119

نَویں پکھی…قیصر مشتاق

برکھا رُت کی ایک اور بارش تڑا تڑ جاری تھی، ویرانے کے نشیب تالاب کا منظر پیش کر رہے تھے، گُھپ اندھیرے میں جب کبھی آسمان پر بجلی چمکتی تو سارا بیابان لمحہ بھر کے لیے روشن اور چمکیلا ہوجاتا۔جھڑی ایسی لگی تھی کہ ہر رات میگھا خوب برستی رہتی، دن نکلنے پر جو بارش تھمتی تو ہر سو گدلے پانی کے نظارے ہوتے یا جھگیوں کے باسیوں کے جدو جہد کرتے وجود۔
خانہ بدوشوں کے یہ چار پانچ خاندان انجان منزل کی طرف کئی دنوں سے گامزن تھے لیکن ہر رات برسنے والی بارش انہیں وقفے وقفے سے رکنے پہ مجبور کر دیتی اور ناچار انہیں کسی اونچی جگہ پر پڑاؤ کرنا پڑتا۔ دو دن سے وہ اس میدانی علاقے میں پھر رہے تھے، آس پاس آبادی تھی اور نہ کوئی مناسب جگہ جہاں وہ بسیرا کرتے۔
شِینی کی جُھگی بھی ان کئی جھگیوں کے درمیان بارش کی بوچھاڑ کا مقابلہ کر رہی تھی۔ وہ غصے سے بھری کبھی اماں کو دیکھتی اور کبھی پیو کو جو حقے کی نَے سے ایسے منہ لگائے بیٹھا تھا جیسے منہ ہٹا دے گا تو وہیں اس کا سانس رک جائے گا۔ ویسے تو جُھگی کے ہر حصے میں بارش کے موٹے موٹے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے لیکن شینی والا حصہ کچھ زیادہ ہی گیلاہٹ زدہ تھا، جھی وہ غصہ کرتی چارپائی پہ گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھی تھی۔
اماں دیگچی چولہے پر چڑھائے اس میں ڈوئی (لکڑی کا چمچہ) چلائے جا رہی تھی،اور پھر ڈوئی میں تھوڑا شوربہ نکالتے اسے پھونک مارتی دوسری ہتھیلی پر منتقل کرنے لگی۔پھر اسے زبان سے چاٹ گئی، سواد کے سمجھ آنے پر مڑی۔
”شینی نِی شِینی آ…چال اَجُو دی پَکھی وچوں لونڑ (نمک) لے کے آ….بھاجی وِچ لونڑ کوئی نہیں، بے سوادی لاگ ری اے۔“
(شینی چَل اجُو کی پکھی سے نمک لے کر آ، سالن میں نمک نہیں تو بے ذائقہ سا لگ رہا ہے)
”اے آماں باہر جھڑی اور ویلا تاں ویکھ، میرے سارے کپڑے وی بھیج گئے تے تینوں لونڑ دی پئی اے۔“شینی منہ بناتی اٹھی۔
(اماں باہر بارش دیکھو، وقت دیکھو، میرے سارے کپڑے بھیگ گئے اور آپ کو نمک کی پڑی ہے)
”ہا نی پتا ہے مینوں تیرا جدوں نالے وِچ پورا پورا دِن پڑی رہتی ہے اس ویلے تجھے بھِیجنے کا ڈر نا ہووے، ایھ تے فیِر گرمیوں والا مِینہ اے…ناخرہ نا کر میرے اگوں… جا لونڑ لے آ اپنے ہوون ہالے گھر وچوں…“
(ہاں مجھے پتا ہے تیرا، جب پانی کے نالے میں پورا دن پڑی رہتی ہے اس وقت تمہیں بھیگنے کا ڈر نہیں ہوتا۔ یہ تو پھر موسم گرما کی بارش ہے، میرے سامنے نخرہ نہیں کرو، جاؤ اپنے ہونے والے گھر سے نمک لے کر آؤ)
اماں نے بھی اسے ڈانٹا۔
وہ بادل ناخواستہ جُھگی سے نکلی تو باہر ہر طرف اندھیرا اور بارش کا شور تھا جبکہ جھگیوں میں لالٹینوں کی مدھم روشنی نظر آتی تھی۔ تین چار جھگیوں کے پاس سے ہوتی کیچڑ اور بارش سے بچتی وہ چوتھی جُھگی کے پاس پہنچی تو وہاں لاکھا جُھگی کے باہر ہی نیم اندھیرے میں بیٹھا تھا، شینی ایک لمحے میں اسے پہچان گئی اور لاکھا بھی بھیگے وجود کے ساتھ کھڑی شینی کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح متوجہ ہوا تھا۔شینی اس کی نظروں کو خوب بھانپتی تھی، وہ شینی اور اجُو کی نسبت کے باوجود اس پہ نظر رکھتا تھا۔کچھ دنوں میں دونوں کی شادی متوقع تھی اور یہ بات لاکھے سے برداشت نہیں ہورہی تھی۔ شینی نے اسے دو تین دن سے اپنی جُھگی کے آس پاس منڈلاتے دیکھا تھا۔
اب بھی اسے نظر انداز کرتی وہ آگے بڑھ گئی۔
اجو کی جھُگی میں پہنچتے ہی اس نے رعب سے اجو سے نمک کا کہا۔اجو نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھا اور شاپر میں رکھا سارا نمک اسے پکڑا دیا۔اسے اجو سے اور اجو کو اس سے محبت تھی، اس نے ایک نظر اسے دیکھا پھر پانی سے تر ہوتی اس کی جھُگی کو دیکھا اور پھر پاس ہی سمٹی نِیلی (اس کی باندری) کو دیکھا۔
”اماں کتھے اے تیری؟“ شینی نے پوچھا۔(اماں کہاں ہے تمہاری؟)
”وہ کَم سے ماسی کُوماں دی جُھگی گئی ہے۔“ (وہ کام سے ماسی کُوماں کی جُھگی گئی ہے)
وہ ہمیشہ کی طرح محبت بھرے لہجے میں بولا۔جواباً وہ بھی مسکرائی اور پھر جُھگی سے باہر آگئی۔
نمک کی تھیلی بھیگ نہ جائے لہٰذا اس نے اسے قمیض کے نیچے دبا لیا تھا اور اب اس کا رُخ اپنی جُھگی کی طرف تھا۔بارش کی تیزی ویسی ہی جاری تھی،اس کا ریشمی اور پیوند لگا لباس جسم سے چپک سا گیا تھا۔وہ اپنے دھیان میں ہی کھڑی تھی جب اچانک اس کی نظر کچھ دور کھڑے لاکھے پر پڑی جو اسے دیکھ کر اپنی جُھگی سے نکلا تھا۔بارش کے پانی جیسے بہتے اس کے جذبات بھی جیسے آج کسی بَند کے ٹوٹنے کے انتظار میں تھے۔ شینی اسے پاگل کیے جاتی تھی۔ وہ اس کی طرف بڑھا اور نہایت قریب آ ٹھہرا۔دفعتاً بارش کے شور میں شینی کی وہ دلخراش چیخ تھی جو ویرانے میں گونجی تھی…اور وہ چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی ایک جُھگی میں داخل ہوئی۔لاکھا بھی اس کے پیچھے ہی تھا۔


”ہم سارے کے سارے چُوڑے ہیں، آپنی کوئی جات نہیں پر عِجت تو ہے نا…ایس حرام زادے نے میری عِجت پہ ہاتھ ڈالا ہے۔اس نے مینوں کَلیاں ویکھ کے میرے کپڑے پاڑ دِتے آماں…وَیکھ!“
(ہم سب چُوڑے ہیں، اپنی کوئی ذات نہیں پر عزت تو ہے نا، اس حرامزادے نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالا ہے۔ اس نے مجھے اکیلا دیکھ کر میرے کپڑے پھاڑ دیے اماں، دیکھو!)
شِینی بری طرح روتی اپنے پھٹے کپڑے دکھاتی سب کو بتا رہی تھی۔ اس کی چیخیں سُن کر تھوڑی ہی دیر میں ساری جھگیوں سے لوگ وہاں آ کر جمع ہوگئے تھے۔
اجُو حیرت اور غصے سے گنگ کھڑا تھا، اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے،تبھی وہ غصے میں پھنکارتا آگے بڑھا ہی تھا کہ لاکھے نے اسے وہیں دبوچ لیا اور اس پہ مُکے اور لاتوں کی بوچھاڑ کردی۔اس کی دیکھا دیکھی باقی چُوڑے بھی اس پر چڑھ دوڑے، یہاں تک کہ اسے مار مار کر ادھ موا کر چھوڑا۔جُھگی میں اجُو کی بندریا کی چیخیں عروج پر تھیں جب شینی ماں اور پیو کے ساتھ پلٹی۔وہ اب بھی صدمے سے رو رہی تھی۔
”نِی شِینی آ…تَو فکر نہ کر نی…تیری عِجت بچ گئی، یہی سُکر ہے…تے اب تیری سادی (شادی) اجُو سے نہیں لاکھے سے ہووے گی…بہت چاہ رکھتا ہے وہ تیرے واسطے…“
(شینی تو فکر نہ کر، تیری عزت بچ گئی یہی شکر ہے اور اب تیری شادی اجو سے نہیں لاکھے سے ہوگی، بہت چاہت رکھتا ہے وہ تمہارے لیے)
اماں نے اسے دلاسا دیا اور شینی نے ایک نظر لاکھے اور پھر زمین پر پڑے اجو کو دیکھا۔
”ہونہہ چاہت کا ستیا ناس ہوووے…مجھے تو بس نَویں پَکھی میں رہنا ہے۔ یہ مینہ میں بِھجتی پکھیاں میرے کسی کم دی نئیں…یہ چھوٹی باندری کا تماشا مجھے کیا سُکھ دیوے گا۔مجھے تو بَس لاکھے کی نویں نکور پکھی (نئی جُھگی) جس پہ اس نے شاپر کی چھت چڑھائی ہے اس سے غرض ہے، یا اس کے رِچھ (ریچھ) سے…جس کے تماشے پہ کم از کم باندروں کے تماشے سے جیادہ (زیادہ) پیسے ملتے ہیں..ہاں“
شینی نے سوچتے ہوئے لاکھے کی طرف ٹیڑھی نظر سے دیکھا، لاکھے نے بھی اسے جیت کا اشارہ دیا اور وہ سب اجو کی جُھگی سے باہر آگئے۔زمین پر پڑا اجُو اب بھی ششدر سا اپنی منگیتر اور اپنے اوپر لگائے گئے الزام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا،اسے یاد آیا لاکھے کی نئی پکھی جو نہایت مضبوط تھی اور جس پہ لگا موٹا شاپر بارش کے پانی سے اسے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا، ان دنوں سب کو بہت متوجہ کر رہا تھا۔اس خیال کے آتے ہی اس کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور اسے اپنی منگیتر اور محبت پہ وہ نئی پَکھی حاوی ہوتی محسوس ہوئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں