125

افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

تحریر:احمد خلیق، لاہور

ما طلعت الشمس ولا غربت بعد النبیین والمرسلین علی أحد أفضل من أبي بکر (ابو نعیم)

ترجمہ: انبیاء و رسل علیہم الصلوات والتسلیمات کے بعد کسی ایسے شخص پر سورج نہ طلوع ہوا اور نہ غروب جو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل ہو۔
بلا شبہ ہم مسلمانوں کا یہ اجماعی عقیدہ ہے، جس کا اظہار ہزاروں، لاکھوں ائمہ کرام و خطباء عظام ہر ہفتے خطبہ جمعہ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’افضل البشر بعد الأنبیاء بالتحقیق…سیدنا ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ‘۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت محمد مصطفیﷺ کوخیر البشر و خیر الخلائق بنایا کہ نہ آپﷺ سے کوئی عظیم تر ہوا نہ ہو سکتا ہے، تمام جملہ محاسن واخلاق کواپنی کامل ترین صورت میں آپﷺ کی ذات مبارکہ میں جمع فرما دیا اور تمام رذائل و بدئیات سے مبراو منزہ کر دیا، اسی کے بموجب آپﷺ کی فیض یافتہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی دنیا کی سب سے عظیم جماعت ہے کہ اس کا کوئی ثانی ہوا نہ ہو سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بحیثیت مجموعی آپﷺ کا پرتو تھے،انہوں نے آپﷺ کی ایک ایک ادا کوسنت مطہرہ سمجھتے ہوئے حرز جاں بنایا، لیکن ایسا ناممکن تھا کہ کوئی بھی پورے طور پر اسوہ رسولﷺ کا آئینہ دار ہوتا، سو ہمیں کسی صحابی میں کوئی وصفِ نبوی بڑھا ہوا ملتا ہے تو کسی دوسرے میں کوئی اور۔ جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی فیاضی اور سخاوت کے بدولت غنی سے ملقب ہوئے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے عدل و انصاف کی بنا پر فاروق اعظم سے مشہور ہوئے اور علی ہذا القیاس دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین۔
پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی نبی اور رسول کا سب سے پہلا اور بنیادی وصف صادق اور سچاہونا ہے کہ اس کے بغیر نبوت و رسالت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ ہادئ انسانیت علیہ الصلاۃ و السلام نے جب کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش مکہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اکٹھا کیا تو ایک لشکر عظیم کے حملہ سے ڈرایا اور استفسار کیا کہ کیا میری بات پر یقین کرو گے؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ہم نے آپﷺ سے صدق و سچائی کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں ہے……تو معلوم ہوا کہ اس صفت صداقت کا قبل از نبوت ہی کسی نبی برحق میں ہونا لازم امر ہے۔
اسی سے مقام صدیقیت پر روشنی پڑتی ہے، چناں چہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مطابق سلوک و معرفت کے بہت سے مدارج ہیں مثلا ولایت شہادت وغیرہ مگر ان میں سب سے اعلیٰ مقام صدیقیت کا ہے، اور اس مقام میں اور نبوت میں کوئی واسطہ نہیں……ایک پیغمبر کو وحی کے ذریعہ جن حقائق کا علم ہوتا ہے اور وہ اس کو دوسروں تک پہنچاتا ہے،ایک صدیق اس کی بلا چوں چرا تصدیق کرتا ہے۔ پیغمبر کی بتائی ہوئی چیز کیسی ہی مابعد الطبیعی اور بالائے فہم و قیاس ہو، بہرحال صدیق کے لیے وہ بدیہی سی چیز ہوتی ہے،اور وہ اس کو سنتے ہی قبول کر لیتا ہے۔(صدیق اکبر از مولانا سعید احمد اکبر آبادی)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے فرمانین حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوسکتے۔ آیات و احادیث میں بیان کردہ الفاظ کی ترتیب بھی معنی خیز اور کسی حقیقت پہ دال ہوتی ہے۔ چناں چہ نکتہ ہائے بالا کی تائید قرآن و حدیث سے اس طرح ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ و شانہ کا ارشاد ہے:

من یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین و الصدیقین والشھداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا۔ (النساء:۹۶)

ترجمہ: ”جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا: یعنی انبیاء، صدیق، شہید اور صالحین اور یہ لوگ کتنے اچھے رفیق ہیں۔“
اور ایک دفعہ جب آپﷺ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے تو وہ ہلنے لگا، آپﷺ نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا:

اسکن احد فلیس علیک الا نبی و صدیق و شھیدان

ترجمہ:”اے احد ٹھہر! کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں“
لفظ’نبی‘ کا اشارہ تو خود جناب رسالت مآبﷺ نے اپنی طرف فرمایا، یہ تو سب کو معلوم ہوگیا مگر ’صدیق‘ اور ’شہداء‘ کون تھے؟تو اس کا جواب بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ صدیق ابو بکر ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما ہی تھے، نہ صرف صدیق بلکہ صدیق اکبر!جبکہ شہداء سے مراد عمر و عثمان رضی اللہ عنہما تھے۔ اس حدیث مبارکہ میں دو لطیف نکات کی طرف اشارہ ہے: ایک آیت بالا کے سے ہی انداز میں بشریت کے مدارج کو بیان کر دیا گیا ہے کہ سب سے اعلیٰ و ارفع درجہ انبیاء و رسل کا ہے، پھر صدیق اور پھر شہداء کا……اور دوسرا یہ کہ عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے حق میں حضور اکرم ﷺ کی پیشینگوئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کا رتبہ عطا فرمائیں گے جو کہ حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ افضلیت کیسے نصیب ہوئی؟ تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ’صدیق‘ نبی صادق کی بات کی گواہی بلا چوں چرا دیتا ہے، وہ سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرتا، عقل و منطق کی گتھیاں سلجھانے نہیں بیٹھ جاتا۔ اس بات کا مظاہرہ ہم سیرت صدیقی میں جابجا دیکھتے ہیں کہ جب باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حق کے پہچاننے میں کچھ دیر کی، توقف کیا تب تنہا آپ رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات ہی نے بغیر کسی وقفے کے ببانگ دہل حق و سچ کا ساتھ دیا۔ ہم ذیل میں انہی ایمان افروز واقعات پر روشنی ڈالیں گے۔

قبول اسلام:

حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی روایات میں تھوڑا بہت اختلاف ہے۔ صاحبِ”صدیق اکبر ؓ“کی تحقیق کے مطابق اعلانِ نبوت کے موقع پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یمن تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ واپسی ہوئی تو سرداران قریش ملنے کی غرض سے آئے۔پوچھا ’کوئی نئی بات؟‘ کہنے لگے کہ ’عبداللہ کے یتیم لڑکے نے نبوت کا دعوی کیا ہے‘۔ سردار چلے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ فورا دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور اس بابت استفسار کیا۔ جواباًآپﷺ نے اثبات فرمایا تو صدق و صفا کے پیکر نے اول وہلے میں تصدیق فرمادی……لہٰذا آغاز روایات میں توکم و بیش کچھ نہ کچھ فرق ہے مگر تاریخ و سیرت کی ہر کتاب میں آخری حصہ کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے، چناچہ ہادئ اکرمﷺ نے اس انفرادی شان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا (مفہوم):
”میں نے جس کسی پر بھی اسلام پیش کیاوہ اسلام سے کچھ نہ کچھ ضرور جھجکا مگر ابوبکر کہ اس نے اسلام کے قبول کرنے میں ذرا برابر کوئی توقف نہیں کیا۔“

واقعہ معراج:

اسی طرح واقعہ معراج کے موقع پر بھی جب آنحضرتﷺ ایک ہی رات میں بیت المقدس، آسمان دنیا اور ماورا سے لوٹ کر واپس ا ٓگئے، اور بطور معجزہ اس کی خبر قریش مکہ کو دی تو وہ آپﷺ کا تمسخر اڑانے لگے۔ کچھ لوگ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے اور کہنے لگے کہ’تمھارے دوست محمد(ﷺ) فرماتے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں بیت المقدس سے ہو کر آ گئے ہیں، کیا تم اس کی بھی تصدیق کرو گے؟حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعی رسول اللہﷺ یہ ارشاد فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے ہاں میں جوا ب دیا تو گویا ہوئے کہ اگر حضورﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے میں تو بالکل سچ فرمایا ہے، میں اس کی تصدیق کرتا ہو بلکہ میں تو اس سے بھی بڑھ کے آپ کی بیان کردہ آسمانی خبروں کی صبح و شام تصدیق کرتا رہتا ہوں۔
واقعہ ہذا میں بھی آپ رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں کہ جنہوں نے نبی صادق ﷺ کے معجزے پر ایمان لانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور اسی کے بدولت دربار رسالتﷺ سے ’صدیق‘ کے لقب سے فیض یاب ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق حضور اکرم ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ میری قوم میں سے کون اس واقعہ کی تصدیق کرے گا؟ تو جبرئیل امین نے عرض کیا کہ ابوبکر آپﷺ کی تصدیق کریں گے کہ وہ ’صدیق‘ ہیں۔

صلح حدیبیہ:

۶ہجری میں جب مسلمانوں اور کفار مکہ کے مابین صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو اس کی بعض شقوں پر مسلمانوں کو تشویش ہوئی، پھر جب ابو جندل رضی اللہ عنہ کو بھی معاہدے کی رو سے واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا گیا تو اس غم ورنجیدگی میں اوراضافہ ہو گیا۔ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات میں آنحضرتﷺ سے گویا ہوئے (مفہوم):
”یا رسول اللہ! کیا آپ اللہ کے برحق نبی نہیں؟“
فرمایا:
”کیوں نہیں!“
عرض کیا:
”کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟“
فرمایا: ”بے شک۔“
دہائی دی:
”تو پھر ہم یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟“
رسالت مآبﷺ نے ارشاد فرمایا:
”میں اللہ کا برحق نبی اور رسول ہوں، میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کر سکتا، وہ میرا معین و مددگار ہے۔“
بعد ازاں حضرت عمررضی اللہ عنہ یہی سوالات لے کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کیا کہنے شان صدیقی کے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی حرف بحرف وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو زبان رسالتﷺ سے ادا ہوئے تھے۔ یہ صرف اور صرف صدیقی وصف تھا کہ جس نے نبی اور امتی کو یک زبان کر دیا تھا۔ واقعہ حدیبیہ میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ برخلاف دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اول تا آخرقلبی اطمینان سے سرشار رہے کہ اسرار ِنبوت کو آپ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ جانتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کے لیے احکامِ خداوندی سے سرمو انحراف کرنا بھی محال ہے، سو یہ سب اسی پروردگار کی منشا و مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اخیر عمر تک اس واقعہ کا افسوس رہا اور اس کے ازالے میں بہت سی نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، صدقہ و خیرات کیا اور غلام آزاد کیے۔

سانحہ جانکاہ…وصال النبیﷺ:

جب حضورپر نور علیہ الصلاۃ والسلام اس دنیائے فانی سے پردہ فرما گئے تو مسلمانوں پر سراسیمگی کا عالم طاری تھا۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ ان پر محبوب کبریا کی جدائی کی صورت غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ تلوارہاتھ میں سونتے لوگوں کو دھمکا رہے تھے کہ
’’اگر کسی نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ وفات پا گئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا……نہیں! بلکہ وہ اللہ کے ہاں بمثل موسی علیہ السلام گئے ہیں، آپﷺ یقینا واپس آئیں گے اور منافقین کا قلع قمع کریں گے۔“
اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام سخ سے تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی جانب توجہ نہ دی اور سیدھا حجرۂ اقدس میں تشریف لے گئے۔سرور کونینﷺ کے رخ انور سے یمنی چادر ہٹائی، بوسہ دیا اور گلوگیر آواز میں گویا ہوئے:
”آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپﷺ کی حیات اور موت دونوں پاک ہیں، جو موت اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے حق میں لکھ دی تھی آپﷺ نے اس کا مزہ چکھ لیا، اب اس کے بعد آپﷺکبھی وفات نہیں پائیں گے۔“
یہ فرمایا اور چہرہ مبارک چادر سے ڈھک دیا۔ باہر مسجد نبوی ﷺ میں آئے تو وہی منظر تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
”اے قسمیں کھانے والے ٹھہر جا، جلدی نہ کر!‘‘
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بات سنی ا ن سنی کر دی۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ التفات نہ فرمایا اور مجمع کی طرف رخ کر کے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر ارشاد فرمایا:
أَلا مَنْ کانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہَُّ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ َکانَ یعْبُدُ اللّہَ فَإِنَّ اللّہَ حَيٌّ لاَ یمُوتُ، وَقَالَ: إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّھُمْ میِّتُونَ (الزمر: 30)، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی أَعْقَابُِکمْ وَمَنْ ینْقَلِبْ عَلی عَقِبَیہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللّہَ شَئیا وَسَیجْزِي اللّہُ الشَّاکِرِینَ (آل عمران: 144)
ترجمہ: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پوجتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔(پھر سورہ الزمراور آل عمران کی یہ آیات تلاوت فرمائیں):
”اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔“
لوگوں کایہ سننا تھا کہ وہ زارو قطار رونے لگے، انہیں اب یقین ہو چلا تھا کہ رسول اللہﷺ اس دار فانی سے دارالبقا کوکوچ کر گئے ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آل عمران کی مذکورہ آیت معلوم ہوتا تھا کہ ابھی آسمان سے نازل ہوئی ہے،بعد اس کے ان کے قدموں میں جان نہ رہی اور وہ گر پڑے۔ شمع رسالتﷺ کے پروانوں کے لیے اس سے بڑھ کر غم و صدمہ کا اور کون سا موقع ہو سکتا تھا، لیکن یہاں بھی یہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ انہوں نے کمال حوصلہ اور دانائی سے مسلمانوں کو کسی فتنے میں پڑنے سے بچا لیا حالاں کہ طبعاً آپ رضی اللہ عنہ اوروں کی نسبت زیادہ رقیق القلب واقع ہوئے تھے۔

جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی اور امارت کا مسئلہ:

رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک لشکر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں تشکیل دے کر اسے روم کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا تھا۔ مقصد رومیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا بروقت تدارک کرنا تھا اور بعض دیگر کے جنگ موتہ کا بدلہ لینا پیش نظر تھا (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے تھے)۔ بہرصورت لشکر ابھی مقام جرف (مدینہ کے اطراف کا میدان) پر پڑاؤ کیے ہوئے تھا کہ وصال کی خبر آ گئی اور روانگی تجہیز و تکفین تک ملتوی ہو گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفۃالرسولﷺ منتخب ہوئے تو خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے جیش اسامہؓ کی روانگی کا حکم صادر فرمایا۔ وصال مبارک کی بدولت حالات نازک ہو چلے تھے، بغاوت اور ارتداد کے سائے منڈلانے لگے تھے اور عرب قبائل میں شورش برپا ہونے کی خبریں مسلسل دربار خلافت میں آ رہی تھیں۔ ایسے میں مسلمانان مدینہ میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری تھا۔ چناچہ صحابہ اکرا م رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ فی الوقت لشکر کی روانگی کو مؤخر کر دیا جائے تاکہ مدینہ طیبہ کی حفاظت ہو اوراول فتنہ و ارتداد کا بندوبست کیا جا سکے……مگر قربان جائیے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت و استقلال پہ کہ فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مدینہ اس طرح خالی ہو جائے کہ اکیلا میں ہی رہ جاؤں اور درندے اور کتے مجھے بھنبھوڑ کھائیں میں پھر بھی اسامہؓ کو آپﷺ کے حکم کی تعمیل میں روانہ کروں گا۔“
لوگوں نے جب دیکھا کہ خلیفۃالرسولﷺ فیصلے میں پکے ہیں تو بعض انصار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر لشکر کی روانگی ضروری ہی ٹھہری ہے تو امارت پرجواں سال اسامہؓ کی بجائے کسی معمر اور تجربہ کار صحابی کو مقرر کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب یہ سفارش لے کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ رضی اللہ عنہ قدرے غصے سے مخاطب ہوئے:
”اے خطاب کے بیٹے! رسول اللہﷺ نے اسامہؓ کو امیر لشکر مقرر فرمایا اور اب تم کہتے ہو ان کو معزول کر دوں!“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جواباً کیا کہتے، لوٹ آئے اور لوگوں کو سخت سست کہا کہ ان کی وجہ سے انہیں خلیفۃالرسولﷺ سے جھڑکیاں سننے کو ملی ہیں۔ وصالِ مبارک اور مابعد پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ اگر اس وقت میں اللہ تعالیٰ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے امت محمدیہﷺ کی دستگیری نہ فرماتے تو اس کا شیرازہ بکھر جانے کو تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت اورکامل اطاعت نبویﷺ کے جذبے نے انہیں کسی بھی قسم کے انحراف سے باز رکھا۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ مع اپنے لشکر کے فاتح اور کامیاب لوٹتے ہیں۔

مانعین زکوٰۃ سے قتال:

جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ حضورﷺ کے وصال کے بعد ہر جانب سے شورشوں اور فتنوں نے سر اٹھانا سروع کر دیا تھا۔ انہی میں سے ایک گروہ ادائی زکوۃٰ کا منکر ہو گیا۔ یہ لوگ مدینہ کے قرب جوار میں بسنے والے قبائل عبس و ذیبان و دیگر سے تعلق رکھنے والے تھے۔ کچھ تو ان میں سے بسبب بخل ادا کرنے سے پھر گئے، کچھ اسے ریاست کا تاوان سمجھنے کی وجہ سے انکاری ہو گئے اور کچھ کا مؤقف تھا کہ وہ اپنے ہاں کے غرباء میں خود تقسیم کر دیں گے، دارالخلافہ کچھ نہ بھجوائیں گے۔ یہ لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں آ کر مدینہ کے اطراف میں بیٹھ گئے اورمدینہ کے باسیوں کو قائل کرنے لگے کہ ہم سے نماز پڑھوا لی جائے پر زکوٰۃ کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس نازک صورت حال کو دیکھا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورے کی غرض سے بلوا لیا۔ اکثریت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ لوگ ابھی جدید الاسلام ہیں، ان سے تعرض نہ کیا جائے، جب اسلام ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے گا تو یہ خود ادائی زکوٰۃ کرنے لگیں گے۔ اس موقف کے حق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی پیش پیش تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ سننا تھا کہ گرج کر بولے:
”اے ابن خطاب! تم زمانہ جاہلیت میں تو بڑے جبار تھے، مسلمان ہوکر بودے اورپست ہمت (خوار) بن گئے۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، دین کمال کو پہنچ چکا۔ کیا میری زندگی میں اس کی قطع و برید کی جائے گی،خدا کی قسم! اگر رسی کا ایک ٹکڑا بھی دینے سے لوگ انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حجت پیش کی کہ آپؓ ان سے کس بنیاد پر قتال کریں گے؟ آنحضرتﷺ نے تو فرمایا ہے کہ ”مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لاالہ الا اللہ وان محمد رسول اللہ نہ کہیں…لیکن جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو ان کی جانیں اور مال محفوظ ہو جائیں گے مگر ہاں جب ان پر کسی کا کوئی حق ہو“۔ لیکن اللہ اللہ! اس کے بالمقابل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق کا اظہار کتنی قوت سے کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلاۃ و الزکاۃ، فان الزکاۃ حق المال،واللہ لو منعونی عناقا کانوا یودونھا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقاتلتھم علی منعھا۔“ (صحیح البخاری: ۰۰۴۱)
ترجمہ:”اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے،خدا کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا…“
یہ سننا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ لڑائی کے لیے کھول دیا ہے اور بعد میں خود ان کو بھی اطمینان ہو گیا کہ حق یہی ہے۔ یہ بعینہ وہی بات تھی کہ جب دور رسالت ﷺ میں بنو ثقیف کا ایک وفد آپﷺ کی بارگاہ میں قبول اسلام کی غرض سے حاضر ہوا اس شرط پہ کہ انہیں نماز معاف کر دی جائے تو آپﷺ نے بڑی سختی سے رد فرمایا:
”بھلا وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہ ہو۔“
مطلب صدیقی فہم و فراست جانتی تھی کہ جس طرح نماز کی فرضیت پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا بالکل اسی نہج پر زکوٰۃ کی فرضیت پر بھی سوال نہیں اٹھ سکتا۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں دونوں کو متعدد مقامات پر اکٹھے بیان فرمایا ہے، چنانچہ درجہ کے اعتبار سے دونوں احکام برابر ہیں اور اگر اسی طرح لوگوں کو من پسند رعایتیں دی جاتی رہیں تو دین اسلام مذاق بن کر رہ جائے گا۔ سرکش وفود ناکام و نامراد لوٹے اور مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے سے قبل ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اقدامی جہاد کرتے ہوئے انہیں شکست فاش دی اور دین میں ’گنجائش‘ کے باب کوہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آخری چار واقعات میں ہم امت محمدیہ ﷺ کی دوبزرگ ترین ہستیوں یعنی ’حضرات شیخین‘ کو آمنے سامنے پاتے ہیں۔ جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل مشہور و معروف ہیں۔ عوام کی اکثر محفلوں میں ان کا تذکرہ اور واقعات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے لیکن حق اور سچ یہی ہے کہ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھی سے مقام و مرتبہ میں بہت بلنداور فائق ہیں۔ اس کا اظہار و اعتراف سیرت کی کتب میں جابجا نظر آتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:
”عمرؓ اور اس کے خاندان کی ساری نیکیاں ایک طرف جبکہ ابوبکرؓ کی ایک رات (یا بروایات تین راتیں…غار ثور) یا ایک دن (منکرین زکوٰۃ سے قتال) کی نیکی ایک طرف ان سب پہ بھاری ہے۔“
اللہ اکبر!بلاشبہ وہ ایسے ہی تھے، اور بے شک افضل الامت کی فضیلت و منقبت کا بیان زبان رسالت ﷺسے بہتر و برترکون کر سکتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ (اکیلے) کی تعریف میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہم آخر میں صرف ایک قول پیش کر کے اپنے مضمون کو سمیٹتے ہیں،اللہ کے حبیبﷺ نے ارشاد فرمایا:
”ما لا احد عندنا ید الا وقد کافیناہ ما خلا ابابکرفان لہ عندنا یدا یکافیہ اللہ بھا یوم القیامہ وما نفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر ولو متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا الا وان صاحبکم خلیل اللہ“ (الترمذی: ۱۶۶۳)
ترجمہ: کسی کا ہمارے اوپر احسان نہیں جسے میں چکا نہ دیا ہوسوائے ابو بکر کے، کیوں کہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے مجھے کبھی بھی اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو اپنا خلیل (گہرا دوست) بنانے والا ہوتا تو ابو بکررضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا، سن لو تمھارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے۔
صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعا احسان الی یوم الدین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں