160

امین الامت اور حضرات شیخین

احمد خلیق، لاہور

ان لکل امۃ امینا و ان امین ھذہ الامۃ ابوعبیدۃ بن الجراح ۔
ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح ہیں۔ (بخاری و مسلم)


جی ہاں!یہ تذکرہ ہے امت محمدیہ (علی صاحبہا والصلوۃ والسلام) کے ان جلیل القدر صحابی کا کہ جن کی امانت و دیانت کی گواہی خود صادق امین و سید المرسلین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک سے دے رہے ہیں، بایں ہمہ ان کی شخصیت و کردار میں زہد و تقوی، سادگی، انصاف پروری، رحم دلی، اخلاقی بلندی، مساوات، عاجزی و انکساری و علی ہذا القیاس دوسرے اوصاف درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ بقول حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہ
’’خدا کی قسم!میں نے کوئی ایسا اللہ کا بندہ نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ کینے سے پاک ہو اور ان سے زیادہ نیک دل اور ان سے زیادہ شر و فساد سے دور رہنے والا، اور ان سے زیادہ آخرت سے محبت کرنے والا اور ان سے زیادہ تمام لوگوں کی بھلائی چاہنے والا ہو…‘‘
نیز فرمایا: ’’اے ابو عبیدہ! میں تمہاری ضرور تعریف کروں گا اور (اس تعریف کرنے میں)کوئی غلط بات نہیں کہوں گا۔اللہ کی قسم جہاں تک میں جانتا ہوں آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں اور جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جو جہالت کی بات کا ایسا جواب دیتے ہیں جس سے شر ختم ہو جائے اور جو مال خرچ کرنے کے موقع پر خرچ کرنے میں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ضرورت سے کم خرچ کرتے ہیں بلکہ ان کا خرچ اعتدال پر ہوتا ہے۔ اللہ کی قسم!آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو دل سے اللہ کی طرف جھکنے والے اور تواضع کرنے والے ہیں، جو یتیم اور مسکین پر رحم کرتے ہیں اور خائن اور متکبر قسم کے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں (حیاۃ الصحابہ۔ حصہ اول)۔
بلا شبہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے خراج تحسین میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے صحیفۂ سیرت و اخلاق کا جامع عکس پیش کر کے رکھ دیا ہے۔
چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی کا احاطہ کرنا ایک مختصر سے مضمون میں مشکل ہے، سو عنوان بالا کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ تاریخ اسلام کے ان تین بزرگ ترین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کے واقعات پڑھ کے اندازہ ہو سکے کہ ان کے درمیان کیسے ( خالصتاً اللہ کے لیے )محبت، اخوت اور اخلاص کا اظہار ہوتا تھا، وہ ایک دوسرے کو کس قدر و منزلت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اصل مدعا کی طرف آنے سے پہلے ہلکا سا تعارف ضروری محسوس ہوتا ہے۔
مختصر تعارف:
عامر نام، ابو عبیدہ کنیت، امین الامتہ لقب، گو والد کا نام عبداللہ تھا، لیکن دادا کی طرف منسوب ہو کر ابن الجراح کے نام سے مشہور ہوئے، سلسلہ نسب پانچوں پشت میں فہر پر جا کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ حلیہ میں دراز قامت، دبلے پتلے، لمبوترے چہرے، ابھرے سینے اور چھدری داڑھی والے تھے جبکہ رخسار پچکے ہوئے گوشت سے خالی۔ آپ رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں سے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ عشرہ مبشرہ کے دس چنیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل اور دو دفعہ ہجرت (حبشہ اور مدینہ منورہ) کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ غزوۂ بدر میں اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے سگے باپ کو قتل کیا۔ اور عہد فاروقی میں رومیوں کے مقابلے کیلیے بھیجی جانے والی افواج کے سپہ سالار اعظم بنائے گئے اور اسی مناسبت سے فاتح شام کہلائے، بعد ازاں فتح کے وہیں کے عامل(گورنر) بھی مقرر ہوئے ۔
غزوہ احد:
تاریخ اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل کتب کے مطالعہ سے ہمارے علم میں ہے کہ غزوۂ احد میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلمکفار مکہ کے ایک ہلے کی زد میں آ کر زخمی ہو ئے۔ چہرہ مبارک خون آلود ہوا(جسے مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے چوس کے نگل لیا تھا) اور رخسار انور میں خود کی دو کڑیاں دھنس گئیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جو خیر کے ہر کام میں سب سے آگے ہوتے تھے نے انہیں نکالنے کے لییہاتھ بڑھایا کہ اسی اثنا میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی آ حاضر ہوئے اور گویا ہوئے: ’’اے ابو بکر!اس سعادت کو میرے حصے میں آنے دیں یعنی یہ کڑیاں مجھے نکالنے دیجیے…‘‘
ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کا یہ والہانہ پن دیکھ کر رک گئے اور پیچھے ہٹ آئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور ہاتھ کی بجائے دانتوں سے پکڑ کے ان کڑیوں کو نکالا جس سے یکے بعد دیگرے دو دانت شہید ہو گئے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ قریش میں تین اشخاص اپنی ظاہری خوبصورتی مع اچھے اخلاق کے لیے مشہور تھے۔ صدیق اکبر، عثمان غنی اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا دانتوں کے گرنے سے حسن میں فرق آ جاتا لیکن کہنے والے کہتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے کہ جن کے سامنے کے دو دانت نہ ہونے کی باوجود خوبصورتی گھٹنے کی بجائے اور بڑھ گئی، اور کیوں نہ بڑھتی جبکہ یہ خدمت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں قربان اور نچھاور ہوئے تھے۔ اسی موقع پر اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت سے سرفراز فرمایا۔
سقیفہ بنی ساعدہ:
یہ اسلامی تاریخ کا اہم اور قابل ذکر واقعہ ہے کہ جس میں تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی فراست، دور اندیشی اور بروقت اقدام سے امت کو ایک بڑی آزمائش سے بچا لیا۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تجہیز و تکفین میں مشغول تھے کہ اسی اثنا میں عمر رضی اللہ عنہ کو سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت سے متعلق انصار کے اجتماع کی اطلاع ملی۔ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو باہر بلا بھیجا، پہلے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تامل کا اظہار کیا لیکن جب حالات کی سنگینی کا پتہ چلا تو معاملات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد کر کے ساتھ چل دیے۔ راستے میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور یہ تینوں سقیفہ بنی ساعدہ کی جانب چل پڑے۔ انصار قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے حق خلافت میں پرجوش نظر آئے۔ وہاں پہنچنے پر عمر رضی اللہ عنہ نے تقریر کی غرض سے کھڑا ہونا چاہا لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں بٹھا دیا اور پھر ایسی جامع و مدبرانہ تقریر کی کہ فضا میں چھائی کشمکش کی کیفیت فرو ہو گئی۔ آخر میں فرمایا کہ’’دیکھو یہ عمر بن الخطاب موجود ہیں، جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی ذات سے خدا نے دین کو معزز کیا ہے، یہ دیکھو ابو عبیدہ بن الجراح موجود ہیں جن کو امین الامت کا خطاب عطا کیا گیا ہے، ان دونوں میں سے جس کے ہاتھ پر چاہو بیعت کر لو۔‘‘(سیر الصحابہ۔جلد دوم)
لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ دونوں حضرات خلافت کے سزا وار ہوتے، سو دونوں نے بڑھ کے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی (بعض روایت کے مطابق بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے بیعت میں سبقت لی ، پھر عمر و ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما نے پیروی کی)
بیعت سے ما قبل ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ایک پر اثر جملہ نے بھی انصار کو کسی غلطی میں پڑنے سے باز رکھنے میں مدد دی، فرمایا: یا معشر الانصار انکم کنتم اول من نصر فلا تکونوا اول من غیر…
یعنی: ’’اے گروہ انصار!تم نے سب سے پہلے (اسلام کے لیے) امداد و اعانت کا ہاتھ بڑھایا تھا، اس لیے تم ہی سب سے پہلے افتراق و اختلاف کے بانی نہ ہو جاؤ۔‘‘(سیر الصحابہ۔جلد دوم)
علاوہ ازیں خلافت کے معاملے پر حضرات شیخین کے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے الگ الگ مکالمے بھی ہوئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا ۔ ’’ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت ہو لوں، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور آپ اس امت کے امین ہیں۔‘‘
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا کہ میں اس شخص سے کیسے آگے بڑھ سکتا ہوں کہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے ہمارا امام بنایا ہو (یعنی آپ رضی اللہ عنہ ہی ہمارے دینی و دنیاوی مقتدا اور امام ہیں)۔ لگ بھگ دوسرا مکالمہ بھی انہی الفاظ کے ساتھ ہوا جس میں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہ واضح کر دیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نا ممکن ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور خلافت کا حقدار سمجھا جائے۔
سپہ سالار:
13ھ میں خلیفہ اول نے شام کے محاذ پر جہاد کی غرض سے مختلف لشکر ترتیب دیے، اور چند جید صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو ان کا امیر مقرر کیا۔ حمص کی جانب جانے والے لشکر کا امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بنایا گیا۔ روانگی سے قبل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو بعض مفید ہدایات دیں اور اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی، پھر فرمایا: ’’ابو عبیدہ میں نے خوب اچھی طرح دیکھا ہے کہ رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم تمھیں کس عزت اور محبت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے حضور میں تمہاری کتنی قدر و منزلت تھی۔ اس وجہ سے میری نگاہ میں تمہاری بڑی وقعت ہے۔ میں خدائے عزو جل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آج تمام روئے زمین پر میں کسی شخص کو بھی تمہارے اور عمر بن خطاب کے برابر نہیں سمجھتا۔ ہر اس انسان کی عزت جو مجھ سے ملتا ہے میری نظر میں تمہاری وقعت سے کم ہے۔ جاؤ اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو…‘‘
نیز لشکر کی روانگی کے وقت ایک دفعہ پھر وعظ و نصیحت کی، اور ان الفاظ میں مدح فرمائی’’ــ… مجھے یقین ہے کہ تم ان نیک اور پاک نفس لوگوں میں سے ہو جو ہر وقت اپنے خدا سے ڈرتے رہتے ہیں جو دنیا کی آلائشوں میں نہیں پھنستے اور جنہوں نے آخرت کو ہی اپنا توشہ بنایا…‘‘(عشرۂ مبشرہ از بشیر ساجد )
اسی طرح جب خلیفۃ الرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم قیس بن مکشوح کی سرکردگی میں ایک دستہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی جانب بطور کمک بھیجنے لگے تو ان سے یوں گویا ہوئے:
’’میں تم کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی ما تحتی میں بھیج رہا ہوں۔ وہ اس خوبی کے انسان ہیں کہ جب ان کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے تو وہ اس سے نرمی اور محبت سے پیش آتے ہیں،جو ان سے بد سلوکی کرتا ہے وہ اس سے نیک برتاؤ کرتے ہیں، جو ان کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ اس کے ساتھ دوستی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ما تحتوں پر نہایت مہربان ہیں اور ان کے ساتھ رفق و مدارات سے پیش آتے ہیں اور انہیں کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جس میں ان کا فائدہ نہ ہو۔ (ایضاً)
اللہ اللہ!افضل البشر بعد الانبیاء کی زبان سے امین الامت کے مقام و مرتبہ کا ایک سے زائد موقع پر بیان ان کے شرف و مجد کیلیے کافی ہے، کیونکہ یہ نا ممکن ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جو صدق و صفا کے مجسم پیکر تھے، کسی کی بے جا تعریف کرتے۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شام میں:
عہد فاروقی میں ملک شام کی مکمل فتح کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں کے عامل(گورنر) مقرر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ان کا اپنے مقرر کردہ عمال کی سخت جانچ پڑتال کرتے رہنا تھا کہ کہیں وہ منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ارتکاز دولت میں تو نہیں پڑ گئے اور دنیا داری نے ان کے مزاج و طبیعت میں سنت مطہرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد تو نہیں پیدا کر دیا۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ رضی اللہ عنہ شام کے دورہ پر تشریف لائے۔ امیر المؤمنین نے اپنے گورنر کا امتحان لینا چاہا اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی کہ مجھے اپنے گھر لے چلیے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو تردد کا اظہار کیا لیکن پھر اصرار پر انہیں لیے شہر سے باہر ایک جانب چل دیے۔ چلتے چلتے جھونپڑی نما گھر میں داخل ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ کیا دیکھتے ہیں کہ ماسوائے ایک تلوار، ڈھال، زرہ اور اونٹ کے کجاوہ کے اور کچھ نہ ہے۔ حیرانی کے عالم میں ان کی جانب دیکھا اور استفسار کیا ۔آپ کا سامان کدھر ہے؟
فرمایا ’’امیر المؤمنین!انسان کے لیے اتنا توشہ ہی کافی ہے جو اسے اس کی آخری آرام گاہ(قبر)تک پہنچا دے۔‘‘
پھر پوچھا ’’اور کھانے پینے کا کیا کرتے ہیں؟‘‘
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے طاق کی طرف ہاتھ بڑھایا اور روٹی کے چند ٹکڑے سامنے کر دیے ۔ بس انہیں پانی میں بھگو کے کھا لیتا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ کا یہ سننا تھا کہ آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہا ۔ ابو عبیدہ!دنیا نے ہم سب کو کچھ نہ کچھ بدل دیا لیکن تمھیں نہ بدل سکی۔ (جہان دیدہ و دیگر)
طاعون عمواس:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے ایک خاص قلبی لگاؤ تھا، وہ انہیں ’میرا بھائی‘کہہ کر بلاتے تھے۔ 18ھ میں جب’طاعون عمواس‘کی زد میں آ کر ہزاروں لوگ شام اور عراق میں لقمۂ اجل بن گئے تو خلیفۃ المسمین کو فکر لاحق ہوئی، اور اسی پریشانی میں وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ مقام سرغ تک آئے۔ مشورہ ہوا اور طے پایا کہ کل صبح سب امیر المؤمنین کے ساتھ واپس مدینہ منورہ چلیں۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ جو قضا و قدر کے سختی سے قائل تھے کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے چلنے سے انکار کر دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ادب و احترام کا پاس رکھتے ہوئے زیادہ زور نہیں دیا اور مدینہ لوٹ آئے، لیکن واپس آ کر بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فکر دامن گیر رہی۔ فوراً خط لکھا جس کا منشاء تھا کہ’میرا خط ملتے ہی فورا میری طرف چلے آؤ، مجھے تم سے ایک نہایت ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے۔‘
جب خط ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور پڑھا تو بول اٹھے۔ ’’امیر المؤمنین ایک ایسے شخص کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ اطاعت امیر کی اہمیت سے واقف تھے اور ساری زندگی اس پہ عمل پیرا بھی رہے تھے لیکن یہ وقت ذاتیات سے اوپر اٹھنے کا تھا ،سو جوابی خط لکھ بھیجا کہ’’امیر المؤمنین!میں اپنے لشکر کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر آپ کے پاس نہیں آ سکتا۔ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک اللہ تعالی میرے اور ان کے درمیان تقدیر کا اٹل فیصلہ نہیں کر دیتا… لہٰذا آپ مجھے اپنے حکم کی بجا آوری سے معاف رکھیے اور یہیں رہنے دیجیے۔‘‘
خط عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو پڑھ کے آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ پاس بیٹھے اصحاب کو گمان ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر آئی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’’نہیں…لیکن عنقریب ہوا چاہتی ہے۔‘‘
دوبارہ خط لکھا کہ ابو عبیدہ! اگر آپ خود نہیں آتے تو کم از کم اپنے لشکر کو موجودہ نشیبی مرطوب علاقے سے اٹھا کر کسی بلند پر فضا مقام پہ لے جائیے جہاں وبا کا اثر نسبتاً کم ہو۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی انجام دہی کے لیے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کسی مناسب جگہ کی تلاش کا کہا، اور پھر انہی کے مشورہ سے لشکر کو لیے جابیہ کے مقام کی طرف روانہ ہو لیے۔ (ایضاً)
شہادت:
تقدیر الٰہی کے سختی سے قائل ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پیش نظر حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ فرمان مبارک بھی تھا کہ جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وبا زدہ علاقے میں کسی کو جانے اور وہاں پہلے سے موجود لوگوں کو نکلنے سے منع فرمایا ہے (تاکہ اثرات سے دوسرے محفوظ مقامات کے لوگ متاثر نہ ہوں)۔ جابیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا ہی تھا آپ رضی اللہ عنہ کو بھی وبا نے آ لیا۔ شدت مرض میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ موت سے قبل مجمع میں ایک تقریر کی جس کے آخر میں فرمایا : ’’صاحبو! یہ مرض خدا کی رحمت اور تمھارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہے، پہلے بہت سے صلحائے روزگار اس میں جاں بحق ہو گئے ہیں، اور اب عبیدہ بھی اپنے خدا سے اس سعادت میں حصہ پانے کا متمنی ہے۔‘‘(سیر الصحابہ۔حصہ دوم)
ایک اشکال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ایسی موت کو اپنے لیے ’سعادت‘کیوں سمجھا؟ چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ؎ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن کے مصداق ہر نیک دل مسلمان کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرے، اور ہمارے علم میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ساری زندگی تیغ و سناں سے لیس داد شجاعت دیتے رہے لیکن میدان کارزار میں شہادت کے مرتبہ پر فائز نہ ہو سکے تو اللہ تعالی نے اپنے بندے کی خواہش ایک اور ذریعے سے پوری فرمائی، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’طاعون میں مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے…‘‘(عشرۂ مبشرہ بحوالہ طبقات ابن سعد)
۵۸برس کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سفر آخرت پر روانہ ہو گئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور نماز جنازہ پڑھائی (جنازہ سے قبل وہی تقریر فرمائی جسے اوپر نقل کیا گیا ہے )۔ چناچہ حدیث نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے جناب ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بھی شہداء کی صف میں شامل ہو کر اپنے دونوں ساتھیوں ابوبکر(صدیق )اور عمر (شہید)رضی اللہ عنہما کے ساتھ درجۂ علیا میں پہنچ گئے۔ رضی اللہ عنہم وارضاہ!!
توصیفی روایات:
حضرت حسن بصریؒ سے (مرسلا ًروایت)ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص ایسا ہے کہ میں چاہوں تو اس کے اخلاق میں کسی نہ کسی بات کو قابل اعتراض قرار دے سکتا ہوں، سوائے ابو عبیدہ کے۔‘‘(جہان دیدہ)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضوان اللہ تعالی اجمعین میں سے سب سے زیادہ محبوب کون تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ’ابو بکر‘
پھر پوچھا گیا ان کے بعد کون؟ فرمایا ’عمر…‘ تیسری بار پوچھا گیا کہ ان کے بعد کون؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا: ’’ابو عبیدہ ابن جراح‘‘ (رضی اللہ عنہم)
ایسے ہی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خلافت کے متعلق استفسار کیا گیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتے تو کس کو کرتے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے تینوں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ (جہان دیدہ و عشرۂ مبشرہ کے دلچسپ واقعات از ابن سرور محمد اویس)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک مرتبہ اپنے بعد خلیفہ کے تقرر کا سوال آیا تو آپ نے فرمایا کہ’’اگر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں میرا وقت آ گیا تو مجھے کسی سے مشورے کی بھی ضرورت نہیں، میں ان کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لیے نامزد کر جاؤں گا۔ اگر اللہ تعالی نے اس نامزدگی کے بارے مجھ سے پوچھا تو میں عرض کر سکوں گا کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے، اور اس امت کے امین ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘(جہان دیدہ)
اسی طرح شہادت سے قبل بھی جب خلیفہ کی نامزدگی کا مسئلہ کھڑا ہوا تو فرمایا۔ ’’اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو میں انہیں نامزد کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتا ،کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس امت کے امین ہیں۔ میں یہ بار امانت ان کے سپرد کر دیتا۔‘‘ (ایک اور روایت میں اسی قسم کا اظہار سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما کے متعلق بھی فرمایا کہ بقول حضور علیہ الصلاۃ والسلام ’ سالم رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بہت محبت کرتے تھے۔عشرۂ مبشرہ) اگرتھوڑی دقت نظر سے دیکھا جائے تو مذکورہ دونوں روایات اور سقیفہ بنی ساعدہ کے ذیل میں بیان کیے گئے حضرات شیخین کے ساتھ ہونے والے مکالمہ جات میں کتنی مماثلت ہے۔ قیاس کیا جا سکتا ہے امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ خلافت راشدہ کے منصب جلیلہ پر متمکن ہونے کے مکمل اہل تھے، لیکن قضا و قدرت میں ایسا نہ لکھا تھا سو وہ اپنے وقت پر اٹھا لیے گئے… واللہ اعلم
اللھم اجعلنا منہم… آمین
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں