105

شب وصل

تحریر: تنزیلہ احمد

اسے اپنے بدن میں ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئیں۔ شاید بستر پر ایک ہی کروٹ لیٹے رہنے سے اس کا لاغر جسم تھک چکا تھا۔ شدید تکلیف کا احساس ہی تھا جس نے خوابیدہ ذہن کو بمشکل جاگنے پر مجبور کیا۔ نیند کی زیادتی کے باعث بوجھل آنکھیں دھیرے دھیرے کھلیں تو رفتہ رفتہ حواس بھی ٹھکانے پر آنے لگے۔ گہری سانس پھیپھڑوں میں بھر کر اس نے گرد و پیش پر طائرانہ نگاہ ڈالی۔ کشادہ کمرے میں مدھم نیلی روشنی اور سکوت کا راج تھا اور کمرے کی ایک ایک چیز اسے ازبر۔ کمرے کا جائزہ لینے کے بعد اس نے آنکھیں میچ کر دبیز خاموشی محسوس کرنے کی کوشش کی۔ کمرے سے باہر کا سکون بتاتا تھا کہ گھر کے مکین شاید کہیں گھومنے پھرنے گئے ہیں۔
کون جانے کہاں گئے، کب گئے اور کب آئیں؟
وہ چاہتا تو بڑی سہولت سے پاس دھری گھنٹی بجا کر کسی بھی ملازم کو بلا لیتا مگر اس نے گھنٹی تک پہنچنے سے گریز کیا۔ ملازم آجاتے تو اسے پھر سے دوائی کھلانے کی تگ و دو میں جت جاتے۔
اس نے اپنے دونوں ہاتھ ہلانے کی سعی کی تو کامیاب رہا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی ٹانگوں کو ہلانے میں بھی کامیاب رہا تھا۔ خوب وقت لے کر اس نے خود کو دائیں سے بائیں جانب کروٹ دی تو دھیرے دھیرے درد بھی جاتا رہا۔ کچھ دیر بعد نیم دراز حالت میں ہی وہ پلنگ پر سیدھا ہوا۔ بیڈ کے عین سامنے کی دیوار پر ٹنگی تصویر پر نظر پڑی تو جیسے کمرے کے یاسیت زدہ ماحول کو موسم بہار نے آن کی آن میں اپنی آغوش میں سمو لیا۔ پپڑی جمے تھرتھراتے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری…سرخ ڈوروں سے سجی متجسس آنکھوں کے کونوں سے کچھ بن بلائے آنسو ٹوٹ کر گرے اور کانوں کی لوؤں تک بہتے چلے گئے۔
بس ایک یہ ہی درد تھا جو دشمن جاں بن بیٹھا۔ وہ وہاں نہ ہو کر بھی ازل سے وہیں تھی اور شاید ابد تک رہنے والی تھی۔ دونوں عالم سے بیگانہ ہو کر نہ جانے کتنی دیر تلک وہ تصویر میں دکھتے مسحور کن وجود کو نہارتا رہا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے بہت مدتوں بعد پیاسی نظروں کو دیدار سے فیض یاب ہونے کے قیمتی لمحات میسر آئے ہوں۔ ہر نقش، ادا، رنگ اسے دعوت ملاقات دے رہا تھا۔ تصویر میں دکھائی دیتے ہنستے مسکراتے دل کش سراپے کو وہ پہروں نہار سکتا تھا۔ تبھی دھندلے ذہن میں برق کی سی رفتار سے ایک گوندا لپکا اور اس کے نقاہت زدہ جسم میں بجلیاں بھر گیا۔ خیال اتنا خوشنما تھا کہ اسے خون کی گردش تیز ہوتی اور پورے وجود میں اک نئی زندگی دوڑتی محسوس ہوئی تھی۔

٭

ایک ٹرانس کے عالم میں اس کا وجود پلنگ سے اتر کر کونے میں رکھے کینوس کے سامنے پہنچا تھا۔ رنگوں سے اس کی کئی دہائیوں کی شناسائی تھی۔ وہ سب کے سب ٹھہرے اس کے ہمدرد اور غم گسار۔ لمبے عرصے تک کینوس سے دور رہنے کے باوجود بھی وہ اس سے نہیں روٹھے تھے۔ آج اتنے زمانوں بعد ان پر اس کی نظر کرم ہوئی تو وہ کھل اٹھے اور سرشاری کے عالم میں جھومتے ہوئے خود بہ خود کینونس کے کورے کاغذ پر ایک ترتیب سے سجتے چلے گئے۔ کینوس پر کسی دھن کے زیر اثر چلتے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش نمایاں تھی، مگر اس کا برش تھاما ہاتھ ایک بار بھی نہ لڑکھڑایا تھا۔ اسے نہ وقت کا ہوش رہا نہ کسی چیز کی طلب…بس کچھ مکمل کرنے کی دھن تھی جو اس کے ذہن کو چاق و چوبند رکھے ہوئے تھی۔ بلاشبہ وہ اپنے فن میں طاق تھا۔ مگن انداز میں وہ رنگوں کو کینوس کی زینت بناتا رہا۔ پھر تنقیدی نگاہوں سے جائزہ لیا اور برش تھام کر جواں سال چہرے کی مسکراہٹ گہری کی۔ آنکھیں سکیڑتے ہوئے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے دیکھا اور چہرے پر تندرستی کی لالی کو مزید لال کیا۔ ہاں بالوں کا رنگ پہلے ہی گہرا تھا اسے مزید نکھارنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔
بالآخر ایک ہی رات میں اس نے وہ شاہ کار بنا لیا تھا۔ بالکل ویسا جیسا اس خاص نظر کے خوش گمان میں بستا تھا۔ اس نے خوش باش سی نظر کینوس پر دکھتے چہرے پر ڈالی اور چونک گیا۔ اتنی بڑی کمی وہ کیسے چھوڑ سکتا تھا؟ اپنی کم پڑ چکی عقل کا ماتم کرتے ہوئے اس نے برش تھاما اور کینوس کے کونے میں چھوٹی سی نشانی ثبت کی۔
”ہاں اب ٹھیک ہے!“ مطمئن سی نگاہ پوٹریٹ پر ڈال کر وہ مسکرا دیا۔ تخلیق کار کے نام کی چھاپ لگتے ہی فن پارہ کامل ہو گیا تھا۔
اتنے گھنٹے بیٹھے رہنے کے باوجود اس کے بیمار وجود پر تھکن کا رتی بھر شائبہ نہ تھا۔ فن پارے کو آخری بار نگاہوں میں سمو کر اس نے سفید جالی دار کپڑے سے یوں ڈھانپا کہ براہ راست کسی کی نظر نہ پڑے اور کینوس سے کپڑا بھی مس نہ ہو۔ یہ وہ ضروری کام تھا جو کرنا اس پر عین فرض تھا۔ اب وہ اطمینان سے نیند کی آغوش میں جا سکتا تھا۔ میکانکی انداز میں واپس بیڈ تک پہنچ کر وہ چت لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی تھکن کا احساس غالب آنے لگا تھا۔ جہازی سائز پلنگ پر آرام دہ وجود کسی بچے کے منحنی وجود کی مانند دکھائی دیتا تھا۔ آنکھیں موندنے سے پہلے اس نے دیوار پر ٹنگی تصویر کی جانب زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اچھالی۔ تصویر والی اپسرا پنکھڑی سے تراشیدہ ہونٹوں پر دل افروز مسکان سجائے، بانہیں وا کیے اسے اپنے پاس بلا رہی تھی۔ وہ مسکرایا اور جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں سفید پر کی مانند اڑتا اس کا وجود ہوا کے سنگ محو سفر تھا۔

٭

وسیع و عریض بنگلے میں لمبی کالی گاڑی داخل ہوتے دیکھ تمام ملازم پورچ کی جانب بھاگے۔ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ تین دن کے دورے کے بعد کمال یزدانی ابھی واپس لوٹا تھا۔ گاڑی سے باہر نکلتے ہی اس نے خاص ملازم سے استفسار کیا:
”بابا جان کی طبیعت ٹھیک رہی؟“
”جی صاب!“
”دوائی اور کھانا وقت سے تو دیتے رہے نا؟“
ان کے تیز قدموں کا پیچھا کرتے ہوئے پکی عمر کا ملازم ہانپتے ہوئے صرف ”جی!“ ہی بول پایا۔
اس کے تیز قدم بغیر کہیں رکے مطلوبہ کمرے تک پہنچ گئے تھے۔ کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھول کر اندر داخل ہوتے ہی ان کی مخصوص مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ بستر پر دراز وجود نظروں میں آتے ہی اس نے سکون کا سانس لیا۔
”بابا جان!“بے سدھ پڑے بیمار باپ کے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے لگاوٹ سے یوں کہا جیسے وہ سن رہے ہوں۔ ان کو یوں کرتا دیکھ نک سک سے تیار طرح دار بیوی نے منہ کے زاویے بگاڑے تھے۔
”آج میڈیسن دی ہے؟“
”نہیں صاب، بڑے صاب صبح سے اٹھے ہی نہیں!“
”واٹ! اور کھانا؟“
”جی وہ بھی نہیں! میں نے جگانے کی بہت کوشش کی مگر بڑے صاب جاگے ہی نہیں۔ پھر سوچا آرام کرنے دوں۔ میرا خیال تھا آپ آجائیں گے تو بڑے صاب کو جگا لیں گے۔“ پرانے ملازم نے جھجکتے ہوئے بات مکمل کی۔
”بابا جان!“پکارتے ہوئے کسی احساس کے تحت کمال یزدانی نے باپ کی نبض پر ہاتھ رکھا۔
”ڈاکٹر کو کال کرو، جلدی!“ وہ حلق کے بل چلایا۔
”ڈیڈی! لک ایٹ دس…“نو سالہ بچہ ہنستے مسکراتے زندگی سے بھرپور جوان سال مرد کے پوٹریٹ کے عین سامنے کھڑا تھا۔ بیٹے کے پکارنے پر دونوں میاں بیوی نے پلٹ کر دیکھا اور اپنی اپنی جگہ جم گئے۔
”امپاسبل!“ بیوی کے منہ سے بے ساختہ پھسلا۔
”یہ دادا جان کی تصویر ہے نا جب وہ ینگ تھے؟“بچے نے اشتیاق سے پوچھا تو اس کے ڈیڈی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
اگلے ہی پل ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے۔ پوٹریٹ کے دائیں کونے میں درج ایک دن پہلے کی تاریخ اور کلیم یزدانی کا مخصوص انداز میں لکھا گیا نام یہ باور کروانے کے لیے کافی تھا کہ پوٹریٹ اس کے پانچ برس سے بستر تک محدود، اعصابی بیماری کا شکار، نامی گرامی مصور باپ نے ہی بنائی تھی۔
”مگر کیسے؟ اس حالت میں انھوں نے یہ کیسے بنا لی؟“
”آئی ایم سو سوری، ہی از نو مور! میرے خیال سے کلیم صاحب کو فوت ہوئے چوبیس گھنٹے ہونے والے ہیں۔“ڈاکٹر کی پشیمان سی آواز پر انھیں شدید جھٹکا لگا تھا۔
اعصابی بیماری کا شکار بننے سے پہلے آخری پوٹریٹ انھوں نے اپنی شریک حیات کا بنایا تھا اور راہ عدم سدھارنے سے پہلے وہ خود کو ہمیشہ کے لیے ان کے درمیان چھوڑ گئے تھے بالکل ویسا جیسا ان کا اکلوتا بیٹا اور لاڈلا پوتا انھیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہنستا مسکراتا، زندگی اور صحت سے بھرپور۔
”کیا وہ جان گئے تھے؟ آہ! میرے پیارے بابا جان!“کب کے روکے آنسو کمال یزدانی کے گالوں پر لڑھکنے لگے تھے…

……٭……

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں