63

وبا کی بلا ___ حسن اختر

صبح کا وقت تھا۔ ساہی نیند سے بیدار ہو کر ریسٹ ہاؤس کی بالکونی میں بیٹھی اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے پہرے پر مامور تھی۔ پہرہ داری کے ساتھ ساتھ وہ صبح کے سہانے موسم سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے آہٹ سنی تو مڑ کر دیکھا۔ خوف کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔ بڑے بڑے دانتوں والا دیو ہیکل کوموڈو ڈریگن اس کے مقابل کھڑا تھا۔ ڈریگن نے ساہی کو خوف زدہ ہوتے دیکھا تو پیچھے ہٹ گیا۔ وہ کسی سدھارے ہوئے جانور کی طرح اپنا منہ زمین پر مار رہا تھا اور برابر دُم ہلا رہا تھا۔
وبا کی بلا سے محفوظ رہنے کے لیے جزیرے کے ریسٹ ہاؤس میں کورنٹائن ہونے والا خاندان ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ یہ لوگ چھوٹے سے جزیرے کی زمین پر واحد ریسٹ ہاؤس کے عارضی مکین تھے۔ ویران جزیرے میں چار افراد کے اس کنبے کے علاوہ چار ممبران پر مشتمل ایک ڈریگن فیملی آباد تھی۔ جو ریسٹ ہاؤس کے مقابل ایک ٹیلے کے اندر غار نما بل میں رہتی تھی۔ اتفاق سے دونوں خاندانوں کے ممبران کی تعداد اور ترتیب بھی ایک جیسی تھی۔
ڈریگن ساہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے یقین دلا رہا تھا کہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ ساہی کی چیخ سن کر گھر کے سب افراد باہر نکل آئے تھے۔ لان کا منظر دیکھ کر سب خوف زدہ ہو گئے تھے۔ ڈریگن مزید پیچھے ہٹا تو ساہی کو اپنی جگہ چھوڑنے کا موقع مل گیا۔ وہ جلدی سے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔
دونوں خاندانوں میں دُشمنی کا آغاز ساہی اور اس کے بھائی عاریف کے ڈریگنز کا پیچھا کرنے سے ہوا تھا۔ تب سے ان لوگوں کا سکون برباد تھا۔ بپھرے ہوئے کوموڈو ڈریگنز ان کے جانی دشمن بن گئے تھے۔ اپنی حفاظت کے لیے انسانی فیملی آتشیں اسلحہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ دو دن پہلے جب ڈریگنز نے ریسٹ ہاؤس کے دروازے پر ان لوگوں کو مارنے کے لیے ہلہ بولا تھا۔ ساہی کے باپ سوہارتو کی فائرنگ سے ڈریگنز پسپا ہوئے تھے۔ ایک گولی نوجوان ڈریگن کی دم پر لگ گئی تو باقی ڈریگنز اس کو اٹھا کر بل کی طرف لے گئے تھے۔
بہنے والے تازہ خون کا ٹیسٹ ساہی کی ریسرچ میں ایک اہم اور بنیادی پیش رفت ثابت ہوا تھا۔ اس کے اندر ایسے پروٹینز تھے جو اینٹی وائرس کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اب ڈریگنز کی طرف سے مزید کسی حملے کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔ تب سے یہ لوگ باری باری مسلسل پہرہ دے کر اپنی حفاظت کو یقینی بنائے ہوئے تھے۔ ڈریگن فیملی کے سربراہ کا یوں اچانک آنا اور دُم ہلانا انسانی خاندان کی سمجھ سے باہر تھا۔ سب ہکا بکا کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
ساہی کا باپ سوہارتو معاملے کو بھانپ گیا تھا۔ وہ جلدی سے باورچی خانے میں گیا اور ایک بڑی سی مچھلی جو ایک دن پہلے سمندر سے شکار کی تھی ڈریگن کی طرف اچھال دی۔ اگلے ہی لمحے ڈریگن نے مچھلی کو ناشتا بنایا اور لان پر لیٹے آنکھیں بند کر لیں۔ اس نے اپنا منہ کھول لیا تھا۔ عاریف اور ساہی نے فٹا فٹ حفاظتی لباس پہن ہاتھوں پر دستانے چڑھائے، منہ کو ماسک سے ڈھانپا اور کوموڈو ڈریگن کے کھلے منہ سے زہریلے مادے پیٹری ڈش میں منتقل کر دیے۔ اس کے بعد ڈریگن رینگتا ہوا اپنی غار کی طرف چلا گیا۔
٭
ریسٹ ہاؤس میں آئے ساہی کی فیملی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ جس کی وجہ دنیا بھر میں چھایا ہوا خوف و ہراس تھا۔ زیادہ تر ممالک خطرناک وبا کی لپیٹ میں تھے۔ لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ سماجی فاصلے اور میل جول میں وقفے اور سفری پابندیاں لاگو کر دی گئی تھیں۔ کورونا وبا نے لوگوں کو تنہا کر دیا تھا۔ بہت سے لوگوں نے آبادیوں اور شہروں سے نکل کر ویران علاقوں کو مسکن بنا لیا تھا۔ اس سے پہلے یہ مناظر فلموں میں دکھائی دیتے تھے جو اب حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔
ساہی کے خاندان کا شمار بھی ایسے ہی خاندانوں میں ہوتا تھا۔ وہ جکارتہ کے ایک میڈیکل کالج کی طالبہ تھی۔ ساہی کے ساتھ یہ خاندان چار افراد پر مشتمل تھا، جن میں ساہی کا بھائی عاریف اس کا باپ سوہارتو اور ماں جاسمین شامل تھی۔ اس خاندان نے قرنطینہ کے لیے ایک جزیرے کے محل نما ریسٹ ہاؤس کا انتخاب کیا تھا۔ ساہی اور اس کے گھر والوں نے جزیرے میں ابتدائی چند روز تو ہنسی خوشی گزارے پھر آہستہ آہستہ بوریت شروع ہو گئی۔ اس سے بچنے کے لیے ساہی اور اس کا بھائی عاریف جزیرے پر گھومنے کی غرض سے نکل جاتے اور خوب تھک کر واپس آتے تھے۔ اس چھوٹے سے جزیرے پر آباد یہ واحد انسانی خاندان تھا۔
ریسٹ ہاوس کے مقابل ایک ٹیلا تھا جہاں درختوں کا جُھنڈ تھا۔ اس جُھنڈ میں ڈریگن فیملی رہتی تھی۔ ساخت کے لحاظ سے یہ کوموڈو ڈریگن تھے جو بہت زہریلے اور خون خوار تھے۔ ریسٹ ہاؤس میں انسانی خاندان کی رہائش اور جزیرے کی زمین پر ان کی چہل قدمی اس ڈریگن خاندان کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
پہلے دن جب کوموڈو ڈریگن جوڑے کے بچے والدین سے انسانوں کے متعلق سوالات کر رہے تھے تو مادہ ڈریگن نے بچوں کو بتایا تھا کہ انسان خطرناک مخلوق ہے۔ دنیا کی سب سے چالاک اور عقل مند مخلوق ہے۔ آج کل ان کو ایک خطرناک مرض لاحق ہے، تم لوگوں نے ان سے دور ہی رہنا ہے۔ ماں کے خبردار کرنے کے باوجود دونوں بچے مطمئن نہ ہوئے۔ پتا نہیں کیوں وہ انسانوں سے دوستی کے خواہش مند تھے۔ اس دوران کئی بار ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوا۔
ادھر ساہی اور عاریف نے بوریت کا شکار ہونے کی نسبت کوئی مثبت سرگرمی کرنے کو ترجیح دی۔ وہ وقت کا درست استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے کورونا کی ویکسین کے پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا۔ انہیں ایسے طاقت ور زہریلے مادے اور پروٹین درکار تھے جو اینٹی وائرس اور بیکٹیریا کا کام کر سکیں۔ ساہی اور عاریف نے اس مقصد کے لیے تحقیق شروع کر دی۔
ایک دن چہل قدمی کے دوران انہوں نے ڈریگن فیملی کو دیکھا تو ساہی خوشی سے اچھل پڑی۔ عاریف حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر اس کو دیکھنے لگا تو ساہی نے بتایا کہ کیوں نہ ان ڈریگنز کے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کیے جائیں، اینٹی وائرس ویکسین تیار کرنے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔ ڈریگنز کی نظر ان پر پڑی تو وہ ڈر کے مارے جلدی سے غار نما بل میں گھس گئے۔
عاریف نے آمادگی کا اظہار کیا مگر خون خوار ڈریگن بھلا اتنی آسانی سے ہاتھ آنے والے تھے۔ وہ دیر تک بِل کے باہر کھڑے انتظار کرتے رہے مگر ڈریگنز کو بل سے نہ نکلنا تھا سو نہ نکلے اور بہن بھائی نے تھک ہار کر ریسٹ ہاؤس کی راہ لی۔
”میں نہ کہتی تھی کہ انسان بہت خطرناک مخلوق ہیں۔ مجھے تو پہلے دن سے یہ لوگ مشکوک دکھائی دیے تھے۔ معلوم نہیں اب ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟“
ساہی اور عاریف کے جانے کے بعد مادہ ڈریگن نے ان الفاظ میں خاندان کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد ڈریگننز نے ریسٹ ہاؤس پر بھرپور حملہ کیا مگر سوہارتو کی بروقت فائرنگ نے اس حملے کو پسپا کر دیا۔
اپنی اپنی جگہ پر دونوں خاندان اس دشمنی سے خوف زدہ تھے۔ بالآخر کوموڈو ڈریگن فیملی کے سربراہ نے بڑھتی ہوئی اس دشمنی کو ختم کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے اسی لیے صبح سویرے ریسٹ کیمپ میں جانے کا ارادہ کیا تھا۔
”ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ ہماری زندگی کو نقصان نہ پہنچائیں۔“
نر ڈریگن نے کہا۔ دونوں بچے سوالیہ نظروں سے باپ کی طرف دیکھنے لگے۔
”میں تمہارا مطلب سمجھ رہی ہوں مگر ہماری اور بچوں کی زندگیوں کو نقصان نہ پہنچانے کی ضمانت کون دے گا؟“
مادہ ڈریگن نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
”دونوں فریقین کا فائدہ اسی میں ہے کہ یہ معاملہ لے دے کے اصول پر حل ہو۔“
نر ڈریگن نے کہا۔
”ذرا وضاحت کرو گے؟“
مادہ نے پوچھا۔
ڈریگن بولا:
”بھئی سیدھی سی بات ہے، وہ لوگ ہماری خوراک کا انتظام کریں، ہم رضا کارانہ طور پر خون اور جراثیم کش مادے دینے پر راضی ہو جائیں گے۔“
مادہ اور بچے نر ڈریگن کی اس بات پر آمادہ ہو گئے۔ ڈریگن نے یہ فیصلہ اپنی نسل کی بقا کی خاطر کیا تھا۔ وہ اپنے خاندان سے بہت محبت کرتا تھا اور جانی نقصان کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔
٭
ادھر ساہی، عاریف اور اس کے والدین نے رات سونے سے پہلے اس معاملے پر بات چیت کرتے ہوئے یہ حل نکالا تھا کہ ڈریگنز سے مطلوب خون کے نمونے اور پروٹین حاصل کرنے سے پہلے ان کو سدھارا جائے۔ اگلی صبح نر ڈریگن کی ریسٹ ہاؤس میں اچانک آمد اور زہریلے مادوں کی دستیابی سے دونوں خاندانوں کی دشمنی دوستی میں بدل چکی تھی۔
ساہی نے اپنی لیب میں کوموڈو ڈریگن کے منہ کے اندر سے حاصل ہونے والے زہریلے مواد کی پیٹری ڈش پر تجربہ کیا تو حاصل ہونے والے مادوں نے ایسے طاقت ور جراثیم کو ہلاک کر دیا جن پر کئی اینٹی بائیوٹک ادویات سے بھی کچھ اثر نہیں پڑا تھا۔ تحقیق میں ثابت ہوا کہ ڈریگن کو ہروقت خطرناک جراثیم کا سامنا رہتا ہے اور اس منہ کے اندر موجود زہریلے مادوں سے یہ جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ساہی نے ان نمونوں کو سائنٹفک طریقے سے محفوظ کر کے ملک کے بڑے سائنس دانوں کی ٹیم کو بھیج دیا۔ اس کے والدین اس کی کامیابی کے لیے پرامید تھے۔ اب ساہی، عاریف اور اس کے ماں باپ روزانہ مچھلیاں اور گوشت لے کر ڈریگنز کے بل کے باہر جاتے تھے۔
ایک دن قرنطینہ ختم ہو گیا۔ ساہی کا خاندان واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہا تھا اور ڈریگنز کا خاندان اُداس تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں