164

قلفی افسانہ

وہ اپنے گھر کے پچھواڑے میں چھپ کر کھڑی تھی۔ قلفی کھانے کے لیے یہ جگہ اُسے ابو نے ہی بتائی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اُسے قلفی تھما کر اندر گئے تھے۔ جانے سے قبل انھوں نے اُسے تنبیہ کی تھی کہ پوری قلفی کھائے بغیر گھر نہ آنا ورنہ اماں مارے گی۔ یہ سن کر وہ مسکرائی تھی۔ اب وہ بڑے مزے سے قلفی کھا رہی تھی اور دل ہی دل میں اپنے پیارے ابا کو ڈھیروں دعائیں دے رہی تھی۔ آدھی قلفی باقی تھی جب اُسے امی کی چیخ سنائی دی:
”ہائے میں لٹ گئی… میں برباد ہو گئی!“ اماں نے دہاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا تھا۔ یہ رونا جانا پہچانا سا تھا۔ اس نے پہلے بھی ایسا رونا سن رکھا تھا۔ وہ سامنے ہو کر صورت حال سمجھنے لگی۔ اس نے دیکھا کہ چند محلے دار بوکھلاہٹ کی کیفیت میں ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ اسے یہ منظر بھی دیکھا دیکھا سا لگا، وہ ذہن پر زور دینے لگی کہ ایسا کب اور کیوں ہوا تھا۔ اچانک ہی اِک واویلا سا مچ گیا تھا، چیخنے چلانے کی آوازوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا تھا۔

وہ حیرانی سے اِس افراتفری کو دیکھے جا رہی تھی اور قلفی تھی کہ پگھلتی ہی جا رہی تھی مگر اس کے دماغ کی سوئی تو وہیں اٹکی تھی۔ پھر اسے سب یاد آ گیا۔
دو مکان چھوڑ کر رضیہ خالہ کا گھر تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں کی وجہ سے وہ اسے پیار سے ”نیلی“ بلایا کرتی تھیں۔ بالکل ایسے ہی ایک دن ان کے گھر سے چیخ پکار سنائی دینے کے ساتھ بھاگڑ مچی تھی۔ اماں اس دن بھی خوب روئی تھی اور ایک ہی جملہ کہے جا رہی تھی کہ ”ہائے! میری بہن کا سہاگ اُجڑ گیا!“
اس بات کا مطلب تو اُس کی سمجھ میں نہ آیا تھا البتہ کچھ دیر بعد وہ یہ سمجھ گئی تھی کہ اس کے خالو مر گئے ہیں۔ یکایک اس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا اور وہ بے یقینی سے بڑبڑائی، ”ابا مر گیا…؟“
دل میں کسک سی اُٹھی کہ اب اسے چھپ چھپ کر قلفی کون کھلائے گا۔
یہ خیال آتے ہی اُس کے ہاتھوں سے ادھ کھائی قلفی چھوٹ گئی اور وہ ”ابا! ابا!“ کہتے ہوئے گلا پھاڑ کر رونے لگی۔ اُبلتے تیل کی مانند گرم گرم آنسو اُس کے رخسار بھگو رہے تھے۔
اس سے ذرا فاصلے پر میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس گہری سانولی رنگت کا ایک ننھا وجود ساکت کھڑا تھا۔ وہ چھپ کر کافی دیر سے اُسے تکے جا رہا تھا اور جب وہ اچانک روئی تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا۔ اُس نے فوراً مٹی سے لتھڑی ہوئی قلفی اُٹھائی اور اپنے سیاہی مائل ہاتھوں سے قلفی کو صاف کرنے لگا۔ وہ روتے روتے چپ ہوئی اور دیدے پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
”کالُو!“ وہ حیرانی سے بس اتنا ہی کہہ سکی۔
اسے سب کالو پکارتے تھے جس پر اسے سخت غصہ آتا تھا لیکن نیلی کے کالو پکارنے پر وہ ہولے سے مسکرایا اور پھر اسے قلفی دینے کے لیے اپنے ہاتھ آگے کیے مگر وہ اب قلفی کیسے کھا سکتی تھی! اُس نے کالے کالے ہاتھ زور سے جھٹک دیے اور اپنی اکیلی ماں کا ساتھ دینے کے لیے روتے روتے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔
یہ اُس کی زندگی کا پہلا گھاؤ تھا جو اُسے کم سنی میں لگا تھا۔ پھر اُس نے قلفی کو کبھی ہاتھ نہ لگایا۔
دوسرے گھاؤ کے لیے اُسے جوان ہونا پڑا تھا۔ یہ گھاؤ اِس قدر گہرا تھا کہ اب تیسرا گھاؤ بڑی آسانی سے اُس کی جان لے سکتا تھا اور وہ ابھی مرنا نہیں چاہتی تھی۔ جینا اس کی مجبوری تھی، موت سے پہلے اُسے بینک سے لیا گیا قرض جو چکانا تھا۔ قرض کی آخری پائی چکانے تک اُس کی آخری سانس کا باقی رہنا ضروری تھا۔
٭
آسمان صاف ہو تو پنچھی پوری مسرت سے پرواز کرتے ہیں۔ اس دوران وہ جی بھر کے اٹکھیلیاں کرتے ہیں اور آزادی کے ساتھ فضا میں تیرتے رہتے ہیں۔ ان آزاد پرندوں کو دیکھنے کا اُسے بڑا ہی اشتیاق تھا۔ وہ اکثر دفتر سے چھٹی کے بعد کچھ وقفے کے لیے پارک کا رُخ کرتی اور کسی الگ گوشے میں بیٹھ کر آسمان کو تکتی رہتی۔ دس پندرہ منٹ وہ اس کیفیت سے من کو ہلکا کرتی اور پھر قدرے ہلکے قدموں کے ساتھ گھر کو چل دیتی۔ جس دن اُسے پنچھی دکھائی نہ دیتے تو وہ مزید رنجیدہ ہو جاتی۔
اُس دن خُنکی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اُس کے بدن پر سوئیاں چبھ رہی تھیں۔ پارک میں آئے لوگوں سے آنکھ بچا کر وہ اپنے جسم کے مختلف حصوں کو کھرچ رہی تھی۔ اُس کے منہ سے لذت اور اذیت کی ملی جلی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ اُس نے با رہا آسمان کی جانب دیکھا مگر وہاں ایک بھی پرندہ موجود نہیں تھا۔ پنچھیوں نے شاید اپنی جگہ بادلوں کے لیے خالی کر دی تھی اور بادل راجاؤں کی طرح سینہ تان کر یہاں سے وہاں جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ اُس کی پرانی شال گھس گھس کر اب اتنی باریک ہو چکی تھی کہ سردی بھی اُن بادلوں کی طرح سینہ تان کر اُس کے جسم پر کچوکے لگا رہی تھی۔ اُسے ڈاکٹر کی بات یاد آئی:
”دیکھیں بہن جی! آپ کی بیٹی ’ایگزیما‘ کا شکار ہے۔ دوائیں لگاتار استعمال کرواتے رہیں مگر موسمی اثرات سے جلد کو محفوظ رکھنا زیادہ ضروری ہے، خاص طور پر سردیوں میں …… اور ٹھنڈی چیزیں تو بالکل بھی استعمال نہیں کرنی۔“ معمول کے سبق سن کر اماں بس سر ہلا کر رہ گئیں مگر باہر نکلتے ہی اُنھوں نے ڈوبی ہوئی آواز میں کہا تھا:
”انیلا بچے! یہ ڈاکٹر ایسے ہی ڈراتے رہتے ہیں، تم پریشان نہ ہونا۔ دیکھنا یہ موئی الرجی جلد ختم ہو جائے گی۔“
اُس نے اپنے ہونٹ بھینچتے ہوئے اماں کی جانب دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ اب وہ بچی تو نہیں تھی، سب سمجھتی تھی کہ یہ بیماری ساری عمرکا روگ ہے۔ اس بیماری کی آڑ میں کتنے ہی ڈاکٹروں نے اپنی جیبیں گرم کی تھیں اور نوبت قرض لینے تک آ پہنچی تھی مگر یہ جلدی بیماری کسی آسیب کی طرح اُس پر سوار تھی۔ آسیب سمجھتے ہوئے وہ کئی عاملوں کے ہاں بھی جا چکے تھے مگر مداوا ہو کر نہ دیا تھا۔
اچانک اُسے بائیں ہتھیلی پر تیز جلن کا احساس ہوا۔ اُس نے دیکھا، گلابی رنگت کے چھالے اُسے کھرچن سے باز رہنے کی تلقین کر رہے تھے مگر اُس کا انگ انگ اضطراب میں گھرا تھا اور پھر اُس نے ہولے ہولے کھرچنا شروع کر دیا۔ کرب انگیز سسکیوں کے ساتھ اُس کی آنکھوں میں اک دریا سا اُمڈ آیا۔ اُس کی نم ناک آنکھیں بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی پر ٹھہر سی گئیں۔ سہ جہتی موسیقی نے اُس کے گرد حصار کھینچ لیا۔ بالکل وہی حصار جیسا سلطان کے آنے سے قائم ہوا تھا۔
سلطان اُس کا نیا محلے دار تھا۔ اُن کا مکان قریب ہی تھا۔ پہلے دن انیلا اُن کے گھر سویاں لے کر گئی تھی۔ سلطان کو پہلی ہی نظر میں انیلا کا معصوم چہرہ بھا گیا۔ جلد ہی اُسے انیلا کے دفتری اوقات معلوم ہو گئے۔ وہ اُسے آتے جاتے دیکھتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا رہتا۔ عورت ذات بند آنکھوں سے بھی اپنے ارد گرد کو محسوس کرنے کی قدرت رکھتی ہے، انیلا بھی یہ سب محسوس کر رہی تھی۔ سلطان کی صورت میں اس کی زندگی میں خوابوں کا شہزادہ آیا تھا۔ اس کے آنے سے وہ چلتی کہاں تھی بلکہ چڑیا کی مانند پھدکتی تھی۔ وہ بیک وقت خوشی اور خوف کی کشتیوں میں سوار تھی۔ پھر ایک دن جب انیلا دفتر جا رہی تھی تو گلی کی نکڑ پر سلطان نے اُس کاراستہ روک لیا۔ انیلا کے لیے یہ اچنبھے والی بات تھی، ایسا آج تک نہیں ہوا تھا۔ وہ اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹی۔ سلطان نے بنا کچھ کہے ایک چھوٹی سی ڈبیا اُس کی جانب بڑھا دی۔ انیلا نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ ڈبیا پکڑی اور لرزتی ٹانگوں کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔
دفتر سے واپسی پر انیلا کی بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں ایک خوب صورت انگوٹھی موجود تھی۔ وہ خود کو فضا میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی تھی۔ اب وہ خود ان پرندوں کی مانند آزادی سے اُڑنے کے قابل ہو چکی تھی مگر اُسے کیا خبر تھی کہ پہلی اُڑان میں ہی اس کے پر کتر دیے جائیں گے۔
جیسے ہی وہ گلی کی نکڑ تک پہنچی تو ٹھٹھک کر رک گئی، سلطان وہیں کھڑا۔ اُسے خوش گوار حیرت ہوئی تھی مگر سلطان کی سرد آواز نے اُسے آسمان سے زمین پر گرا دیا۔
”انجانے میں مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دینا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے پلٹا اور گھر کی جانب چل دیا جب کہ وہ اُسی نکڑ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ لوگ اُسے چھوت سمجھتے تھے، اُن کے سرد لہجے اُسے آزردہ کرتے تھے مگر یہ گھاؤ……اِس نے تو کئی دنوں کے لیے بیمار ہی کر ڈالا تھا۔ وہ بائیں ہاتھ کی چوتھی انگلی میں سے انگوٹھی کو کبھی نہ نکال سکی۔
٭
اُس کی نظریں انگوٹھی پر جمی تھیں کہ موسیقی میں ٹھہراؤ سا آ گیا، پھر اُس کی نمناک آنکھیں سبھی بند توڑ کر برس پڑیں۔ اُس نے اپنا سر گھٹنوں میں دیا اور سسکیاں بھرنے لگی۔ اس دوران اُس کا بدن ہچکولے کھا رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی اور پھر وہ چھوٹے بچوں کی طرح زار و قطار رو دی۔
اچانک اُس کے ہاتھوں سے کچھ ٹکرایا اور ایک سرد لہر اُس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔ وہ چونکی اور اپنا آنسوؤں سے تر چہرہ اُٹھا کر اوپر دیکھا۔ یخ بستہ موسم میں دو کالے کالے ہاتھ اُسے قلفی پیش کر رہے تھے۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں