68

رین بو…علی اکمل تصور

اُس وقت وہ اپنی امی جان کے نرم گرم پروں تلے دُبکا بیٹھا تھا۔ اُن کا گھر ایک درخت کے تنے میں تھا۔ گھر میں داخل ہونے کے لیے ایک گول سوراخ موجود تھا۔ اُس کی نظریں سوراخ پر جمی ہوئی تھیں۔ سوراخ کے باہر نظر آنے والا منظر بڑا دل فریب تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ چودھویں رات کا چاند اپنا اُجالا پھیلا رہا تھا۔
”امی! وہ کیا ہے؟“ اُس نے آسمان پر جگمگاتے چاند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”وہ چاند ہے بیٹا!“ امی پیار سے بولیں۔
”یہ رات کو ہی کیوں آتا ہے؟“ اُس کے معصوم سوال پر امی ہنس پڑیں۔ اُس نے بات جاری رکھی۔
”اور جب اندھیرا ختم ہو جاتا ہے تب اتنی روشنی ہوتی ہے۔ امی! یہ روشنی کہاں سے آتی ہے؟“
”صبح ہوتے ہی سورج نکل آتا ہے۔ سورج اندھیرے کو اُجالے میں تبدیل کر دیتا ہے۔“ امی بولیں۔
”میں اکثر سوچتا ہوں امی جان! یہ سب کیا ہے؟ رات کو چاند آ جاتا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو چاند چلا جاتا ہے اور پھر سورج آ جاتا ہے۔“
”ابھی تم چھوٹے ہو، آہستہ آہستہ سب سمجھ جاؤ گے۔ یہ ہمارے خالق کا بنایا ایک نظام ہے۔ سورج کے آنے سے دن ہوتا ہے اور جب سورج چلا جاتا ہے تو رات ہو جاتی ہے۔ دن، رات، ماہ، سال کا نظام ایسے ہی چلتا ہے بیٹا!“
”ہمیں کیسے معلوم ہو گا امی جان کہ کتنا وقت گزر گیا؟ کتنے دن گزر گئے؟ کتنے مہینے، سال گزر گئے؟“
”تم ان باتوں کی فکر مت کرو۔ بس ایک بات ہمیشہ یاد رکھو کہ تمھارا آنے والا کل گزرنے والے آج سے بہتر ہونا چاہیے۔“
”آنے والا کل، گزرنے والے آج سے کیسے بہتر ہو گا امی؟“
”جب تم آنے والے کل میں آج سے بہتر کام کرو گے تب۔“
”میں کچھ سمجھا نہیں امی!“
”اب تم سو جاؤ، وقت کے ساتھ ساتھ سب سمجھ جاؤ گے۔“
”امی! ایک بات اور بتا دیں۔“
”ہاں! پوچھو؟“
”امی! چاند کانام چاند ہے، سورج کا نام سورج ہے۔ میرا کیا نام ہے؟“ اُس کی بات سن کر امی پھر سے ہنس پڑیں۔
”تمھارا نام بھی سوچ لیں گے۔ کوئی نہ کوئی نام تو رکھ ہی لیں گے تمھارا…… اب تم سو جاؤ!“
”جی امی!“ اُس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور اپنا سر بھی امی کے نرم گرم پروں میں چھپا لیا۔
اگلے دن صبح کا اُجالا پھیلا تو اُس کے امی ابو ’ٹیں، ٹیں‘ کرتے اُڑ گئے۔ وہ اپنے اور اُس کے لیے خوراک کی تلاش میں نکلے تھے۔ اب وہ گھر میں اکیلا تھا۔ ڈرتے ڈرتے وہ سوراخ کی طرف بڑھا۔ وہ باہر کی دنیا دیکھنا چاہتا تھا۔ اُس نے سوراخ سے اپنا سر باہر نکالا۔ نیلے آسمان پر بادلوں کی ٹکڑیاں تیر رہی تھیں۔ وہ بہت بلندی پر تھا۔ سبز شاخوں کی وجہ سے زمین نظر نہیں آ رہی تھی۔ اُس نے امی، ابو کو اُڑتے دیکھا تھا۔ پھر اُس نے کھڑے کھڑے اپنے پر پھیلائے مگر اُڑنے کے لیے چھلانگ لگانے کی ہمت بھی اُس میں موجود نہیں تھی۔ اتنے مین امی، ابو واپس لوٹ آئے۔ وہ تھوڑا گھبرائے ہوئے تھے۔
”موسم خراب ہو رہا ہے۔ تیز بارش آئے گی۔“ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
”یہ بارش کیا ہوتی ہے؟“ اُس نے پھر سے سوال کیا۔
”تھوڑی دیر رُک جاؤ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔“ پھر اُن کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ مشرقی سمت سے کالی گھٹا اُٹھی۔ بادل گرجے اور بارش شروع ہو گئی۔ شام ہونے سے پہلے بارش رُک گئی۔ بادل چھٹ گئے۔ سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی تھا۔
”امی……! امی……! وہ دیکھیں۔“ اُس نے شور مچا دیا۔ آسمان پر رین بو کی پٹی کمان کی صورت میں نظر آ رہی تھی۔ اُس رین بو میں کتنے ہی رنگ تھے۔
”امی! یہ کیا ہے؟“
”یہ رین بو ہے۔“ امی بولیں۔
”پھر تو میں بھی رین بو ہوں۔“ اُس نے اپنے رنگین پروں کی طرف اشارہ کیا۔ امی ہنس پڑیں۔
”میرا رین بو بچہ!“ اُسے اپنا نام مل گیا تھا اور وہ بہت خوش تھا مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ ایک دن اُس کے امی، ابو خوراک کی تلاش میں نکلے اور پھر لوٹ کر ہی نہیں آئے۔ وہ نہیں جانتا تھا، اُنھیں پرندے پکڑنے والے شکاری نے پکڑ لیا تھا۔ وہ سارا دن اُن کا انتطار کرتا رہا۔ پھر رات آئی، وہ ساری رات امی، ابو کی یاد میں روتا رہا۔ وہ بھوکا تھا اور اُسے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ صبح کا اُجالا پھیلا تو وہ سوراخ کے پاس آ گیا اور سوچنے لگا کہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے۔ اگر وہ یہاں رہتا تو بھوک سے مر جاتا۔ اُس نے باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کی ٹھان لی مگر وہ تو اُڑنے کا سلیقہ ہی نہیں جانتا تھا۔
”اے میرے خالق! میری مدد کرنا۔“ اُس نے سچے دل سے دُعا مانگی۔ وہ سوراخ کے کنارے پر بیٹھا تھا، اچانک اُس نے چھلانگ لگا دی اور پوری قوت سے پھڑپھڑایا۔ وہ بس ایک لمحے کے لیے ہی فضا میں ٹھہر سکا۔ درخت کی شاخوں اور پتوں نے اُسے سہارا دیا پھر وہ دھڑام سے زرم گھاس پر آ گرا۔ دوسرے ہی لمحے اُس نے چیخ سنی۔
”امی! اوپر سے کچھ گرا ہے۔ ارے! یہ کیا؟“
اُس نے خود پر ایک لڑکی کو جھکے دیکھا۔ رین بو کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں میں مسرت کی چمک عود کر آئی تھی۔
”کیا ہے سمیرا؟“
”امی! طوطے کا بچہ ہے۔ بہت خوب صورت…… کلر فُل۔“ سمیرا نے ہاتھ بڑھا کر رین بو کو اُٹھا لیا۔ وہ گھبرا رہا تھا۔
”ارے! یہ تو واقعی بہت خوب صورت ہے۔“ امی بولیں۔
”امی! میں اسے گھر لے جا سکتی ہوں؟“ سمیرا نے اجازت مانگی۔
”ہاں بیٹی! اگر اسے چھوڑا تو اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔“ امی کے بجائے سمیرا کے ابو نے جواب دی۔
یہ ابو کے دوست کا باغ تھا۔ سمیرا، امی ابو کے ہمراہ یہاں تفریح کے لیے آتی تھی اور اُسے رین بو مل گیا۔ اب سمیرا چٹائی پر آ بیٹھی۔ اُس کے پاس پھل موجود تھے۔ اُس نے چھری کی مدد سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنائے اور رین بو کے سامنے رکھ دیے۔ رین بو کو بھوک لگ رہی تھی۔ اُس نے ایک ٹکڑا اُچک کر کھا لیا۔ اب اُس کا ڈر دُور ہو رہا تھا۔ یہ تو مہربان لوگ تھے۔ اللہ نے اُس کی دعا سن لی تھی۔ اُس کی مدد کرنے کے لیے سمیرا کو وسیلہ بنا دیا تھا۔
اب گھر واپسی ہوئی۔ رین بو کے لیے تمام مناظر نئے اور دل چسپ تھے۔ اُس کے ذہن میں بہت سے سوال تھے مگر اب رین بو کو جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ رین بو کی زبان اُس کی امی بھی نہیں سمجھتی تھیں، بھلا سمیرا کیسے سمجھتی۔ وہ سمیرا کے کمرے میں بیٹھا ’ٹیں،ٹیں‘ کرتا رہتا اور اُس کا شور سن کر سمیرا خوش ہوتی۔ یوں ہی وقت گزرنے لگا۔ فرصت کے وقت میں سمیرا رین بو سے باتیں کرتی اور رین بو اپنی طرف سے اُن باتوں کا جواب بھی دیتا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں پاتے تھے۔ ایک دن سمیرا نے رین بو سے پوچھا۔
”تمھارا نام کیا ہے؟ تمھارا نام کیا ہے؟“ جانے رین بو کے دل میں کیا آئی، اُس نے سمیرا کی نقل اُتارنے کی کوشش کی۔
”تمھارا نام کیا ہے؟ تمھارا نام کیا ہے؟“
سمیرا چیخ پڑی: ”امی! امی……! یہ تو بولنے والا طوطا ہے۔“
اُس دن کے بعد سمیرا کے جوش میں اضافہ ہو گیا۔ اب وہ رین بو کو بولنے کا سلیقہ سکھا رہی تھی۔ رین بو بہت ذہین تھا۔ وہ خود بولنا سیکھنا چاہتا تھا۔ کوشش دونوں طرف سے جاری تھی۔
اب رین بو ایک سال کا ہو چکا تھا۔ اُسے دیکھ کر قوس و قزاح کے رنگ یاد آتے تھے۔ اب وہ بات کر بھی سکتا تھا، بات سمجھ بھی سکتا تھا۔ ایک دن رین بو نے سمیرا سے پوچھا:
”وہ کیا ہے؟“ اُس نے اپنا پر پھیلا کر دیوار کی طرف اشارہ کیا۔ سمیرا ہنس پڑی۔
”وہ کلاک ہے بدھو!“
”وہ کیا ہوتا ہے؟“
”گھڑی…… اس میں ہم وقت دیکھتے ہیں۔“
”اور وہ کیا ہے؟“ اُس نے دیوار پر لٹکتے چارٹ کی طرف اشارہ کیا۔
”وہ کیلنڈر ہے۔“ سمیرا بولی۔
”وہ کیا ہوتا ہے؟“
”اس کی مدد سے ہمیں دن، مہینے اور سال کا علم ہو جاتا ہے۔“
اچانک ہی رین بو اُداس ہو گیا۔ اُسے اپنی امی یاد آ گئی تھی۔ اُس نے وقت کے حوالے سے امی سے پوچھا تھا اور امی نے جواب دیا تھا کہ تمھارا آنے والا کل، گزرنے والے آج سے بہتر ہو۔ وہ سمجھ گیا کہ انسانوں نے وقت کا حساب رکھنے کے لیے گھڑیاں اور کیلنڈر ایجاد کر رکھے ہیں۔ پرندوں اور جانوروں کی دنیا میں ایسا نہیں تھا۔ وہ صبح و شام کی گردش سے وقت کا حساب رکھتے تھے۔ سوچتے سوچتے وہ چونک پڑا۔
”آنے والا کل، آج کے دن سے بہتر ہو…… مگر انسانوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ یہ سب آج میں جیتے تھے۔ کل کی فکر کوئی نہیں کرتا تھا۔“ یہ بات ذہن میں آتے ہی وہ ’ٹیں، ٹیں‘ کرنے لگا۔ ساتھ ہی وہ اپنی کلرفل گردن دائیں سے بائیں ہلا رہا تھا۔
”کیا ہوا؟“ سمیرا اُس کے اس انداز پر حیران ہوئی مگر رین بو خاموش رہا۔ دوسرے دن صبح اُجالا پھیلنے سے پہلے ہی رین بو نے ”ٹیں، ٹیں‘ کی رٹ لگا دی۔ اُس کا شور سنتے ہی گھر کے تمام افراد نیند سے جاگ پڑے۔
”کیا ہوا رین بو کو؟“ ابو خار بھری آواز میں بولے۔
”دیکھتی ہوں۔“ امی بھی اُٹھ بیٹھیں۔
”پہلے تو کبھی رین بو نے ایسے نہیں کیا۔“ سمیرا بستر سے نکل آئی۔
اب گھر کے تمام افراد رین بو کے پاس چلے آئے مگر رین بو کو چین نہیں تھا۔ وہ اس وقت گھڑی کا الارم بنا ہوا تھا۔
”دیکھنے میں تو ٹھیک ہی لگتا ہے۔“ ابو بولے۔
”ٹھیک ہی ہے۔“ امی نے کہا۔
”اب کیا؟“ ابو نے پوچھا۔
”اب تو اُٹھ بیٹھے ہیں، میں ناشتا تیار کرتی ہوں۔“ امی بولیں۔.
”فجر کی نماز کا وقت ہے، میں نماز پڑھ آتا ہوں۔“ ابو بولے۔
”تو پھر پہلے میں بھی نماز پڑھ لیتی ہوں۔“ امی جان بولیں۔
”اچھی بات!“ وہ مسکراتے ہوئے مسجد کو روانہ ہو گئے۔
امی اور سمیرا وضو کرنے لگیں۔ انھیں متحرک دیکھ کر رین بو چپ کر گیا۔ وہ اپنے مقصد میں کام یاب رہا تھا۔ اُس دن ابو، امی اور سمیرا نے محسوس کیا کہ ہر کام اپنے وقت پر ہوا تھا۔ کوئی جلدبازی نہیں، کوئی بھاگم بھاگ نہیں…… گھر میں کسی نے وقت کی کمی کا رونا بھی نہیں رویا تھا اور سب اُس رات وقت پر سوئے تھے۔
اگلی صبح رین بو پھر سے سب کو وقت پر جگانے کے لیے تیار تھا۔ اُس نے وہ ذمہ داری سنبھال لی تھی جو قدرت نے اُسے فطری طور پر دے رکھی تھی اور ردِعمل میں غیر محسوس طور پر گھر کے تمام افراد کا کل آج سے بہتر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ چند روز بعد صبح ہونے سے پہلے رین بو نے ابو کی آواز سنی۔
”جاگو! اس سے پہلے کہ رین بو جگائے۔“
یہ سن کر رین بو خوشی سے ’ٹیں، ٹیں‘ کرنے لگا۔
……٭……٭……

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں