126

سوال: شاہ حسین کی شاعری میں چرخے کی علامتی معونیت پر تفصیلی مضمون لکھیں۔

جواب: پنجابی شاعری کا دوسرا دور اور شاہ حسین:

بابا فرید کے بعد پنجابی شاعری کا سراغ ہمیں مغلیہ عہد میں ملتا ہے اور وہ بھی جلال الدین اکبر کے دور میں۔ اگرچہ یہاں بھی یہی بات زیادہ کرین قیاس ہیں کہ پنجاب کے رہنے والے بہت سے اصحاب فکر و احساس سے مادری زبان کو سیلہ اظہاربنایا ہو گا لیکن ان میں سے صرف مادھو لال حسین کا کلام ہم تک پہنچ سکا۔ مادھو لال حسین جن کو عام طور پر شاہ حسین کہا جاتا ہے۔ 945/1539 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور 1008/1599 میں وفات پائی۔ جس طرح بابا فرید کے اشعار کو شلوک کہا جاتا ہے اسی طرح شاہ حسین کے کلام کو کافیاں کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح بھی اسی دور میں کلام مربوط کے لیے مستعمل ہوگی اور ممکن ہے کہ اس کی اصل ”کا وی“ ہو جوکاؤاور کوی کے روپ میں شعر اور شاعر کا مفہوم دیتے ہوئے آج بھی موجود ہے۔ مادھو لال حسین کا کلام بھی ایک لحاظ سے ان کی احساسات و افکار کا تسلسل ہے۔ جن کی جھلک ہمیں ابیات فرید میں ملتی ہیں۔ اور یہ اعلان و اعتراف کے اسی عارضی زندگی کو چھوڑ کر ہر کسی کو مقصود و موجود حقیقی کے پاس جانا ہے اور اس کی ”کتاب حسنیٰ“ میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں زندگی اس انداز سے گزاری جائے جو اسے پسند ہو۔

بابا فرید اور شاہ حسین:


اپنے عرفان کی شاعری میں بابا فرید نے جس مقامی ماحول سے کام لیا تھا اس کو ہم شاہ حسین کافیاں کمال تک پہنچا ہوا پاتے ہیں بلکہ یہاں کے لوگ قصوں میں سے ہیں اور رانجھا کے دو کرداروں کو ہم اس کے اشعار ہیں میں علامتی طور پر استعمال ہوتے دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کرداروں کے استعمال کا آغاز شاہ حسین سے ہوتا ہے یا اس سے پہلے بھی فرید کے بعد کہ دور کے ان دونوں شاعروں کے درمیان ہمیں کسی مسلم یا غیر مسلم کی شاعری میں اس کا سراغ نہیں ملا۔ اگرچہ کولائی اور دیگر مسلمان فارسی گویوں کا کلام میں شہادت دیتا ہے،کے منظوم لوگ قسم کی صورت میں یہ داستان پنجاب میں عام ہوئی تھی جس کے ڈانڈے ان دنوں دہلی سے ملتی تھے۔ شاہ حسین کے اظہار کا دوسرا اختصاص بیٹی اور ماں کے حوالے سے بات کرنا ہے۔ان کے کلام کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
”اے خدا میرے عیبوں کی طرف نہ دیکھنا۔ میں عیبوں والی ہو۔ مجھ میں کوئی گن نہیں ہے۔ رواں رواں کوتاہیوں سے بھرا ہوا ہے میں تیرے دروازے پر آ گئی ہوں اب تو مجھے جس حال میں بھی قبول کرلے اے میرے محبوب مجھے مجال سرتابی ہیں۔فقیر اور عاجز حسین کی یہی گزارش ہے کہ عدل کی جگہ مجھ پر فضل کرنا۔“
دل کے دردوں نے مجھے پارہ پارہ کر دیا ہے۔ اسے سہیلی دل کے درد تو نے مجھے پارہ پارہ کر دیا ہے وہ جن کے پاس لاکھوں کروڑوں روپے ہیں وہ بھی سراپا شکایت ہیں اور مطمئن نہیں ہیں۔تو ایسی چٹی چادر کوآگ لگے اس سے تو ہم فقیروں کی کملی بہتر ہے اور حقیقت یہی ہے وہی لوگ سادھوؤں کی مجلس میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جن کی عقل ٹھکانے ہوتی ہے۔ سایکا فقیر حسین علی الاعلان کہتا ہے کہ خلقت دنیا کے لالچ میں ادھوری رہ گئی۔
اے خدا تو میرا حال جاننے والا ہے۔ میرے اندر بھی تو ہے باہر بھی تو ہے۔ میرے روئیں روئں میں تو بستہ ہے۔تو ہی میرے تا نا ہے اور تو ہی بانا ہے۔ میرا سب کچھ تو ہے۔ فقیر اعجاز حسین حسین تو اعتراف کرتا ہے کہ میں علم ہو اور موجود تو ہی تو ہے۔

اس دنیا میں چار دن کی زندگی ہے پھر کسی کے ساتھ روٹھیں کیوں۔ میں جس کی طرف جاؤ وہ مجھے موت کی بات بتاتا ہے۔ زندہ رہ سکے کی بات کوئی نہیں بتاتا عطا مجھ سے یہی آیا ہوتا ہے کہ اس جہاں سے کچھ ایک اٹل حقیقت ہے اور جہاں کوئی بیٹھ نہیں رہے گا۔ سائیں فقیر حسین کہتا ہے کہ موت تو قابو کرنے کے لیے اسے بٹ رہی ہے اور گرفتار کر لینے کے لیے بیتاب ہے۔

محبت کا کانٹا:


لوح قلم کی قادر نے جو لکھی ہے ایماں اگر تو اس تقدیر کو بدل سکتی ہے تو بدل دے اور مجھے کھڑو کے ساتھ ڈولی میں ڈال کر مکس کر دے میں نہ تو کوئی عذر کر سکتی ہو نہ میرا بس چلتاہے، لیکن رانجھن نے اپنی محبت کا کانٹا گاڑ دیا ہے۔دل میرے دل میں ایک شور برپا ہے میں مچھلی کی طرح تڑپ رہی ہوں اور ڈور قادرکے ہاتھ میں ہے۔
رنگ رلیوں میں جو دن گزر سکتے ہیں گزار لے لیکن یاد رکھیے دن اور یہ جو بن جو رنگ رلیوں پر اکساتا ہے ایسا نہیں ہے کہ اس پر اترایا جائے۔ اگرچہ بہت سی بظاہر سیاہیاں اس کے جل میں آئی ہیں۔ تو نے جن کے ساتھ بال پن کھیل کر گزارا، وہ سہیلیاں چل دی ہیں۔بابل کا آنگن چھوڑ کر وہ سسرال کے گھر جا رہی ہیں۔

شاہ حسین کی شاعری میں چرخے کی معونیت:


شاہ حسین نے اپنی اس نظم میں کائنات کے نظام کو بیان کیا ہے اور اس کائنات کو ایک چرخے سے تشبیہ دی ہیں وہ کہتے ہیں کہ:
گھم وے چرخے یا گھم
تیری کتن والی جیوے
نلیاں وٹن والی جیوے

”گھوم اے چرخے گھوم،تجھے کاتنے والی کی خیر ہو،نلیاں (دھاگے کا گولا) بٹنے والی کی خیر ہو“
یہ زمین بھی گول ہیں چاند سورج بھی گول ہیں اس کے علاوہ تمام سیارے ستارے بھی گول ہیں کہکشائیں بھی دائرے کی صورت میں ہیں۔ کیونکہ یہ ساری کائنات ایک محور کے گرد گھوم رہی ہے،اس لیے حضرت شاہ حسین نے اس چرخے سے تشبیہ دے کر داد دینے والے انداز میں فرمایا ہے کہ گھوم اے چرخیگھوم جو ذات واحد و لاشریک تجھے گھما رہی ہے،اس کی خیر ہو یعنی اس کی عظمتوں کو سلام۔
کائنات میں ہر دم ستارے ٹوٹنے بجھنے اور وجود میں آنے کا عمل جاری ہے،اسے شاعر نے نلیاں بٹنے سے تشبیہ دے کر ذات خداوندی کی حمد کی ہے۔
بڈھا ہویوں شاہ حسینا
دندیں جھیراں پیاں
آٹھ سویرے ڈھونڈن لگوں
سنجھ دیاں جوگیاں

شاہ حسین میاں اب تم بوڑھے ہو گئے ہو، دانت تمہارے سب ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں، تم انہیں صبح اٹھ کے ڈھونڈ رہے ہو جو صبح صادق کے وقت ہی جاچکی ہیں۔
اس شعر میں حضرت شاہ حسین اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ شاہ حسین اب تم بوڑھے ہوتے جا رہے ہو تمہاری آنکھ کھلی ہے جب عمر ساری گزری چکی ہے۔اس کی مثال یوں ہے کہ جو صبح صادق کے وقت جا چکے ہیں تم انہیں صبح کو سورج طلوع ہونے کے بعد ڈونڈ رہے ہو،یعنی وقت تو تم نے گنوا دیا،آپ بے فائدہ کوشش میں لگے ہو۔
ہر دم نام سنبھال سائیں دا
تاں توں ستھرا تھیویں

ہردم مالک کے نام کا ذکر کرتے رہو،تب تم پاک ہو سکتے ہو۔
اس شعر میں ذکر الہی کی فضیلت اور ترغیب دی گئی ہیں کہ بندے کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتا ہے اسی سے روح کی کثافت اور بوجھ دور ہوگا اور روح کو عذاب ملے گی اور وہ ذکر کی برکت سے گناہوں کی سیاہی اور آلودگی سے پاک صاف ہوتی جائے گی۔
چرخہ بولے سائیں سائیں
بائیڑ بولے گھوں
کہیں حسین فقیر سائیں دا
میں ناہیں سب توں

چرخہ سائیں سائیں بولتے ہے اور بائیڑ سے گھوں گھوں کی آواز آتی ہے۔اپنے پروردگار کا فقیر شاہ حسین یہی کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ تو ہے۔
جب چرخہ کرنے کے لیے گھمایا جاتا ہے تو ہر چکر پر اس سے سائیں سائیں جیسی آواز آتی ہیں اور بائیڑجس پر دھاگا لپٹا جارہا ہوتا ہے، اس سے گھوں گھوں کی آواز نہیں آتی ہیں،اللہ والے فنا فی اللہ کے مقام پر ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں دنیا کی ہر آواز ہر مظہرمیں اللہ کے حسن کی جھلک تک دکھائی دیتی ہے۔ آپ بتاتے حق کے مشاہدے میں غرق ہو کر فقیر شاہ حسین اپنی ذات کی نفی کرکے کہتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں سب کچھ اللہ کی ذات ہے۔
شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ ان کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔ شاہ حسین نے ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا پنجابی کو ایسے مصرے تشبیہات اور موضوعات دیئے کہ ان کے بعد آنے والوں نے ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا۔
شاہ زین کے کلام میں امن و آشتی محبت اور انسانیت کا درس ملتا ہے۔ ان کی ایک تحریر دیکھئے۔
شاہ حسین کا تصور اصل میں مستی کا تصور تھا جو کہ ذکرے خفی اور تصور کی منزلوں سے بہت آگے کی بات ہے انہوں نے اپنے فکر و فن کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔
شاہ حسین نے پنجابی ادب کو کافی کی صنف سے روشناس کرایا۔ ان کو کلاسیکل دور کا دوسرا بڑا شاعر کہا جاتا ہے آپ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کتنی ومافیہا کی خبر نہ رہی۔
مادھولال ویرن شاہ حسین میں رنگ آ گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا شاہ حسین کی نظر کرم سے درجہ کمال کو پہنچے۔

اقوام کی رہنمائی:


خالق کائنات کی برگزیدہ ہستیاں ناصرف اپنی حیات میں بلکہ اس کے بعد بھی اپنی تعلیمات اور افکار کے ذریعے بنی نوع انسان کی بہتری اور بھلائی کا فریضہ سرانجام دیتی رہتی ہیں۔ اللہ بزرگ و برتر نے انسان کی رہنمائی کے لیے مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی رہنمائی کے لئے ختم نبوت کے بعد انسان کی بھلائی کا یہ فریضہ امت محمدیہ کے اولیاء کے سپرد کیا گیا اللہ تعالی کی یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کا پرچار کرنے میں پیش پیش رہی ہیں۔ اس حوالے سے برصغیر پاک و ہند کا خطاب ملا تھا، اسی طرح ہیں کہ جہاں حضرت عثمان بن علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش اور حضرت معین الدین چشتی اجمیری، خواجہ نظام الدین اولیاء حضرت علی کی حضرت میاں میر حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی اور دیگر کے اولیاء کے علاوہ صوفی شاعر اور ولی فرید الدین گنج شکر خواجہ غلام فرید شاہ عبداللطیف بھٹائی وغیرہ نے اپنے کلام افکار اور تبلیغ کے ذریعے بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم دکھائے انہیں صوفی شعراء میں سے ایک عظیم ہستی حضرت شاہ حسین ہیں۔شاہ حسین نے اپنے نظریات و افکار اور اپنی تعلیمات اور اپنی شاعری کے ذریعے جو پیغام اور جو علم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے وہ قابل قدر ہیں اور فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
……٭……

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں