127

پروفیسر شمیم احمد…افسانہ

تحریر:کشف بلوچ

”میں نے آج تک پروفیسر شمیم احمد جیسا آدمی نہیں دیکھا۔“
جھنجھلاہٹ میں ڈوبی آواز سن کر میں نے حیرت سے آنکھیں سکیڑ کر ان حضرت کی طرف دیکھا جو شیلف کے دائیں جانب سٹول پر بیٹھے اپنا چشمہ صاف کررہے تھے۔
اونچے لمبے بڑے ڈیل ڈول والے آدمی ماتھے سے لے کر تالو تک کا حصہ بالوں سے پاک اور ایسا شفاف اور لشکارے مارتا کہ سٹور کی چھت پر لگے آرائشی بلب اور رنگ برنگی روشنیاں تک اس میں صاف نظر آ رہی تھیں۔سر کے آخری حصے پر سلکی بالوں کی جھالر جو بڑے سکون سے گردن پر محو استراحت تھی،اور شاید اس بات کی گواہ بھی کہ یہ اجڑی کھیتی کبھی ہری بھری ہوا کرتی تھی۔ ذہانت سے بھرپور آنکھیں جو اس بات کی غماز تھیں کہ بندہ یقینا دور اندیش اور زمانہ شناس تھا،مگر ماتھے پر شکنوں کا جال بتاتا تھا کہ خوب غصے والے بھی ہوں گے۔ناک کی جڑ سے شروع ہوتی ٹیڑھی ہڈی جو نوک تک آتے آتے خود بخود ہموار ہو جاتی تھی۔اس کے بعد لمبی گردن،سفید رنگت،چوڑی چھاتی اور لمبے لمبے ہاتھ پیر۔
مصروفیت کے باوجود میں نے ان صاحب کا بغور جائزہ لے لیا، اور پھر اندر آتے ملازم کو انگوٹھے کے اشارے سے گودام کا راستہ دکھایا جو کندھوں پر بڑا سا باکس اٹھائے ہوئے تھا۔پھر میں ان سے مخاطب ہوا جو خالص پروفیسری انداز میں چشمہ ناک کی پھننگ پر دھرے اس کی اوٹ سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
”معذرت خواہ ہوں انکل! اصل میں سٹور کے لیے نیا مال لاہور سے منگوایا ہے۔اس لیے آپ کو کچھ دیر انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے گی،فارغ ہو کر آپ کی مطلوبہ چیز نکال دیتا ہوں۔“میں نے کاؤنٹر پر رکھی چیزیں عجلت میں ہٹاتے ہوئے متانت سے کہا۔
”ارے نہیں میاں! مجھے بھی کوئی خاص جلدی نہیں ہے۔“انہوں نے ہاتھ جھلا کر کہا اور سٹول پر مزید پھیل کر بیٹھ گئے۔
اس دوران میں شیلف کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ کر لیپ ٹاپ میں آنے والے مال کا حساب کتاب درج کرنے لگا۔
”یہ سٹور تو حاجی صاحب کا ہے نا؟“
کچھ دیر ماحول میں مزدوروں کی اٹخ پٹخ کے سوا خاموشی ہی رہی اور پھر چند ثانیے بعد ہی وہ گویا ہوئے۔ لہجہ یقین سے معمور مگر تجسس سے بھرپور تھا۔
”جی میں ان کا بیٹا ہوں۔ان کو کچھ ضروری کام تھا،آتے ہی ہوں گے۔“میں نے سر اٹھا کر متبسم لہجے میں کہا۔
”اچھا تو آپ شمیم احمد کے بارے میں بتا رہے تھے۔“کچھ توقف کے بعد لیپ ٹاپ پر سیو کا بٹن دباتے ہوئے میں نے ایک اچٹتی نگاہ ان پر ڈالی تو انہیں دور خلاؤں میں تکتا پاکر یونہی سرسری انداز میں پوچھ لیا۔
وہ چونک کر حال میں واپس آئے اور گہرا ہنکارا بھرا، اور مجھے یوں دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں اچھا تو تمہیں خیال آ ہی گیا۔
”ہاں…ہاں میں یہی بتا رہا تھا کہ میں نے آج تک شمیم احمد جیسا آدمی نہیں دیکھا۔یقین مانو میاں مجھے تو ایسے آدمی کا ذکر تو دور شکل دیکھنا تک گوارہ نہیں۔“انہوں نے برا سا منہ بنا کر کہا جیسے شمیم احمد کے ذکر پر حلق تک کڑوا ہوگیا ہو۔
”ایسا کیسے ہو سکتا ہے انکل! ہر آدمی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی آدمی میں صرف برائیاں ہی ہوں۔“
ان کی بات پر بٹن دباتا میرا ہاتھ لحظہ بھر کے لیے رکا۔میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھ کر کہا اور پھر نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر جما دیں۔
”تم نے صحیح کہا میاں مگر شمیم احمد کے بارے میں،میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس آدمی کے جثے میں فقط خامیاں ہی بھری ہوں گی۔“
”وہ کیسے بھلا؟“میں نے بھنویں اچکا کر ان کی طرف دیکھا۔
”ارے میاں! شمیم احمد پیدائشی پروفیسر تھا۔گیان میں ڈوبے دانشور کے پوز میں گھنٹوں دیواروں کو گھورتا رہتا۔غالباََ یہی رجحان دیکھ کر اس کے والد شمیم احمد کا مستقبل جان گئے۔“
ان کی بات سن کر میں نے اچنبھے سے دیکھا۔
”اچھا تو آپ کو کیا اختلاف ہے بے چارے شمیم احمد سے؟“میں نے مسکرا کر کہا تو ان کے ماتھے کے بل میں اضافہ ہوگیا اور وہ جھلا کر بولے:
”ارے میاں کوئی ایسا ہے ہی نہیں کہ جسے شمیم احمد سے اختلاف نہ ہو۔“انہوں نے سخت لہجے میں یوں کہا کہ مجھے لگا اگر شمیم احمد ان کے سامنے ہوتے تو شاید وہ یہ کہتے ہی ان کا گریبان تک پکڑ لیتے۔
”مثلاً…“ میں نے اندر آتے مزدور کے ہاتھ میں نان خطائی والے پیکٹ دیکھ کر اسے ہاتھ کے اشارے سے میز پر رکھنے کا کہا اور ان صاحب کو مختصر جواب دینے پر اکتفا کیا۔
”سیانے کہتے ہیں آدمی باہر کی دنیا کے لیے ہیرے سا جگمگاتا کیوں نہ ہو اگر اس سے گھر والے نا خوش ہوں تو سمجھ لو نرا کوئلہ ہے۔“
میں نے مصروفیت کے باوجود دل ہی دل میں انہیں داد دے ڈالی۔
”جس نے ان کے ساتھ دو کپڑوں میں اپنی ساری زندگی بسر کردی،وہ اس سلیقہ شعار شریک ِحیات کو پیتل کی بالیاں بنوا کر نہ دے سکا تو کیا فائدہ ایسی پروفیسری کا!“ وہ مضمحل لہجے میں بولے۔
”ان کے ساتھ کے بہتیرے پروفیسر اپنی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور وہ اب بھی اَسی کی دہائی کے سکوٹر کو اپنی ٹانگوں سے گھسیٹتا پھر رہا ہے۔“انہوں نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا۔
”ایسا ظالم باپ کہ اپنے بچوں کے بچپن تک کو کھا گیا۔بچے کھلونے مانگتے تو وہ سنہرے خوابوں میں لپٹے آنے والے دنوں کی آس کی پھیکی ٹافیاں ان کے ننھے ہاتھوں میں تھما دیتا۔ارے سیدھا بتا دیتا انہیں کہ بچو! ابھی صبر میں جھلسے ہوئے دن ہیں۔پڑھو، دن رات محنت کرو اور خود کما کر بچپن کی محرومیوں کا خلا پر کردینا۔مگر نہیں اول درجے کا منافق تھا شمیم احمد۔انہیں بھوک میں چاکلیٹ اور دودھ سے بنے ونڈر لینڈ کی کہانیاں سنا کر بھوکا سلا دیتا۔“
میں حیرت سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔میرے دل میں کہیں کہیں شمیم احمد کے لیے نفرت جنم لے رہی تھی۔
”اپنی خامیوں پر ذہانت کی چادر چڑھا کر بچوں کو بے وقوف بناتا رہا۔بڑے کے جوتے چھوٹے کو پہنا دیتا اور اپنے جوتوں میں روئی ٹھونس کر بڑے کو بہلا دیتا۔بچیوں کی یونیفارم کو بچت کی خاطر اتنا لمبا سلواتا کہ وہ سنبھالتے سنبھالتے ہلکان ہوجاتیں۔لمبی یونیفارم پہنا پہنا کر ان کا بچپن چھوٹا کردیا اس عیار شمیم احمد نے۔بچیاں لمبی قمیضوں کی خفت سے بچنے کے لیے وقت سے پہلے ہی لمبی ہوگئیں۔“انہوں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔
”مگر قسم لے لو جو شمیم احمد اپنی عیاری سے باز آیا ہو۔“وہ طنزیہ ہنسی ہنسے۔مگر میں چاہ کر بھی ان کا ساتھ نہیں دے پایا اور وہ خود ہی دیر تک ہنستے ہی رہے۔
کونے میں قالین پر پھسکڑا مارے مزدور ٹھنڈی بوتل پیتے ہوئے حیرت سے اس سنکی بوڑھے کو دیکھ رہے تھے۔
”اس نے پیتل کی بالیوں میں اپنی بیٹیوں کو اگلے گھروں کو وداع کردیا اور خالی ہاتھ آنے پر سسرال بھر سے ملنے والے طعنوں سے ان کا جگر چھلنی ہوتا رہا اور جب بیٹے اور بہوئیں شمیم احمد کے لتے لیتے تو وہ چیخ کر کہتا کہنہیں بھیجا میں نے انہیں خالی ہاتھ،میری بیٹیوں کے ہاتھ ہنر کی دولت سے بھرے ہوئے ہیں۔ان کی ذہانت سے پُر آنکھوں میں ایسے خواب سجے ہیں کہ جن کی تعبیر میں نکلو تو خود کو نئے جہانوں میں پاؤ۔
مگر عقل کے اندھے شمیم احمد کو نہیں معلوم تھا کہ بیٹیاں بسانا بھی ایک آرٹ ہے جو کتابوں میں درج نہیں ہے۔ میں نے بھی اس لیے کہا تھا کہ آج تک پروفیسر شمیم احمد جیسا ڈھیٹ آدمی نہیں دیکھا۔وہ نہیں جانتا کہ بعد میں لاکھ آسانیاں میسر آئیں،مگر ذات کے لباس پر بچپن کی محرومیوں کے بھدے پیوند کبھی نہیں چھپتے۔ان سب کے باوجود وہ کبھی شرمندہ نہیں ہوا اور نہ حالات کے آگے گھٹنے ٹیکے۔اس جدید دور میں جب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ نئے ماڈل کی چمکدار گاڑیوں میں آتے،وہ وہی کھٹارا سی سکوٹر گھسیٹ کر آتا۔یونیورسٹی کی پارکنگ میں کھڑی شاندار گاڑیوں کے بیچ وہ سکوٹر کیسی لگتی ہوگی شاید تم جیسے نوجوان کو تصور کرتے ہوئے بھی شرم آئے۔“
انہوں نے میری طرف دیکھا تو میں نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
”اس زمانے میں جہاں یونیورسٹی،طالبِ علموں کی اسٹڈی ٹیبل تک پہنچ چکی ہے وہ بضد ہے کہ میں ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح نہیں بانٹوں گا۔ارے بھئی زمانہ ایسا آ گیا ہے زمانے کے ساتھ خود کو بدلنا پڑتا ہے۔تم اپنے سٹور کو دیکھ لو۔خواتین کی وہ اشیا جنہیں وہ بڑی بوڑھیوں سے سات پردوں میں منگواتی تھیں وہ اب شیشوں میں سجی نظر کو لبھاتی ہیں۔“
میں جو شیلف میں نیا سامان سجا رہا تھا،نہ جانے کیوں شرمندہ سا ہو گیا۔
”آپ کو دیر تو نہیں ہورہی انکل! آپ جو خریدنے آئے ہیں میں نکال دیتا ہوں۔“یہ اس شرمندگی کے اثرات تھے، جن سے میں جلد نکلنا چاہتا تھا تبھی پلٹ کر ان سے کہا۔
”ارے نہیں تم کر لو اپنے کام…“انہوں نے سہولت سے انکار کیا اور سٹول پر آرام سے ٹیک لگا لی۔
”اچھا تو پھر یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں نکالا نہیں؟“میں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے ایک پر مزاح جملہ ان کی جانب اچھالا اور انہوں نے یوں بے تابی سے کیچ کیا جیسے اسی کے منتظر تھے۔
”بارہا نکالا مگر کیا ہے نا کہ ایسے لوگ اداروں کے لیے وہ نوالہ بن جاتے ہیں جو نہ اگلا جاتا ہے نہ ہی نگلا جاتا ہے۔ابھی بتا چکا ہوں نا کہ شمیم احمد ڈھیٹوں کا بادشاہ ہے۔اسے تو کئی بار اس کے بیٹوں نے گھر سے نکال دیا۔“انہوں نے بھی جواباً ہنس کر کہا۔
”مگر وہ کیوں؟“
اگرچہ مجھے ان کی زبانی پروفیسر شمیم احمد کی فطرت کا اندازہ ہوچکا تھا کہ یقیناً ایسے سر پھرے آدمی کا گھر والوں سے گزارہ نہایت مشکل تھا۔
”بھئی وہی فطری جبلت جو ہر جگہ عود آتی تھی۔دل کو لگتی کہوں تو آج کل کی اولاد ہی نافرمان ہے مگر سیانے لوگ نظر انداز کردیتے ہیں۔شمیم احمد کی طرح نہیں کہ ڈھنڈورا پیٹتے پھریں۔ اسے بہوؤں کی باتیں خالص بے ادبی اور بے سروپا لگتی ہیں اور بیٹوں کی خاموشی کھلتی ہے۔اب خیر سے ہر کوئی تو پروفیسر نہیں ہوتا۔اور اسے بھی تو چاہیے کہ ہر لمحہ پروفیسری نہ جھاڑے۔اب اگر بیٹے کلیاتِ خلیل جبران پکڑے گہری سوچ میں ڈوبے رہیں،بہوئیں کی زبان سے غیبتوں کی جگہ فلسفے کی پھلجھڑیاں پھوٹیں اور بچے آنگن میں اودھم مچانے کے بجائے کونے میں ایستادہ برگد کے تنے سے چمٹے مکوڑوں پر غور و فکر کرنے لگ جائیں تو سوچو خاموشیوں میں ڈوبا گھر تو کاٹ کھانے کو دوڑے گا۔“
میں جو شمیم نامے میں کھویا ہوا تھا موبائل کی گھنٹی بجنے پر چونک اٹھا۔ان سے معذرت کرکے کچھ دیر بات کی اور واپس پلٹا تو وہ ملازم سے اپنا مطلوبہ سامان لیے جانے کو پر تول رہے تھے۔
”ارے انکل! بس چل دیے؟“ میں نے آگے بڑھ کر قدرے بے تکلفی سے کہا تو میرے شانے کو دبا کر بولے:
”ہاں من میں چائے کی طلب اٹھی تو اٹھ پڑا حلانکہ ابھی بہت کچھ شمیم احمد جیسے بندے کے بارے میں کہنے کو باقی تھا۔“
میں ان کی بات پر ہولے سے مسکرا دیا۔
”تم سے مل کر خوشی ہوئی،مجھے تمہاری آنکھوں میں ذہانت کی جھلک نظرآئی ہے۔پڑھتے ہو نا؟“ ان کی بات سن کر میں نے انہیں اپنے متعلق تفصیلاً بتایا۔
جواباً میرا مضمون سنتے ہی ان کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی مگر پھر سنبھل کر میرا ہاتھ گرمجوشی سے دباتے ہوئے کہا:
”خوب ترقی کرو، مگر یاد رکھنا کبھی شمیم احمد کی طرح پروفیسر نہ بننا۔“بظاہر ہنس کر کہے گئے جملے میں درر پنہاں تھا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کہتا وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے دروازے کی طرف بڑھے۔
”کیا حال ہیں پروفیسر شمیم احمد صاحب؟“
میں جو گودام کی جانب بڑھ رہا تھا، ابا کی آواز سے زیادہ ان کے الفاظ پر حیرانی سے پلٹ کر دروازے کی جانب دیکھا اور ششدر رہ گیا۔
ابا پروفیسر شمیم احمد کا ہاتھ تھامے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں