179

سوال:سب ایڈیٹر کون ہوتا ہے؟ اخبار کی تدوین کے مختلف مراحل بھی بیان کریں۔

جواب:سب ایڈیٹر:
ایک اخبار میں چھپنے والا مواد خبروں، تصویروں، مضمونوں اور فیچروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مواد مختلف ذرائع سے اخبار کے دفتر میں پہنچتا ہے لیکن یہ سارا مواد جوں کا توں اخبار میں چھپنے کے لیے نہیں بھیج دیا جاتا۔ یہ مواد پڑھا جاتا ہے۔ اس میں سے قابل اشاعت مواد منتخب کر لیا جاتا ہے، کچھ مواد یا اس کا کچھ حصہ دوبارہ لکھنا پڑتا ہے۔ ہر قسم کی تحریر کی پوری پوری پڑتال کرنی پڑتی ہے کہ حقائق، بیان، زبان اور انداز تحریر کے اعتبار سے قابل قبول ہیں۔ کچھ مضامین کو نظر ثانی اور اصلاح کے بعد قابل اشاعت بنا دیا جاتا ہے۔ کچھ کی تلخیص کرنی پڑتی ہے۔ یہ سب کام سب ایڈیٹر کو سر انجام دینا ہوتے ہیں یا ان کاموں کی نگرانی کرنا ہوتی ہے۔

سب ایڈیٹر کی ذمہ داریاں:


سب ایڈیٹر کی ذمہ داریاں تخلیقی اور تنقیدی نوعیت کی ہیں۔ آج کل کے اخبار کی تزئین و تربیت کا کام ایک فن کارانہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے اور چھپا چھپایا اور بنا سنورا اخبار جب ہمارے ہاتھوں میں پہنچتا ہے تو اس کے پیچھے سب ایڈیٹر کی مہارت تخلیقی صلاحیت اور تدوین و ترتیب کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔
فرینک کنڈلین نے سب ایڈیٹر کی بڑی ذمہ داریوں میں اس کے یہ کام بھی شمار کیے ہیں:
٭پیرا بندی
٭ٹائپ کے مختلف سائز (بالفاظ دیگر قلم کی موٹا، کہاں جلی کہاں خفی)
٭اخبار کی تزئین۔ اخبار چھپ کر کیسے لگے گا؟
٭xسرخی جمانا، عنوان بندی
٭طباعت کے مراحل میں بھی جانچ پڑتال کرتے رہیں
٭سب ایڈیٹر کے فرائض کے عنوان سے ڈاکٹر مسکین علی حجازی نے اپنی کتاب میں ان نکات پر روشنی ڈالی ہے:
٭خبروں کا انتخاب
٭خبروں کی اہمیت کا تعین
٭خبر کی صحت کی جانچ پڑتال
٭ذاتی آرا اور تبصروں کو قلم زد کرنا
٭مبالغہ آمیزی ختم کرنا
٭پروپیگنڈا اور پبلسٹی سے پاک کرنا
٭اعداد و شمار کو قابل فہم بنانا
٭ملکوں اور شہروں کے نام
٭خبروں کو جامع بنانا
٭خبروں کو موثر بنانا
٭زبان کی درستی
٭مطلوبہ ہئیت میں پیش کرنا
٭متعلقہ اصطلاحات استعمال کرنا
٭ریڈیو مانیٹرنگ
٭پیراگراف بنانا
٭سرخیاں بنانا
٭متعلقہ علامتوں کا استعمال
٭کاپی کی تیاری

خبروں کی تدوین:


روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات عام نوعیت کے ہوتے ہیں اور معمول کے مطابق ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں انسان ہر روز انھیں دیکھتا، مشاہدہ کرتا اور ان کے بارے میں سنتا ہے لیکن ایسے واقعات میں حیرت، اچانک پن اور خاص دل چسپی کے عناصر کم ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان انھیں توجہ کے لائق نہیں سمجھتا۔ البتہ جن واقعات کے بیان میں کچھ نئی معلومات حاصل ہوں، جن باتوں کو معمول کے خلاف سمجھا جائے یا جن میں کچھ اچانک پن اور دل چسپی کا عنصر شامل ہو، انھیں خبر کہا جاتا ہے۔
خبر میں غیر معمولی واقعات، حادثات، ایجادات، مسرت انگیز یا الم ناک اطلاعات شمار کی جا سکتی ہیں۔ ان میں اکثر باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگوں کی اکثریت جاننا چاہتی ہے اور ان میں دل چسپی رکھتی ہے۔ اطلاع یا واقعہ مقامی نوعیت کا بھی ہو سکتا ہے اور قومی اور بین الاقوامی نوعیت کا بھی۔
یہ بات قابل غور ہے کہ کوئی واقعہ کتنا ہی دل چسپ اور غیر معمولی کیوں نہ ہو، اس وقت تک خبر نہیں بن سکتا جب تک اسے موزوں الفاظ کا جامہ پہنا کر دل کش انداز میں ایک رپورٹ کی صورت نہیں دی جاتی۔ یہی رپورٹ جب وہ لوگ پڑھیں گے جنھوں نے وہ واقعہ رونما ہوتا ہوا نہیں دیکھا تو اس میں دل چسپی لیں گے اور اسے خبر کہیں گے۔

خبر کی اشاعت:


اردو میں اخبار ایسی اشاعت کو کہتے ہیں جس میں خبریں چھپتی ہیں۔ اس میں سیاست، فن، تہذیب، کھیل، سماج، تجارت وغیرہ شعبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اصطلاحاً کسی واقعے کا براہ راست، بے لاگ اور صحیح بیان جس میں بہت سے افراد کو دلچسپی ہو۔ صحیح خبر ایسے واقعہ کا بیان ہے جس میں کوئی تبصرہ نہ ہو کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو، کسی ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ کوئی حقیقت مسخ نہ کی گئی ہو اور اپنی جانب سے کسی بات کا اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ خبر میں تازگی، قرب زماں و مکاں اور وسعت ہونی ضروری ہے۔ طرز تحریر موثر اور دل نشین ہونا چاہیے۔ بعض خبریں مقامی اہمیت کی ہوتی ہیں اور بعض عالمی امن و امان پر اثرانداز ہوتی ہیں جن سے ہر ملک کے عوام کو دلچسپی ہوتی ہے بعض اوقات چھوٹی سی جگہ پر انوکھا یا دلچسپ واقعہ پیش آ جاتا ہے جو لوگوں کی دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے۔

خبر کی اہمیت:


خبر کی اہمیت کا تعلق متعدد چیزوں سے ہوتا ہے جن میں خبر کا فوری پن یا تازگی قربت مکانی اثرات یا نتیجہ تعدد حیثیت عرفی تنازع مقدار یا تعداد انوکھا پنشامل ہیں۔ کسی قانون کا نفاذ یا حکومت کا کوئی اعلان عوام پر اثر نداز ہوتا ہو تو یہ بڑی خبر ہے۔ راز بھی خبر کا ایک اہم عنصر ہے۔ بڑے لوگوں کی زندگی یا کردار کے چھپے ہوئے گوشوں میں جھانکنے کا شوق شدید ہوتا ہے۔ کسی معمولی حیثیت کے آدمی کا بڑا کارنامہ یا بڑے آدمی کی چھوٹی سی بات بھی خبر بن سکتی ہے۔ واقعہ، مشاہدہ اور واقعہ نگاری خبر کے عناصر ترکیبی ہیں۔ لیکن صحافی کو قاری کے رجحانات، اپنے اخبار کی پالیسی اور بعض اخلاقی اصولوں کا بھی پاس رکھنا ہوتا ہے۔ اخبارات خبریں بین الاقوامی اور ملکی خبررساں ایجینسیوں کے علاوہ اپنے نامہ نگاروں اور خاص نمائندوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ ہر اخبار کے سٹاف رپورٹر عام تقاریب سے متعلق خبروں کے علاوہ تلاش اور کوشش سے خصوصی خبریں فراہم کرتے ہیں۔
مشہور صحافی اور کالم نگار انور غازی کی نظر میں:
خبریں کیسے بنتی ہیں؟ / آئیے خبر بنانا سیکھیں!
(انورغازی،سی ای او ”انورغازی اکیڈمی“)

خبر کی تقسیم:


خبر بنیادی طور پر دو اجزا پر مشتمل ہوتی ہے: پہلا جز ”ابتدائیہ“اور دوسرا جز ”تفصیلات“ کہلاتا ہے۔ پہلے حصے کو ”انٹرو“ (Intro) اور دوسرے حصے کو”ڈیٹیل“(Detail) کہا اور لکھا جاتا ہے۔ ”ابتدائیے اور انٹرو“ میں عموماً ”چھ کاف“ کے جوابات دیے جاتے ہیں۔ اگر ”6 کاف“ کے جواب نہ ہوسکیں تو کم از کم چار پانچ کے ضرور جواب دیے جاتے ہیں، ورنہ ابتدائیہ نامکمل سمجھا جاتا ہے۔
”چھ کاف“ سے مراد ”کیوں؟ کیا؟ کون؟ کب؟ کہاں؟ کیسے؟“ ہے۔ انگلش میں اسے ”WH Question“ کہا جاتا ہے۔ یعنی: ”Why، What، Who، When، Where اور How…. ایک اچھے اور عمدہ ابتدائیے اور انٹرو کی کسوٹی یہی شمار ہوتی ہے کہ اس میں کتنے ”کاف“ کے جواب دیے گئے ہیں۔ خبر کے انٹرو میں جتنے زیادہ ”کاف“ کے جوابات ہوں گے، ابتدائیہ اتنا ہی عمدہ شمار ہوگا۔ اس کی ایک قدرے پرانی مثال ملاحظہ کیجیے:
”18 نومبر 1988ء میں مولانا فضل الرحمٰن نے وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ قوم نے حالیہ انتخابات میں ان عناصر کو مسترد کردیا ہے جس کا سابقہ حکمرانوں سے تعلق رہا ہے۔ عوام ان کے کردار اور کارکردگی سے مایوسی کی بنا پر تبدیلی چاہتے تھے۔“
دیکھیں یہ پوری خبر نہیں ہے، اس کی تفصیلات اور ڈیٹیل بہت بڑی ہے۔ یہ صرف خبر کا ابتدائیہ اور انٹرو ہے۔ اس انٹرو میں ”چھ کاف“ کے جوابات دیے گئے ہیں۔
کاف نمبر ایک ہے:
”کیا ہوا؟“
جواب ہے:
”بیان دیا۔“
کاف نمبر دو ہے:
”کس نے بیان دیا؟“
جواب ہے:
”مولانا فضل الرحمن نے۔“
کاف نمبر تین ہے:
”کیا کہا؟“
جواب ہے:
”قومی اسمبلی کے انتخابات میں ان سب لوگوں کو جن کا سابقہ حکمرانوں سے تعلق رہا ہے، قوم نے یکسر مسترد کردیا ہے۔“
کاف نمبر چار ہے:
”کب کہا؟“
جواب ہے:
”اخبارشائع ہونے سے ایک دن پہلے۔“
کاف نمبر پانچ ہے:
”کسے بیان دیا؟“
جواب ہے:
”وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے۔“
کاف نمبر چھ ہے:
”کیوں مسترد کیا؟“
جواب ہے:
”اس لیے کہ قوم ان لوگوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی۔“
2015ء کی ایک اور خبر ملاحظہ کیجیے:
”لاہورنے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو مسترد کردیا، جس سے مسلم لیگ ن پر عام انتخابات میں دھاندلی سے جیتنے کے الزامات غلط ثابت ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کے امید وار ایاز صادق این اے 122 سے مسلسل چوتھی بار کامیاب ہوگئے۔ تحریک انصاف کی سرتوڑ کوششوں اور بے تحاشا دولت لٹانے کے باوجود عوام نے ووٹ نہ دے کر عبد العلیم کو شکست سے دوچار کیا۔“
اب دیکھیں اس خبر میں ”چھ کاف“ کے جوابات کس طرح دیے گئے ہیں؟ ل
کاف نمبر ایک ہے:
”کیا ہوا؟“
جواب ہے:
”مسترد کیا۔“
کاف نمبر دو ہے:
”کس نے کیا؟“
جواب ہے:
”لاہور نے۔“
کاف نمبر تین ہے:
”کب کیا؟“
جواب ہے:
”11 اکتوبر کو ضمنی الیکشن کے دن۔“
کاف نمبر چار ہے:
”کسے کیا؟“
جواب ہے:
”پی ٹی آئی کو۔“
کاف نمبر پانچ ہے:
”کہاں مسترد کیا؟“
جواب ہے:
”لاہور کے حلقہ NA-122 میں۔“
کاف نمبر چھ ہے:
”کیسے مسترد کیا؟“
جواب ہے:
”ووٹ نہ دے کر۔“
اگرچہ نظری اور فکری طور پر ایک اچھا ”انٹرو“ وہی شمار ہوتا ہے جس میں پورے کے پورے چھ کاف کے جوابات دیے گئے ہوں، مگر عملی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہوتا ہے، البتہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ”کاف“ کے جوابات خبر کے ابتدائیے میں آجائیں۔ بعض حالات میں خبر کا انٹرو بالکل سادہ بھی رکھا جاتا ہے اور کسی وقت کسی خاص وجہ سے خبر کا ابتدائیہ انتہائی پیچیدہ بھی ہوجاتا ہے۔
آج کل ”انٹرو“ کے عمدہ اسلوب اور کئی جدید صورتیں بھی اختیار کی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر بیانیہ ابتدائیہ، انوکھا ابتدائیہ، اقتباسی ابتدائیہ، استفہامی ابتدائیہ، مکالماتی ابتدائیہ، مفاجاتی ابتدائیہ…. وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی طریقے اور اسلوب ہیں،جن کو طوالت کی بنا پر چھوڑا جا رہا ہے۔
خبر کا دوسرا حصہ یا خبر کا دوسرا جز ”تفصیلات اور ڈیٹیل“ کہلاتا ہے۔ اس دوسرے اور آخری حصے میں خبر کی پوری اور جامع تفصیلات ہوتی ہے۔ اخبار میں جگہ کے اعتبار سے تفصیلات میں کمی زیادتی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اگر جگہ کم پڑرہی ہے تو تفصیلات میں سے چند جملے کم کردیے جاتے ہیں۔ اگر جگہ بچ رہی ہے تو مرچ مصالحہ لگاکر بڑھادیا جاتا ہے۔ یہ نیوز ایڈیٹر کی صوابدید اور اخبار میں جگہ کی گنجائش پر منحصر ہوتا ہے کہ تفصیلات کو کس طرح دیا جائے؟ اخبار کے فرنٹ پیج پر یا آخری صفحے پر خبروں کی سرخیوں، ذیلیوں، ڈیک، بکس، اوور لائن اور انڈر لائن کے بعد عموماً خبر کا ابتدائیہ ہی لگ پاتا ہے، خبر کی ڈیٹیل اور تفصیلات ”بقیہ“ میں چلی جاتی ہے۔

سرخیاں:


سرخیاں کیسے لکھی جاتی ہیں؟ اور اچھی سرخیوں کی خصوصیات کیا کیا ہیں؟ اس بارے میں مختصراً عرض یہ ہے کہ اچھی سرخی وہ ہوتی ہے جو دلکش ہو۔قارئین کی توجہ خبر کی جانب مبذول کروائے۔ قاری سرخی پڑھ کر فوری طور پر پوری خبر پڑھنے پر اپنے آپ کو مجبور پائے۔ اچھی سرخی کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ آسان، عام فہم اور مختصر الفاظ میں ہو۔ اچھی سرخیاں بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سرخیاں بنانے والے صحافی کا زبان و بیان پر عبور ہو۔ اس کا مطالعہ وسیع ہو، وہ معلومات کا خزانہ ہو، اور اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہو۔ سرخی لکھنے کے اصول و ضوابط اور آداب سے مکمل آگاہی رکھتا ہو۔ کم از کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مفہوم بتا سکتا ہو۔ خبر کے اہم ترین نکات کو جانتا ہو۔

تکرار:


سرخی کے علاوہ ”اوور لائن“ اور ”انڈر لائن“میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہو۔ ایک ہی بات کا تکرار ہرگز نہ ہو۔ اگر ذیلیاں کئی ہیں تو ہر ایک میں الگ الگ بات ہو۔ سرخی میں جو بات کہی جائے وہ مکمل بات ہو، ادھوری نہ ہو۔ بیان دینے والے کا سرخی میں وہ نام استعمال کیا جائے جس نام سے وہ سب سے زیادہ مشہو رہو۔ ذو معنی، پیچیدہ اور مشکل ترین تراکیب استعمال نہ کی گئی ہوں۔
حاصل یہ ہے کہ سرخیوں میں ایسے تمام الفاظ اور طریقوں سے مکمل پرہیز کیا جائے جس کی وجہ سے قاری کسی الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہوجائے۔ ایسی تمام تدابیر، فارمولے، اسلوب اور طریقے اختیار کیے جائیں جن سے قاری کو سمجھنے میں آسانی ہو، اور وہ سرخی پڑھ کر فوری طور پر پوری خبر پڑھنے پر اپنے آپ کو مجبور پائے۔ آئے دن سرخیو ں کے نئے نئے انداز اور ڈیزائن متعارف ہورہے ہیں۔ جب سے کمپیوٹر پر سرخیاں بننا شروع ہوئی ہیں، کتابت کے نت نئے انداز اور لکھائیوں کے نئے نئے ڈیزائن آئے ہیں تو ہر اخبار کی سرخیوں میں جدت آگئی ہے۔ 20 سال پہلے اور آج والی سرخیوں میں ”بعد المشرقین“ ہے۔ اب تو روزانہ ہی انداز، اسلوب اور ڈیزائن تبدیل ہورہے ہیں۔
بس اتنا یاد رکھیں کہ تمام کاموں، اشیائاور چیزوں کی طرح اخبار اور اخبار کی سرخیوں میں بھی جدت اور خوبصورتی آگئی ہے۔ معاصر اخبارات کے مابین اس میں بھی مقابلے ہورہے ہیں اور ڈیزائنروں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ حالات اشارہ دے رہے ہیں کہ سست، کاہل اور قدامت پسند صحافی پیچھے رہ جائے گا، چنانچہ صحافی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو جدید سے جدید ٹیکنالوجی، نئے نئے اسلوب، نئے نئے علوم و فنون اور نئی نئی مہارتوں سے آراستہ کرتا رہے، ورنہ زمانہ انہیں مسترد کردے گا۔

انسانی دل چسپی:


ایک اہم خبری قدر انسانی دل چسپی ہے۔ یعنی وہ خبر زیادہ انسانوں کے لیے باعث کشش ہوتی ہے جس میں انسانی زندگی سے متعلق کوئی اطلاع، انکشاف یا ڈرامائی عنصر موجود ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ایسی خبر کو واقعی دل چسپ اور جاذب توجہ بنانے کے لیے اخبار نویس اپنے قلم کے جوہر دکھا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں