boy, horse, happiness-2748008.jpg 84

انور کا بادل

نوشاد عادل


آسمان سے چھما جھم بارش ہورہی تھی۔ اندھیرے میں ڈوبا ہوا قصبہ نسیم نگر پورا بارش کے پانی سے جل تھل ہوگیا تھا۔قصبے کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے اللہ کو یاد کررہے تھے۔سردی بہت شدید تھی۔ایسے وقت میں قصبے کی چھوٹی او رکچی کچی سڑکیں بالکل ویران نظر آرہی تھیں۔ سارے ہوٹل اور دکانیں بھی بند تھیں۔کتے بھی محفوظ کونوں میں دبکے ہوئے تھے تاکہ بارش اور سردی سے بچ سکیں۔کبھی کبھی آسمان پر بادلوں کی گڑگڑاہٹ اتنی تیز ہوتی کہ لوگوں کے دل دہل جاتے۔بچے اپنی ماؤں کی گودوں میں چھپ جاتے۔کبھی بجلی اتنی تیز چمکتی کہ سار علاقہ روشن ہوجاتا او رپھر اچانک ہی اندھیرا ہوجاتا تھا۔
”ماں!باباابھی تک نہیں آئے؟“لحاف میں دبک کر بیٹھے ہوئے انور نے اپنی ماں سے سوال کیا۔
”ماں!بابا کب آئیں گے؟اتنی دیر ہوگئی۔ پہلے تو اتنی دیر میں نہیں آتے تھے‘بتاؤ نا ماں؟“
”آجائیں گے بیٹا!“ اس کی ماں نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے کہا۔
”چل اب تو آرام سے سوجا۔ ورنہ تیرے بابا ڈانٹیں گے کہ تو اب تک نہیں سویا۔ سوجا میرے چاند۔“
”ماں!میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ تیرہ سالہ انور نے لحاف کو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹتے ہوئے کہا۔
”آنکھیں بند کر کے لیٹ جا۔ڈر خود بخود بھاگ جائے گا۔شاباش، میرا بیٹاماں کا کہنا کتنی جلدی مانتا ہے۔“ماں نے پچکارا تو انور آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔کچھ ہی دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”ماں!نیند نہیں آرہی ہے۔بابا کب آئیں گے؟“
اس کی ماں خود بے چینی سے ٹہل کر دعائیں مانگ رہی تھی۔ اتنے میں بیرونی دروازے کی کنڈی زور سے بجی۔انور اُچھل کراپنے بستر سے نکل پڑا۔اس کی ماں جلدی سے کمرے سے نکل گئی اور بارش میں بھیگتی ہوئی صحن میں گئی پھر اُس نے گلی کا دروازہ کھول دیا۔انور کا بابا محمد نواز تیزی سے اندر آگیا۔اس نے گھوڑے کی راسیں پکڑی ہوئی تھیں۔اس کا گھوڑا لنگڑاتا ہواصحن میں آگیا۔
”ہائے اللہ!“انور کی ماں دھک سے رہ گئی۔
”یہ بادل کو کیا ہوا؟یہ لنگڑا کر کیوں چل رہا ہے؟“
گھوڑے کے اگلے ایک پیر میں کپڑا بندھا ہوا تھا۔آسمانی بجلی کی روشنی میں کپڑے او رپیر پر بہتا ہوا خون صاف نظر آرہا تھا۔
”قسمت ہی خراب ہے نیک بخت!“نواز نے گھوڑے کو صحن میں ایک مخصوص جگہ باندھ دیا جہاں بانسوں اور چٹائی کا چھپر بنا ہوا تھا۔بارش کا پانی چھن چھن کر گھوڑے پر گررہا تھا۔
”تانگا اسٹینڈپر میں نے تانگے میں سواری بٹھائی اور اسٹیشن لے کر چلا۔جگہ جگہ پانی بھرا ہوا تھا۔ایک جگہ گہرا گڑھا تھا، بادل گھڑے میں گرگیا۔وہ تو شکر ہے میں اور سواریاں بچ گئیں ورنہ ہم لوگوں میں سے ایک آدھ کا ہاتھ پیر ٹوٹ جاتا۔بس پتھر سے لگ کر اس کی ٹانگ میں چوٹ آگئی ہے۔“
”اللہ خیر کرے،پھر؟“انور کی ماں نے پریشانی کے عالم میں اسے دیکھا۔
”پھر کیا؟اندر چل تو بتاتا ہوں۔“دونوں کمرے میں آگئے۔انور دروازے پر ہی کھڑا تھا۔ اس نے بھی بادل کو لنگڑاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔انور بادل سے بہت محبت کرتا تھا۔وہی اس کا سب سے پکا دوست تھا۔بادل بھی انور سے بہت مانوس تھا۔
”بابا!بابا!بادل کو کیا ہوگیا؟“انور کا ننھا سا دل دھڑک رہا تھا۔
”کچھ نہیں ہوا،اور تو ابھی تک سویا نہیں؟دیکھتا نہیں کتنی رات ہوگئی ہے۔چل جاکر اپنے بستر پر لیٹ جا۔“محمد نواز نے اپنے بیٹے کو ڈانٹ دیا۔
انور خاموشی سے اپنے بستر پر لیٹ گیا اور جھوٹ موٹ آنکھیں موند لیں۔اسے چین نہیں آرہا تھا کیوں کہ شام کو واپس آکر خالی تانگا گلی میں کھڑا کر دیا جاتا تھا اور بادل کو صحن میں اس کی جگہ چھپر کے نیچے باندھ دیا جاتا تھا۔
”اب کیا ہوگا؟بادل تو زخمی ہے۔کل کیا کروگے؟“
”پہلے ہی بادل کئی دنوں سے سست ہورہا تھا اور اب وہ زخمی بھی ہوگیا ہے۔میں بھی کئی دن سے یہ سوچ رہا تھا کہ کوئی نیا تگڑا گھوڑا خریدلوں۔ملک شمسو کے پاس ایک بڑا اچھا گھوڑا ہے۔کل میں جاکر اس سے بات کرتا ہوں۔بادل کوبیچ دوں گا۔اپنے پاس اتنے پیسے توجمع ہیں کہ نیا گھوڑا خرید سکیں۔“محمد نواز نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
”مگر بادل کا علاج بھی تو ہوسکتا ہے۔“انور کی ماں نے کہنا چاہا۔
”اب کون اس بے کار جانور کا علاج کراتا پھرے۔“ محمد نواز نے منہ بنا کر نوالہ چباتے ہوئے کہا۔
”بلا وجہ پیسے بھی لگاؤ، ٹائم الگ برباد ہوگا اور پھر فائدہ کچھ بھی نہیں۔ایسے کام میں ہاتھ ڈالنا فضول ہے۔“
”پھر تم کل ملک شمسو سے نیا گھوڑا خریدوگے؟“ انور کی ماں نے پوچھا۔
”اور کیا؟“محمد نواز نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پانی پی کر بولا۔
”بادل کو اونے پونے بیچ دوں گا۔“
”مگر یہ تو سوچو کہ بادل نے کتنے برس ہمارا ساتھ دیا ہے۔اسی سے تم نے گھر کا خرچ چلایا ہے، اسی سے وہ پیسے جمع کیے ہیں۔“انور کی ماں نے ڈرتے ڈرتے اسے سمجھانا چاہا۔
محمد نواز بھڑک اُٹھا:
”تو تیرا کیاخیال ہے، میں اسے سینے سے لگائے رکھوں؟اس لنگڑے گھوڑے کو بیٹھے بٹھائے چار ا دیتا رہوں؟بات کرتی ہے فضول میں۔“
انور کی ماں خاموش ہوگئی اور برتن سمیٹنے لگی۔
بستر پر لیٹے ہوئے انور سب سن رہا تھا۔اس کے دوست کو بیچ دیا جائے گا۔اس کا بادل اس سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے گا۔انور کی بند آنکھوں کے گوشوں سے آنسو چھلک پڑا۔وہ چپکے چپکے روتا رہا۔ اس کے بابا او رماں سوگئے۔
انور کو نیند نہیں آرہی تھی۔بارش مسلسل ہورہی تھی۔انور نے لحاف ہٹا کر بابا کی طرف دیکھا، وہ بے خبر خراٹے لے رہا تھا۔ماں بھی سورہی تھی۔انور نے بستر سے اُتر کر پیر میں چپلیں پہنیں اور دبے قدموں صحن میں آگیا۔بارش کی بوندوں نے اسے گیلا کر دیا۔ سردی کے مارے انور کے دانت کٹکٹانے لگے تھے۔ اس نے اپنے دوست بادل کو دیکھا، بادل بھی اُسے دیکھ کر دھیرے دھیرے ہنہنانے لگا تھا۔وہ بھاگم بھاگ بادل کے پاس پہنچ گیا۔
”بادل میرے دوست!“انور اس کی جھکی ہوئی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
”تم جانتے ہو، بابا تم کو کل بیچ کر نیا گھوڑا خریدلیں گے۔میں اس نئے گھوڑے سے دوستی نہیں کروں گا۔بس تم ہی میرے اچھے دوست ہو۔بادل تم مجھ سے دوستی تو نہیں چھوڑو گے نا؟وعدہ کرو……پکا وعدہ۔“
ایسا لگا بادل نے اس کی بات سمجھ لی ہے، وہ کچھ اُداس سا ہوگیا تھا۔
”وعدہ کرو بادل!“انور اس سے کہہ رہا تھا۔
بادل نے ہنہنا کر سرہلایا جیسے کہہ رہا ہو:
”ٹھیک ہے پکا وعدہ۔“
انور جھک کر اُس کی زخمی ٹانگ دیکھنے لگا۔کپڑا خون میں ترہوگیا تھا او رخون ٹانگ سے بہہ کر زمین پر جمع ہورہا تھا۔
”بادل!تم فکر مت کرو۔میں ابھی آیا۔“انور بھاگم بھاگ دوسرے کمرے میں گیا اور وہاں سے ایک پرانا مگر بڑا کپڑا صندوق سے نکال لایا۔وہ کپڑا بھی انور نے بادل کے زخمی پیر پر لپیٹ دیا۔انور بادل سے سرگوشیوں میں باتیں کر رہا تھا۔ بادل بھی کبھی کبھی ہنہنا کر جواب دیتا۔ چھپر سے چھن کر آنے والی بارش کے پانی نے انور کو بھی پورا گیلا کر دیا تھا۔
”انو……اے انو……“انور کو ماں کی دھیمی آواز سنائی دی۔وہ تیزی سے پلٹا، کمرے کے دروازے پر ماں کھڑی اسے بلا رہی تھی۔انور نے چونک کر اپنے کپڑے دیکھے، وہ گیلے ہو رہے تھے۔
”چل ادھر آجا جلدی۔دیکھ سارا بھیگ گیا ہے۔“ماں نے ہاتھ ہلا کر پکارا۔انور نے بادل کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور سرگوشی کی:
”اچھا بادل!ماں بلارہی ہے، میں چلتا ہوں۔ڈرنا نہیں،میں ہوں نا تمھارے ساتھ۔کوئی بات یاد رد ہوتو آواز دے لینا۔ٹھیک ہے!آرہا ہوں ماں!“انور تیزی سے ماں کے پاس پہنچ گیا۔
”تیرے باپ نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔دیکھ سردی سے کیسا کانپ رہا ہے۔“اس کی ماں فکر مند ہو کر بولی:
”میں یہاں کھڑی ہوں، جلدی سے جاکر دوسرے کمرے میں کپڑے بدل کر آجا۔“
انور نے دوسرے کمرے میں جاکر کپڑے بدلے اور پھر اپنے بستر پر آکر لیٹ گیا۔اگلے روز محمد نواز ناشتا کر کے باہر چلا گیا۔وہ ملک شمسو سے نیا گھوڑا خریدنے اور بادل کا سودا کرنے گیا تھا۔بادل آج بہت اُداس تھا۔گویا اُسے بھی احساس ہوگیا تھا کہ وہ جلد ہی اس گھر سے رخصت ہوجائے گا اور انور سے بھی اس کی دوستی چھوٹ جائے گی۔
موسم بدستور ویسا ہی تھا۔البتہ بارش میں کمی ہوگئی تھی۔صبح سے ہی ہلکی ہلکی بوندیں پڑ رہی تھیں۔ رات بارش میں بھیگنے کی وجہ سے انور کو بخار ہوگیا تھا۔ اس کی ماں بہت پریشان ہورہی تھی۔ وہ کئی گھریلو ٹوٹکے اس پر آزما چکی تھی، لیکن ان ٹوٹکوں نے کوئی اثر نہیں کیا اور بخار میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔محمد نواز کا کوئی پتا نہیں تھا۔ماں سارا دن انور کے پاس بیٹھی رہی۔انور ضد کر کے کئی مرتبہ بادل کے پاس جاچکا تھا۔بادل نے انور کو کم زور او رنڈھال دیکھا تو بے چین سا ہوگیا۔شام ہوگئی، مگر محمد نواز اب تک واپس نہیں آیا تھا۔
قصبہ پھر ویران ہوگیا تھا۔
رات ہوتے ہی موسم پچھلی رات جیسا ہوگیا۔ بارش پھر تیز ہوگئی۔انور کا بخار بڑھتا چلا جارہا تھا۔اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ نیندمیں بڑبڑا رہا تھا۔ایک ہی دن میں اس کا گلاب ساچہرہ سوکھ کررہ گیا تھا۔
”کاش! میں انور کو قصبے کے حکیم صاحب کے پاس لے جاتی۔بلا وجہ ٹوٹکوں میں سارا وقت ضائع کردیا۔ہائے میرے اللہ! اب کیا ہوگا۔مالک! میرے بچے کو جلدی ٹھیک کر دے۔ میرے چاند کا بخاراُتر جائے۔“ماں اپنے بچے کے لیے دعائیں کرتی رہی۔
صحن میں بادل کے ہنہنانے کی آواز آرہی تھیں۔ وہ بھی بے قرار ہو رہا تھا۔
اتنے میں گلی کی کنڈی بجی۔انور کی ماں نے جاکر دروازہ کھولا۔محمد نواز کمرے میں آگیا۔وہ تھکن کا شکار تھا۔اس کے چہرے سے دن بھر کی بے زاری اور مایوسی ٹپک رہی تھی۔
وہ کمرے میں آکر خود ہی بولا:
”سارا دن ملک شمسو کے ٹھکانے پر انتظار کرتا رہا،پروہ ملا ہی نہیں۔ شہر گیا ہوا تھا کام سے۔ اب کل پھر جاؤں گا۔“
اچانک انور غنودگی کے عالم میں بڑبڑایا:
”بادل! تم جارہے ہو، مت جاؤ۔دیکھو مت جاؤ۔بابا!بادل کو مت بیچو، یہ میرا دوست ہے بابا۔“
محمد نواز کی حالت دیکھی تو پریشان ہوگیا۔فوراً اس کے پاس آگیا۔
”اُف!اسے تو بہت تیز بخار ہورہا ہے۔کیا کرلیا اس نے؟بخار کیسے ہوگیا؟اچھا خاصا تو چھوڑ کر گیا تھا میں۔“
اس کی بیوی نے کہا:
”خود بخود ہوگیا۔بس نیند میں بادل بادل کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔“
”حکیم صاحب کے پاس لے گئی تھی اسے؟“ محمد نواز نے انور کے ماتھے پر ہتھیلی رکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔“اس کی بیوی ڈرتے ڈرتے بولی۔
”میں نے۔“
محمد نواز اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا:
”گھر یلو ٹوٹکے آزمائے ہوں گے، جانتا ہوں،جانتا ہوں تیرے ان بے کار ٹوٹکوں کو…بچہ بخار میں بھن رہا ہے اور تجھے ٹوٹکوں کی پڑی ہے۔میں جارہا ہوں حکیم جی کے گھر دوا لینے۔“
محمد نواز برساتی اوڑھ کر باہر نکل گیا۔جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا، انور کی حالت خراب ہوتی چلی جارہی تھی۔آدھے گھنٹے بعد محمد نواز واپس آگیا۔ پریشانی کے مارے خود محمد نواز کی حالت خراب ہورہی تھی۔
”کیا ہوا؟دوائی لائے؟“انور کی ماں تیزی سے اس کی طرف لپکی۔
”حکیم جی کے گھر تالا لگا ہوا ہے۔نہ جانے وہ کہاں گئے ہوئے ہیں۔“محمد نواز نے تھکے ہوئے انداز میں کہا اور انور کی چارپائی پر بیٹھ گیا او ربے بسی سے اپنے بچے کو دیکھنے لگا۔
”ساتھ والے گاؤں چلے جاؤ۔وہاں بھی کئی حکیم ہیں۔کوئی نہ کوئی تو مل ہی جائے گا۔“
انور کی ماں روہانسی ہوگئی تھی۔اس سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں ہورہی تھی۔
”مگر جاؤں کیسے نیک بخت!پیدل جاؤں تو آنے میں صبح ہوجائے گی اور پھر راستہ الگ خراب ہے۔“محمد نواز نے سرجھکا لیا۔
اسی لمحے بادل زور سے ہنہنایا اور مسلسل ہنہنانے لگا۔
”بادل!“محمد نواز چونکا، وہ اُٹھ کر دروازے پر آیا اور بادل کو دیکھنے لگا۔بادل نے بھی شاید اسے دیکھ لیا تھا۔وہ زور زور سے اچھلنے لگا۔اپنے زخمی پیر کو زمین پر مار رہا تھا۔شاید یہ بتا رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے۔وہ اپنے دوست کی خاطر ہر تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے۔
محمد نواز بادل کے پاس آیا اور اس کے لمبے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔
”بادل!تیرا دوست زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔بادل!تیری دوستی کا امتحان ہے، مجھے اس کی دوائی لینی ہے، مجھے لے چل بادل۔لے چل۔“
بادل نے منہ اُٹھاکر عجیب سی آواز نکالی، گویا وہ تیار تھا۔
محمد نواز نے بادل پر زین ڈالی او رپھر بادل برق رفتاری کے ساتھ برابروالے گاؤں کی طرف دوڑنے لگا۔راستہ خراب تھا۔چھوٹے بڑے کھڈے تھے اور ان کھڈوں میں بارش کا پانی جمع ہوگیا تھا۔پھر اندھیرا بھی بہت زیادہ تھا۔محمد نواز اللہ پر بھروسا کیے ہوئے تھا۔ بادل کے پیروں میں بجلی بھر گئی تھی۔ایسا لگتا تھا وہ زخمی ہی نہیں ہوا۔محمد نواز کو بھی اس کی رفتار پر حیرت ہورہی تھی۔آخر وہ دوسرے گاؤں میں ایک حکیم کے گھر کے آگے آکر رک گیا۔محمد نواز نے آگے بڑھ کر مکان کا دروازہ کھٹ کھٹایا۔خوش قسمتی سے حکیم صاحب نے دروازہ کھولا۔
محمد نواز نے جلدی جلدی اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔حکیم صاحب نے غور سے سنا، پھر اُسے اور بادل کو اپنے چھپر کے نیچے کھڑا کر کے اندر سے بخار کی دوا لا دی۔محمد نواز نے شکریہ ادا کیا۔ اسے اب گھر واپس جانے کی جلدی تھی۔اس نے حکیم صاحب کو پیسے دیے اور بادل پر سوار ہو گیا۔ اب بادل واپس تیزی سے دوڑرہا تھا۔
گھر آنے کے بعد محمد نواز نے انور کو دوا پلادی۔ بادل کو اس کی جگہ باندھ دیا تھا۔دو گھنٹے کے بعد ہی انور کا بخار اُترنے لگا۔محمد نواز اور اس کی بیوی اپنے بیٹے کے پاس بیٹھے رہے۔یوں ہی صبح ہوگئی۔صبح تک انور کا بخار اُتر گیا تھا۔تب اس نے آنکھ کھولی۔
محمد نواز اور اس کی بیوی کے چہروں پر خوشی کی لہریں دوڑ گئیں۔دونوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
”ماں!“انور نے باری باری انھیں دیکھا۔”بادل کہاں ہے؟بابا تم نے اسے بیچ دیا ہے نا؟“
”بادل!“اچانک محمد نواز کو اس کا خیال آیا۔ تیزی سے صحن میں آیا،اس نے بادل کو دیکھا۔ بادل لیٹا ہوا تھا، اس کے گردن خون جمع تھاجس میں بارش کا پانی مل گیا تھا۔بارش کے پانی نے خون کو پھیلا دیا تھا۔ بادل کی ٹانگ کا زخم کل رات تیز بھاگنے کی وجہ سے بہت بڑھ گیا تھا اور خون رات سے ہی مسلسل بہہ رہا تھا۔ بادل کی آنکھیں بند تھیں۔محمد نواز کی آنکھیں بھر آئیں۔وہ زور زور سے بادل کو پکارتا ہوا اس کی طرف بڑھا، وہ بادل کو جھنجھوڑ نے لگا۔
”بادل…بادل! آنکھیں کھولو!بادل دیکھو تمھارا دوست ٹھیک ہوگیا ہے۔یا اللہ! مجھے معاف کردے۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوگئی، میں نے اس بے زبان کو پہچاننے میں دیر کی۔“
محمد نواز روتا رہا۔اس کی آواز سن کر انور اور اس کی ماں بھی وہاں آگئے۔انور بادل کو دیکھ کر رونے لگا۔وہ اس کے منہ پر ہاتھ پھیر تا ہوا بول رہا تھا:
”بادل……دیکھو……میں تمھارا دوست…… انور……آنکھیں کھولو۔بادل اُٹھ جاؤ!دیکھو میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔میں نے دواپی لی ہے۔اگر تم نے آنکھیں نہیں کھولیں تو میں دوبارہ بیمار ہوجاؤں گا اور تم سے بات بھی نہیں کروں گا۔“
اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوئی اور بادل نے آنکھیں کھول کر سر اُٹھایا۔انور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر رورہا تھا۔محمد نواز اور اس کی بیوی بادل کو ٹھیک دیکھ کر ایک دم خوش ہوگئے۔بادل نے اپنا منہ انور کے کان کے قریب کیا اور دھیمی آواز میں ہنہنایا۔
انور نے جلدی سے آنکھ اُٹھا کر دیکھا اور بادل کو ٹھیک دیکھ کر اس کے منہ سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔
”بادل!“وہ خوشی سے بے قابو ہوکر بادل کے گلے لگ گیا۔
”بادل!مجھے چھوڑ کر مت جانا۔تم میرے سب سے پکے دوست ہو۔نہیں جاؤ گے نا؟وعدہ کرو۔“
”وعدہ“محمدنواز نے بیٹھ کر انور کو گلے لیا اور بادل کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
”میں بھی وعدہ کرتا ہوں کہ تمھارا دوست کہیں نہیں جائے گا اور میں اس کا علاج بھی کراؤں گا۔تمھارا دوست تو بہت اچھا ہے، اس نے اپنی دوستی خوب نبھائی ہے۔“
”بابا!“انور باپ سے چمٹ گیا۔
انور کی ماں کی آنکھوں میں بھی خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں