساتھ پڑھنے کی وجہ سے ہمارا یارانہ ہوا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا گیا۔سب مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور مل بیٹھنے کے لیے ہر دویا تین ہفتے بعد وقت نکالا کرتے تھے۔ہر ملاقات میں علیحدہ جگہ کا انتخاب کیا جاتا تھا۔جبران کی جیپ ہماری سواری ہوتی تھی۔ اِس باردیہی آبادی سے دور ویرانے میں ہم موجود تھے۔جیپ کو ذرا فاصلے پر کھڑا کر کے ہم کھانے کے بعد آگ کے گرد بیٹھے گرما گرم کافی کا لطف لے رہے تھے۔ باتوں کا سلسلہ تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ہر سو سنّاٹا ہونے کی وجہ سے ہماری آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔ایسے میں جبران نے ایک ایسا انکشاف کیا جس نے ہمار ی ریڑھ کی ہڈیوں میں سنسنی دوڑا دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسی وادی کی سیر کر چکا ہے،جہاں اُس کا سامنا پراسرارطاقتوں سے ہوا۔اُس وادی سے اس کے لیے واپسی مشکل ہو گئی تھی لیکن پھر قسمت نے اُس کاساتھ دیا تھا اور وہ وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ہماری نظریں آپس میں ٹکرائی تھیں اورپھر یکایک فضا قہقہوں سے لرز اُٹھی۔یہ قہقہے دراصل ہم اپنے اندر کے خوف کو دبانے کے لیے لگارہے تھے لیکن ہمارے یہ قہقہے جبران کے دماغ پر ہتھوڑوں کی مانند برسے۔وہ شدید غصے کے عالم میں وہاں سے اُٹھ کر چلاگیا۔ہمیں سخت ندامت ہوئی کہ خواہ مخواہ اُسے ناراض کر دیا۔اِس سے پہلے کہ ہم اُسے منانے کے لیے کوئی ترکیب سوچتے،وہ اپنی جیپ سمیت ہمارے سامنے تھا۔اب وہ کلچ دبا کر ریس بڑھا رہا تھا،جس کی وجہ سے فضا میں عجیب سی دہشت پھیلنے لگی تھی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ ہم شرافت سے جیپ میں سوار ہو جائیں۔ سو ہم تینوں جیپ میں سوار ہو گئے۔
جیپ فراٹے بھرتے ہوئے ٹیڑے میڑھے راستوں پر گام زن تھی۔ہم تینوں نے اپنے لب سی رکھے تھے۔جبران کے چہرے پر سختی کے آثار ابھی تک موجود تھے۔میں نے اُس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک لطیفہ سناناشروع کیا ہی تھا کہ اُس نے”شش….شش“ کر کے مجھے خاموش کردیا۔گاڑی کی ہیڈلائٹس میں سامنے کا نظارہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔سڑک کی دونوں جانب درخت ہی درخت تھے،جن کی جھکی ہوئی شاخیں عجیب پراسرار منظر پیش کر رہی تھیں۔اچانک ہمیں محسوس ہوا جیسے آگے سڑک ختم ہو رہی ہے۔اِس سے پہلے کہ گاڑی درختوں سے جا ٹکراتی،جبران نے بجلی کے سے انداز میں سٹئیرنگ گھمادیا اورگاڑی موڑ کاٹ کرایک انوکھی دنیا میں پہنچ گئی۔اب جبران نے اپنا سکوت توڑا:
”لو بھئی! اب شروع ہوتی ہے خطرناک وادی…..!“
ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اردگرد کا جائزہ لینے لگے۔ ہرسو،موت کی سی خاموشی چھائی تھی۔پتھریلی زمین وحشت زدہ لگ رہی تھی۔ دور دور تک کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔یہاں تک کہ کسی جڑی بوٹی تک کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ہمارے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔حیران کن بات یہ تھی کہ جس راستے سے ہم اِس وادی میں داخل ہوئے تھے،وہ بھی اپنے نشانات مٹا چکا تھا۔نہ چاہتے ہوئے بھی ہم جیپ سے اتر آئے۔اب ہم جبران کے مرہون منت تھے۔
”ہمیں اب یہیں پڑاؤ کرنا ہوگا۔“ جبران پراسرار لہجے میں بولا اور جیپ کے اندر سے خیمہ لگانے کا سامان نکالنے لگا۔سب نے کانپتے ہاتھوں سے خیمہ تیار کیا۔خیمے کے اندر آکرہمیں سکون محسوس ہوا اور نیند نے ہم پر غلبہ پا لیا۔ اُس نیند میں اِک عجیب ہی نشہ تھا۔ پتھریلی زمین روئی کے گالوں میں بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔جانے کتنی دیر ہم سوئے رہے۔
اتفاقاً چاروں ایک ساتھ ہی نیند سے بیدار ہوئے اور پھر یک لخت ہماری سانسیں حلق میں اٹک گئیں۔ ہم پوری طرح سے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ حیرانی والی بات یہ تھی کہ ہم بغیر آکسیجن ماسک کے بآسانی سانس لے رہے تھے۔
”کک…..کہیں ہم سمندر میں تو نہیں پہنچ گئے؟“ مجاہد کی ڈر کے مارے آنکھیں باہر آنے لگی تھیں۔
”ارے یار مجاہد! جانے تمہارا نام مجاہد کس نے رکھا…. یہ سمندر ہی ہے لیکن ڈرنے کی ضرورت بالکل نہیں ورنہ بے موت مارے جاؤ گے۔ یہ تو پانی کا سمندر ہے،ابھی آگ کا سمندر باقی ہے۔“ جبران پرسکون لہجے میں بولا۔
”ہائیں….آگ کا سمندر! توبہ کرو بھئی……یہاں سے نکلنے کی ترکیب بتاؤ۔“ فاضل نے بھی فریاد کی۔
”نکلنے کی ترکیب میں تم لوگوں کو بعد میں بتاؤں گا، پہلے تمہیں پراسرار طاقتوں سے تو ملوا دوں۔“ جبران عجیب انداز میں ہنستے ہوئے بولا۔اُس کی ہنسی اب ہمارے حواس پر ہتھوڑا بن کر برس رہی تھی۔اتنے میں پانی میں ہلچل پیدا ہونا شروع ہوئی۔ ہمارا توازن بگڑنے لگاتھا۔ سب نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے۔ عموماً گہرائی میں پانی ٹھہراؤ اختیار کرتا ہے مگر یہاں معاملہ اس کے برعکس تھا۔ پانی اپنے زور پر ہمیں دھکیلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ سب کی چیخیں بلند ہونے لگیں۔اتنے میں جبران گرجتے ہوئے بولا:
”ڈرو مت…..جلد ہی پانی ٹھہر جائے گا،اپنے اعصاب پر قابو رکھو!“
سب نے چپ سادھ لی۔ جبران کا کہا سچ ثابت ہواتھا۔کچھ دیر بعد پانی نے حرکت کرنا واقعی چھوڑ دی تھی۔
”جبران بھائی! ہمیں آپ کی باتوں پر یقین آ گیا ہے۔ خدارا ہمیں اس پراسرار دنیا سے نکال کر گھر لے چلو۔“ مجاہدرونی صورت بناتے ہوئے بولا۔ فاضل اور میں نے بھی اُس کی تائید کی۔
”یارو! بات دراصل یہ ہے کہ مجھے یہاں ایک بزرگ ملے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے یہاں سے نکالا تھا مگر….“
”مگر کیا جبران بھائی؟“ ہم تینوں ایک ساتھ بولے۔
”مگر یہ کہ نکالنے کے بعد انہوں نے مجھے سختی سے ہدایت کی تھی کہ آیندہ اِس دنیا میں قدم نہ رکھوں ورنہ یہ قدم کبھی واپس نہیں جا سکیں گے۔ آگ کے سمندر کے متعلق بھی انہوں نے ہی بتایا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ پانی تمہیں دھکیلتا ہوا آگ کے سمندر میں پھینک دے گا اور پھر تمہارا نام و نشان تک نہ رہے گا۔ تم لوگوں نے مجھے غصہ دلایا اور میں پاگل پن میں پھر سے یہاں آ پہنچا۔ یقینا اب کوئی راہ نہیں بچی۔“
جبران کے اس انکشاف نے ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے۔ ہم سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ جبران کو کوسیں یا خود کو…. سب تھر تھر کانپنے لگے تھے،اس بار جبران بھی اپنے حواس کھو چکا تھا۔ وہ اب مجاہد سے بھی زیادہ ڈرا ہوا لگ رہا تھا۔
”یا اللہ اپنی مدد فرما…..صرف ایک بار اُسی بزرگ ہستی کو وسیلہ بنا کر بھیج دے۔ ہم یہاں آنے کا کبھی سوچیں گے بھی نہیں۔میری بھی ایسے ایڈونچر سے توبہ۔ صرف ایک بار اس مشکل سے نکال دے یا اللہ صرف ایک بار…..!“ جبران گڑگڑا رہا تھا۔ پانی کے اندر بھی اُس کے آنسو نمایاں نظر آ رہے تھے۔ دعا اُس کے لبوں پر تھی اور”آمین آمین“ ہم کہہ رہے تھے۔ پانی میں پھر سے ہلچل ہونے لگی تھی۔ ہم نے سوچ لیا کہ اب کی بار پانی ہمیں آگ کے دریا میں پھینک کر رہے گا۔خوف کی وجہ سے سب نے آنکھیں بند کر لیں۔ جلد ہی ہلچل ہونا بند ہو گئی۔ اتنا سب کو اندازہ ہوا تھا کہ اپنی اپنی جگہ سے کوئی بھی ہلا نہیں تھا مگر پانی کی ہلچل کا مقصد سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ڈرتے ڈرتے ہم سب نے آنکھیں کھول لیں۔ سفید لباس میں ملبوس بارِیش بزرگ ہماری نظروں کے سامنے تھے۔
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔بے اختیار میرے لبوں سے نکلا:
”دادا جان آپ؟“
میرے دوستوں کے منھ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ میں نے اُن کو اپنے دادا جان کے متعلق کبھی کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ کتنی خاموش محبت والی طبیعت رکھتے ہیں، جب کہ گھر میں سب نے اُن کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ وہ بچے بچے سے جھڑکیں سنتے ہیں مگر اُف تک نہیں کہتے۔ہر وقت عبادت میں مشغول رہنااُن کا وتیرہ ہے۔ اتنے اچھے ہیں مگر جانے کیوں اُن کی خدمت کرنے کو کسی کا جی ہی نہیں چاہتا البتہ اُن کے مرنے کی دعا کی جاتی ہے۔یہ ایسی باتیں تھیں جو کبھی میں نے اپنے دوستوں سے نہیں کی تھیں کیوں کہ دوست ایسی باتوں میں دل چسپی ہی کہاں لیتے ہیں۔
”جی بیٹا میں…..“ دادا جان نے مختصر جواب دیا۔
”آپ یہاں……!کیسے؟ یہ کیسی جگہ ہے…..؟“ تجسس نے مجھے بری طرح سے گھیرا ہوا تھا۔
”بیٹا! تم میرے سفر اور میری منزل سے ناواقف ہو۔ ان باتوں میں وقت ضائع مت کرو اور یہاں سے نکلو۔“
میرے دوست کچھ نہ سمجھتے ہوئے سر ہلانے لگے اور پھر ہم دادا جان کی رہنمائی میں اوپر کی جانب تیرنے لگے۔ تیرتے تیرتے اچانک ہمیں یوں لگا جیسے پانی ہمیں نیچے کی جانب دھکیل رہا ہے۔ ہمارے اعصاب تن سے گئے اور پٹھے اکڑنے لگے تھے۔ ہم جتنا بھی زور لگاتے پانی ہمیں اوپر نہ آنے دیتا۔ دادا جان ہماری مشکل سمجھ گئے۔انہوں نے فاضل کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کھینچتے ہوئے اوپر کی جانب لے گئے۔کچھ دیر انتظار کے بعد وہ اکیلے لوٹے اور پھر مجاہد کو ساتھ لیے تیرتے ہوئے اوپر چلے گئے۔ ایسے ہی جبران بھی اُن کے ساتھ اوپر پہنچ گیا۔ اب میں اکیلا رہ گیا تھا۔ دادا جان نے پلٹنے میں کافی دیر لگا دی۔ میرے لیے ایک ایک پل دشوار ہو رہا تھا۔میں رونے کے قریب ہی تھا کہ مجھے دادا جان آتے دکھائی دیے۔جب وہ میرے قریب پہنچے تو اُن کا سانس بری طرح سے پھولا ہوا تھا۔اُن کے چہرے سے تکان اور تکلیف نمایاں تھی۔ وہ اپنی سانسوں کو قدرے بحال کرتے ہوئے بولے:
”بیٹا! یہ راز کسی کو مت بتانا۔ یہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ گھر میں سب مجھ سے بیزار رہتے ہیں مگر دل کی کہوں…..میں آپ سب سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔“ ہانپتے ہانپتے انھوں نے اپنی بات مکمل کی۔ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ پھر تکان کے باوجود انھوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کسی حفاظتی حصار نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اُس پل مجھے دادا جان پر بڑا پیار آیا۔ میں نے ٹھان لی کہ اب ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔ دادا جان تیرتے ہوئے اوپر کی جانب جا رہے تھے۔ میرے کان واضح طور پر اُن کی اکھڑتی ہوئی سانسیں سن رہے تھے۔ جب وہ تھکن سے بے حال ہوجاتے تو ایک پل کو ٹھہرتے،اپنی ٹوٹتی سانسیں بحال کرنے کی کوشش کرتے اور پھر سے تیرنے لگتے۔ جانے کتنی ہی دیر وہ یوں ہی تیرتے رہے۔پھر جیسے اُن کے لیے تیرنا آسان ہو گیا۔ انھوں نے اپنے لب میرے کانوں کے قریب کیے اور بمشکل بولے:
”تھوڑا سا اوپر جاؤ گے تو تمہیں منزل دکھائی دے گی۔ مجھے اجازت دو اب۔“ ساتھ ہی انھوں نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور میرا ہاتھ چھوڑ کر نیچے پانی کی گہرائی میں اترتے چلے گئے۔ حیرت انگیز طور پر اب میں پانی میں غوطے کھانے لگا تھا۔ پانی میرے جسم میں داخل ہونے کے لیے راستہ تلاش کرنے لگا۔ میں نے تیزی سے اپنے ہاتھ پاؤں مارے اور پانی کی سطح پر ابھر آیا۔ اتفاق تھا یا کرامت، کنارا قریب ہی واقع تھا۔ میں تیرتے ہوئے کنارے پر پہنچ گیا۔ ارے یہ کیا! یہ تو دریا کا کنارا تھا،جس سے میرا گھر دو کلومیٹر پر واقع تھا۔ شاید میرے دوست بھی اپنی منزل پر پہنچ گئے تھے۔یہ دوپہر کا وقت تھا مگر بادلوں نے سورج کو چھپا رکھا تھا۔جانے کیوں مجھے فضا سوگوار سی لگی۔ میرے کپڑے بھیگے ہوئے تھے اور میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔میں پیدل ہی اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ گھر کے قریب پہنچا تو رونے کی آوازوں نے میرا استقبال کیا۔میں بھاگتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔سامنے کا منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ گھر میں سب دادا جان کی چارپائی سے لپٹے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔وہ سچ میں رو رہے تھے یا محض دکھاوا کر رہے تھے،مجھے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ میرے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ دادا جان وفات پا چکے ہیں۔ میں بت بنا دادا جان کی چارپائی کو دیکھ رہا تھا۔ چاہ کر بھی میری آنکھوں سے آنسو نہیں نکل رہے تھے۔ہاں، اپنے وجود میں نمی کواترتا ہوا محسوس ضرورکر رہا تھا۔ میں آئی ٹی انجینئر ہونے کے باجود دادا جان کے سفر اور منزل کے متعلق نہیں جان پایا تھا۔ البتہ یہ ضرور جان گیا تھا کہ بزرگوں کا سایہ بہت قیمتی ہوتا ہے،ان کی قدر کرنی کرنی چاہیے۔ اس سے قبل کہ وہ اپنی خاموش محبت کے ساتھ ہم سے جدا ہو جائیں اور ہمارے حصے میں بس پچھتاوا رہ جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں