87

طلسمی جھاڑو…علی اکمل تصور

کھیلنے کے لیے تو بچے چاند بھی مانگتے ہیں مگر ببلو کی خواہش سب سے الگ، سب سے انوکھی تھی۔ ببلو اُڑنا چاہتا تھا۔ ابھی وہ دو برس کا تھا۔ اسے ایل سی ڈی کی اسکرین بہت اچھی لگتی تھی۔ سمجھ تو کچھ نہیں آتا تھا مگر اسکرین پر چلنے والی رنگ برنگی فلمیں دیکھ کر وہ خوش ہو لیتا تھا۔ سب سے زیادہ لطف کارٹون فلموں میں آتا تھا۔ اُسے بلی اور چوہے والے کارٹون حد سے زیادہ پسند تھے۔
ببلو جب اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتا تو حکومت اُس کی ہوتی۔ اب کسی کی کیا مجال کہ اپنی پسند کا پروگرام دیکھ پائے۔ ابو جان خبریں سننے کے لیے بے چین نظر آتے تو امی جان ڈراما دیکھنے کے لیے بے قرار۔ بڑے بہن بھائی اگر اپنی پسند کا پروگرام دیکھنے کے لیے زور زبردستی سے کام لیتے تو جواب میں ببلو کا حملہ بڑا موثر ہوتا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر روتا مگر کمال تو یہ تھا کہ اُس کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ بہہ پاتا۔ امی جان اُس کے جھانسے میں آ جاتیں اور پھر جیت کا سہرا ببلو کے سر پر باندھ دیا جاتا۔
کارٹون فلم دیکھتے ہوئے وہ کھلکھلا کر ہنستا تو اُس کی خوشی گھر کے تمام افراد کو سرشار کر دیتی۔ ایک روز ببلو نے چوہے اور بلی والے کارٹون فلم میں دیکھا کہ چوہے کے ساتھ کھینچا تانی میں بلی کے ہاتھ ایک جادوئی جھاڑو لگ گیا۔ بلی دونوں ہاتھوں سے جھاڑو کا ڈنڈا تھام کر جھاڑو کے اوپر بیٹھ گئی۔ اب اُس نے اپنا پاؤں زور سے دو بار فرش پر پٹخا۔ پھر یوں ہوا کہ جھاڑو بلی سمیت فضا میں پرواز کرنے لگا۔ اب چوہے کی شامت آ گئی تھی۔ چوہا آگے آگے تھا اور بلی جھاڑو سمیت چوہے کے پیچھے پیچھے تھی۔ جھاڑو کا ڈنڈا چوہے کی پٹائی کر رہا تھا۔ ببلو پر تو جیسے ہنسی کا دورہ پڑ گیا ہو۔ امی جان گھبرا کر ببلو کے پاس چلی آئی مگر سب ٹھیک تھا۔ اس روز یہ فلم دیکھنے کے بعد ببلو کی معصوم سی سوچ ایک نکتے پر ٹھہر گئی۔ اب تو وہ سوتے میں بھی اُڑنے والے جھاڑو کے خواب دیکھتا تھا اور نیند کی حالت میں مسکراتا تھا۔ گھر میں صفائی کرنے کے لیے تنکوں کا جھاڑو موجود تھا۔ ببلو یہ جھاڑو اُٹھائے پھرتا تھا۔ وہ الگ بات تھی کہ اس جھاڑو پر سوار ہونے کی کوشش میں وہ گر پڑتا۔ وقت گزر رہا تھا۔ ہر عید پر ابو جان بچوں کو ان کی فرمائش کے مطابق تحائف لا کر دیتے تھے۔ اس مرتبہ بھی ابو جان نے بچوں سے اُن کی پسند کے متعلق پوچھا۔ اعظم نے کھلونا جہاز مانگا تو صباحت نے میوزک والی گڑیا کی فرمائش کی۔ اب ببلو کی باری تھی۔
”ببلو! آپ کے لیے کیا لاؤں؟“
”اُڑنے والا جھاڑو۔“ ببلو نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا۔
اعظم اور صباحت ہنس پڑے اور ابو جان کے لیے مشکل بن گئی۔ اب وہ ایسا طلسمی جھاڑو کہاں سے لے کر آتے کہ جس پر ببلو سواری کر سکتا۔ وہ ببلو کو کیسے سمجھاتے کہ کارٹون فلموں میں دکھائے جانے والے کرداروں اور واقعات کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
پھر ابو جان دفتر چلے گئے۔ سب کو معلوم تھا کہ ابو جان شام کو گھر واپس لوٹتے ہیں مگر اس کے باوجود بچے سارا دن ابو جان کی واپسی کا انتظار کرتے رہے۔ شام کو ابو جان لوٹے تو گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ابو جان بچوں کے لیے کھلونے لے آئے تھے۔ اعظم کے لیے جہاز، صباحت کے لیے گڑیا اور ببلو…… ببلو کے لیے وہ ”پھول جھاڑو“ لائے تھے۔ یہ پلاسٹک کا بنا ہوا تھا۔ ایسے جھاڑو عام طور پہ گھروں میں گرد و غبار صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ببلو پھول جھاڑو دیکھ کر خوش ہو گیا۔ جب کہ امی، ابو جان کی اس ذہانت پہ مسکرا کر اُنھیں داد دے رہی تھیں۔ اب ببلو نے پھول جھاڑو اپنی ٹانگوں کے درمیان دبا لیا۔ پھر اُس نے اپنا پاؤں فرش پر پٹخا۔ اُس کاخیال تھا کہ اب یہ جھاڑو پرواز کرے گا اور اُس کے مزے ہو جائیں گے مگر جھاڑو میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ ببلو نے دوبارہ اپنا پاؤں پٹخا اور پھر منہ بنا کر بولا:
”ابو جان! یہ تو اُڑتا ہی نہیں ہے۔“ اُس کے انداز میں ایسی معصومیت تھی کہ گھر کے تمام افراد ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔
”وہ بیٹا! وہ…… یہ خراب ہو گیا ہے۔ میں جلد ہی تمھیں دوسرا لا دوں گا۔“ ابو نے بہت مشکل سے بات مکمل کی تھی اور ببلو الجھی نظروں سے سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے جو گھر کے افراد ہنسے جا رہے ہیں۔
اب ببلو بڑا ہو گیا تھا۔ وہ اسکول کا ایک ذہین طالب علم تھا مگر فضا میں پرواز کرنے کا جنون اُسے اب بھی پریشان کرتا تھا۔ ہوم ورک سے فراغت کے بعد کارٹون فلم دیکھنا اب بھی اُس کا شوق تھا۔ پھر ایک دن اُس نے ایک ایسی فلم دیکھی کہ اُسے اپنا خواب سچ ہوتا دکھائی دینے لگا۔ وہ ایک سمجھ دار بچہ تھا۔ اتنی بات تو سمجھتا تھا کہ کارٹون فلم تخیلاتی ہوتی ہے مگر یہ فلم تخیلاتی نہیں تھی۔ اُس کے مرکزی کردار انسان تھے۔ اُس فلم کا ہیرو ایک بچہ تھا۔ فلم میں یہ بچہ ہر مشکل کا سامنا ہمت اور ثابت قدمی سے کرتا دکھائی دیتا تھا۔ فلم کے ایک منظر میں کھیل کا میدان دکھایا گیا تھا۔ کھیل فضا میں کھیلا جانے والا تھا۔ ایک سنہری رنگ کا اُڑنے والا گیند تھا۔ جو اُس گیند کو پکڑ لیتا، وہ جیت جاتا۔ درجن بھر سے زیادہ لڑکے اُس کھیل میں حصہ لے رہے تھے اور ہر لڑکے پاس ایک ایک طلسمی جھاڑو تھا۔ جی ہاں! ہوا میں اُڑنے والا طلسمی جھاڑو۔
پھر تمام لڑکے اپنے اپنے جھاڑو پر سوار ہو گئے۔ گھاس کے فرش پہ پاؤں پٹخنے کی دیر تھی کہ تمام لڑکے فضا میں بلند ہو گئے۔ پھر ایک اعصاب شکن جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ فلم دیکھنے کے بعد ببلو کی بے چینی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اُسے یقین ہو چکا تھا کہ ایسے بہت سے جھاڑو اِس دنیا میں موجود ہیں جو اُسے پرواز کرنے میں مدد دے سکتے ہیں مگر سوچنے والی بات یہ تھی کہ ایسا طلسمی جھاڑو کہاں سے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
اب وہ گم صم سا اسی بارے میں سوچتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ اُس کی اُداسی سب بھانپنے لگے۔ اب اُس کا دل کہیں نہیں لگتا تھا۔ اسکول میں بھی نہیں۔
ایک روز اُس کے کلاس انچارج نے اُسے اپنے پاس بلایا۔ وہ بہت دنوں سے محسوس کر رہے تھے کہ ببلو کسی الجھن کا شکار ہے۔
”کیا بات ہے ببلو میاں؟“ استاد جی نے پوچھا۔ ”کیا کوئی خواہش پریشان کر رہی ہے؟“
استاد جی سمجھ دار انسان تھے۔ انھوں نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا مگر اندھیرے کا یہ تیر نشانے پر لگا تھا۔ ببلو پگھل گیا۔ اُس نے اپنی خواہش کے متعلق استاد جی کو بتا دیا مگر اُستاد جی ہنسے نہیں تھے۔ ایسے وقت میں ببلو کا مذاق اُڑانا اُسے نفسیاتی طور پہ اور بھی زیادہ پریشان کر سکتا تھا۔
”سر! میں اُڑنا چاہتا ہوں۔ اوپر سے نیچے یہ دنیا کیسی نظر آتی ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس اُڑنے کی کوئی ترکیب موجود نہیں ہے۔ کیا میں کبھی اُڑ نہیں پاؤں گا؟“
”کون کہتا ہے کہ تم کبھی اُڑ نہیں پاؤ گے؟ کون کہتا ہے کہ تمھارے پاس اُڑنے کی کوئی ترکیب موجود نہیں ہے؟ اگر تم پہلے مجھ سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے تو میں تمھیں بتا دیتا، اُڑنے کی ایک نہیں …… دو، دو ترکیبیں موجود ہیں۔“ استاد جی بڑے جوش میں نظر آ رہے تھے۔ اُن کی بات سن کر ببلو کی آنکھوں میں امیدوں کے چراغ ٹم ٹمانے لگے۔
”سس……سر…… وہ ترکیب کیا ہے؟“ ببلو نے اشتیاق سے پوچھا۔
”نیکی اور کتاب۔“ استاد جی کا لہجہ مضبوط تھا۔
”کیا مطلب؟“ اُن کی بات سن کے ببلو حیران رہ گیا۔
”ہاں …… نیکی اور کتاب۔“ استاد جی اپنی بات پر اٹل تھے۔
”کتاب والی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اُس کا تعلق تعلیم سے ہے مگر یہ نیکی کیا ہے؟“ ببلو کا سوال سن کر استاد جی کچھ سوچنے لگے۔
”آؤ میرے ساتھ!“ وہ دنوں کلاس روم سے باہر نکلے۔ اب استاد جی کوئی ایسی وجہ تلاش کر رہے تھے، جس کی بنیاد پر وہ ببلو کو سمجھا سکیں کہ نیکی کیا ہوتی ہے۔
اسکول کے احاطے میں انھیں ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ پھر وہ ببلو کے ہمراہ اسکول سے باہر نکلے۔ ببلو کے لیے یہ سب بہت دل چسپ تھا۔ اب وہ دونوں سکول کے مرکزی دروازے پر کھڑے تھے اور استاد جی سڑک کنارے چلنے والے راہ گیروں کو دیکھ رہے تھے۔ شاید انھیں کوئی بوڑھا بھکاری نظر آ جائے۔ شاید انھیں سڑک عبور کرنے کی کوشش کرنے والا کوئی معذور فرد نظر نظر آ جائے کہ جس کی مدد کر کے وہ ببلو کو نیکی کرنے کا فلسفہ سمجھا سکیں۔ ایسے میں اُستاد جی چونک پڑے۔ اُنھوں نے دیکھا کہ ببلو سڑک کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ سڑک کے درمیان پہنچ کر رک گیا اور پھر وہ جھکا۔ اُس نے کچھ اُٹھایا تھا۔ پھر وہ پلٹا اور اُستاد جی کے پاس چلا آیا۔
”کیا اسے نیکی کہتے ہیں؟“ اُس نے استاد جی کے سامنے اپنی بند مٹھی کھول دی۔ اُس کی ہتھیلی پر ایک نوکیلا کیل دھوپ کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ مسرت کی لہر استاد جی کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔
”ہاں بیٹا! اسے نیکی کہہ سکتے ہیں۔ راستے سے تکلیف دینے والی چیزوں کو ہتانا بھی نیکی ہے۔ اس کیل سے موٹر سائیکل یا پھر کار کا ٹائر پنکچر ہو سکتا ہے۔ کسی کو اپنے کام پر جانے کی جلدی ہو سکتی ہے۔ کسی مریض کو اسپتال پہنچانے کی جلدی ہو سکتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک حقیر سا کیل ہے مگر یہ بے شمار الجھنیں پیدا کر سکتا ہے۔ میں خوش ہوں کہ تم سمجھ گئے۔ اب غور سے سنو! یہ نیکی دعاؤں کا باعث بنتی ہے اور دعائیں ہماری ہر خواہش پوری کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔“
ببلو چمکتی آنکھوں سے استاد جی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اُس نے کتاب اور نیکی کے ساتھ دوستی کر لی۔ اُسے پرواز جو کرنا تھی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اب ببلو کہاں ہے؟
جی ہاں اب وہ پاک فضائیہ کا ہونہار پائلٹ ہے اور اکثر آپ بچوں کے گھروں کے اوپر سے اپنے طیارے میں سوار گزرتا ہے۔ جب آپ ہوائی جہاز کو سلامی دیتے ہیں تو ببلو مسکراتے ہوئے آپ کی سلامتی کے لیے دعا کرتا ہے۔
……٭……٭……

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں