83

ڈینی…علی اکمل تصور

یہ ہزاروں برس پہلے کی بات ہے۔ دنیا تب بھی اتنی ہی خوبصورت تھی۔ سمندر نیلگوں تھا۔ پہاڑوں سے آبشاریں گرتی تھیں۔ جنگل تھے۔ سبز میدان تھے۔ معطر فضا تھی۔ جانور تھے۔ پرندے تھے۔ حشرات تھے۔ اگر کچھ نہیں تھا تو انسان نہیں تھا۔ ابھی زمین پر انسان کی آمد نہیں ہوئی تھی۔ زمین پر ڈائنوسارس کی حکومت تھی۔ یہ قد میں اور حجم میں بہت بڑے تھے۔ آج دیوار پر ہم جو چھپکلی دیکھتے ہیں۔ یہ اس سے مشابہت رکھتے تھے مگر یہ چھپکلی سے لاکھوں گنا بڑے تھے۔ ان میں گھاس خور بھی تھے اور گوشت خور بھی تھے۔ یہ ہر وقت یا تو کھاتے رہتے تھے یا پھر لڑتے رہتے تھے۔ چھوٹے جانور اُن سے چھپ کر اپنی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اُن میں شمولی بھی شامل تھی۔ شمولی چوہیا جیسی تھی۔ تیز طرار…… اُس کا سر مگرمچھ کے سر جیسا تھا۔ اُس کے دانت نوکیلے تھے۔ وہ پہاڑ کے نیچے سرنگ میں رہتی تھی۔ ایک دن صبح سویرے وہ اپنے بل میں سے باہر نکلی اور پھر حیران رہ گئی۔ نیچے وادی میں اُس نے ایک گول مٹول سی چیز دیکھی تھی۔
”یہ کیا ہو سکتا ہے؟“ اُس نے سوچا۔ پھر وہ بھاگ کے اُس چیز کے پاس پہنچی۔
”کل شام تو یہاں کچھ بھی موجود نہیں تھا۔“ اب شمولی اُس چیز کا جائزہ لے رہی تھی۔ اُس کی سطح کھردری اور مضبوط تھی۔ اچانک وہ لرز کے رہ گئی۔ اُس کے سر کے اوپر ایک سایہ لہرایا تھا اور ساتھ ہی اُس نے ایک بھیانک آواز سنی تھی۔
”چیں ……!“
اُس نے سر اٹھا کے دیکھا۔ یہ ایک دیوہیکل چمگادڑ تھا۔ وہ اُس چیز کو اُچکنے کے لیے گھاس کے فرش کی طرف غوطہ لگا چکا تھا۔
”یہ تو کھانا ہے۔“ شمولی چونک پڑی۔ کھانے کی تو اُسے بھی ضرورت تھی اور اس چیز پر پہلا حق شمولی کا ہی تھا۔ آن کی آن میں وہ چمگادڑ لپکا اور اُس نے وہ چیز اپنے پنجوں میں دبوچ لی۔ شمولی کو یہ دھونس گوارا نہیں تھی۔ اُسی پل شمولی نے چھلانگ لگائی اور وہ چمگادڑ کے پروں پہ سوار ہو گئی۔ اِس اچانک آفت سے چمگادڑ گھبرا گیا۔ چمگادڑ نے اُلٹے رخ قلابازی لگائی مگر شمولی نے اُس کے پر کے پردے کو مضبوطی سے نوچ رکھا تھا۔ پھر شمولی نے اگلا قدم اٹھایا۔ اب وہ چمگادڑ کے پر کا پردہ کترنے لگی۔ چمگادڑ اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اگر پردے میں سوراخ ہو جاتا تو چمگادڑ پرواز کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ وہ شمولی سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔ اِسی گھبراہٹ میں اُس کے پنجوں کی گرفت کھل گئی۔ وہ چیز نیچے کو گری تو شمولی نے بھی زمین کی طرف چھلانگ لگا دی۔ چمگادڑ کی پرواز نیچی تھی۔ اِس وجہ سے چھلانگ لگاتے ہوئے شمولی کو جان جانے کا خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ شمولی سے پہلے وہ چیز گھاس کے فرش پر گری۔ تھوڑی دور تک لڑھکنے کے بعد وہ چیز رک گئی۔ شمولی اُس چیز پر قبضہ جمائے بیٹھی تھی۔ وہ خوش تھی۔ اِس جنگ میں جیت اُس کی ہوئی تھی۔ اُس نے چمگادڑ کو ایسا سبق سکھایا تھا کہ اُس کے واپس لوٹنے کی اب کوئی امید نہ تھی۔ اب یہ چیز اُس کی تھی مگر یہ تھا کیا……؟
شمولی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اس چیز کی ساخت ایسی تھی کہ شمولی اُسے اپنے گھر لے جانے کے قابل نہ تھی۔ پھر شمولی نے اُس چیز کی حفاظت کے خیال سے وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے ایک گھنے درخت کی جڑ میں بسیرا کر لیا تھا۔ وہ اُس چیز کو کترنے کی کوشش کرتی مگر ناکام رہتی۔ بھوک مٹانے کے لیے یہاں وافر پھل موجود تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ شمولی نے محسوس کیا کہ جیسے یہ چیز اپنا رنگ بدل رہی ہو۔ چمگادڑ سے جنگ کے وقت یہ چیز سفید رنگ کی تھی۔ اب یہ مٹیالے رنگ کی ہو چکی تھی۔
اُس روز شمولی اس چیز کے پاس کھیل رہی تھی۔ اچانک اُس نے محسوس کیا کہ جیسے اُس چیز میں حرکت ہوئی ہو۔ وہ کھیل چھوڑ کر قریب آ گئی۔ اُس نے دیکھا، یہ چیز ہل رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی اُس کے اندر بیٹھا زور لگا رہا ہو۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ چیز تڑخ گئی۔ شمولی گھبرا گئی، مگر اپنے قدموں پہ مضبوط رہی۔ پھر حیرت سے شمولی کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اُس چیز میں سے ایک ننھا منا سا ڈائنوسار باہر نکل آیا تھا۔ دراصل یہ چیز ڈائنوسارس کا انڈا تھا۔ یہ انڈا جانے کہاں سے لڑھکتا شمولی کے پاس چلا آیا تھا اور شمولی نے انجانے میں اُس انڈے کے حفاظت کی تھی۔ انڈے سے نکلنے والے ننھے ڈائنو سار نے محبت سے شمولی کی طرف دیکھا اور پھر خوش ہوتے ہوئے بولا:
”ماما……!“
ٍٍ”میں تمہاری ماما نہیں ہوں۔“ شمولی کو غصہ آ گیا۔ اس انڈے کی حفاظت کے سلسلے میں اُس کی ساری محنت ضائع گئی تھی۔ اب وہ اپنے گھر کی طرف واپس چل پڑی۔ ننھا ڈائنوسار اُس کے پیچھے آ رہا تھا۔
”کیا بات ہے…… کیوں میرے پیچھے آ رہے ہو؟“
”ماما……!“ اُس نے ایک لفظ میں وضاحت کر دی۔ دراصل ننھا ڈائنو سار شمولی کو اپنی ماں سمجھ رہا تھا اور وہ اُس کے ساتھ ہی جانا چاہتا تھا۔
”میں اپنے گھر واپس لوٹ رہی ہوں اور تم میرے بچے نہیں ہو۔ تم انڈے میں تھے اور پہاڑ سے لڑھک کر نیچے آئے تھے۔ میں نے تو بس تمہاری حفاظت کی ہے۔“ شمولی اُسے جلی کٹی سنا کے پھر سے چل پڑی مگر ننھے ڈائنو سار نے اُس کا تعاقب جاری رکھا۔ شام ہونے سے پہلے شمولی اپنے گھر پہنچ گئی اور پھر لپک کے اپنے بل میں داخل ہو گئی۔ اسے واپس گھر لوٹنے کی خوشی تو تھی مگر ساتھ ہی اس کا مزاج خراب ہو رہا تھا۔ اس کا گھر دھول مٹی میں اٹا پڑا تھا۔ آرام کرنے سے پہلے صفائی ضروری تھی۔ وہ رات دیر تک کام میں مصروف رہی اور پھر ایک تاریک کونے میں دُبک کر سو گئی۔ اگلی صبح جب وہ نیند سے جاگی تو اسے پہلا خیال ننھے ڈائنو سار کا آیا۔ وہ اپنے بل سے باہر نکلی اور پھر چونک پڑی۔ ننھا ڈائنو سار بل کے باہر براجمان تھا۔ شمولی کو دیکھتے ہی وہ چہک کے بولا۔
”ماما……!“
شمولی کو غصہ آ گیا:
”میں تمہاری ماما نہیں ہوں۔ تمہاری ماما پہاڑ کے اس طرف ہو گی۔ مجھے پریشان مت کرو۔“
شمولی اُس سے کترا کے خوراک کی تلاش میں نکلی مگر وہ تو اُس کے ساتھ ساتھ ہی تھا۔ شمولی درخت سے گرنے والے پھل کترنے لگی اور وہ گھاس کی نرم کونپلوں میں منہ چلانے لگا۔ شمولی اتنی بات تو سمجھ چکی تھی کہ یہ کسی گھاس خور ڈائنو سارس کا بچہ ہے۔ پھر وقت گزرنے لگا۔ ننھا ڈائنو سار تیزی سے بڑا ہو رہا تھا۔ وہ سارا دن جنگل میں اودھم مچائے رکھتا مگر رات کو شمولی کے بل کے سامنے سوتا۔ اگر اس کا بس چلتا تو شمولی کے ساتھ اس کے بل میں گھس جاتا۔ اب شمولی اس سے مانوس ہو چکی تھی۔ وہ ایک پل کے لیے نظروں سے دور ہوتا تو شمولی کو بے چینی لگ جاتی۔ شمولی نے اس کا نام ڈینی رکھا تھا۔ اب ڈینی بہت بڑا ہو گیا تھا۔ اس کا سر آسمان کو چھوتے درختوں سے بھی بلند ہو چکا تھا۔ شمولی نے محسوس کیا تھا کہ ڈینی اداس رہنے لگا ہے۔ آخر ایک روز شمولی نے ڈینی سے اس کی اداسی کی وجہ پوچھ ہی لی۔
”کیا بات ہے بیٹا……؟“
ڈینی نے مشکوک نگاہوں سے شمولی کی طرف دیکھا اور بولا:
”آپ درست کہتی تھی مگر میں سمجھ نہیں پایا۔ آپ میری ماما نہیں ہو۔“
یہ بات سن کے شمولی کا دل کانپ گیا۔ وہ سمجھ گئی کہ اب جدائی کا وقت آ پہنچا ہے اور پھر وہی ہوا۔ ڈینی جنگل چھوڑ کے چلا گیا۔ اب شمولی اسے یاد کر کے روتی تھی۔ پھر جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ایک صبح شمولی کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے زلزلہ آ گیا ہو۔ وہ گھبرا کے اپنے بل میں سے باہر نکلی اور پھر باہر کا منظر دیکھ کر وہ کانپ کے رہ گئی۔ اس نے وادی میں ڈائنو سارس کی پوری فوج دیکھی تھی۔ ان کے قدموں کی دھمک سے زمین کانپ رہی تھی۔ اس فوج کی قیادت ڈینی کر رہا تھا۔ شمولی دور کے ڈینی کے پاس پہنچی اور غصے سے بولی۔
”یہ تم نے کیا کیا؟ اپنے قبیلے کو اس جنگل کا راستہ کیوں دکھایا! تمہارے قبیلے والے پورا جنگل اجاڑ دیں گے۔ پھر مجھ سمیت اس جنگل کے ننھے جانور کہاں جائیں گے۔“
شمولی کی بات سن کے ڈینی بدتمیزی سے بولا۔
”میں اپنے قبیلے کو یہاں خوراک کی تلاش میں لایا ہوں اور کیا تم ہمارا راستہ روکو گی۔ دیکھو ہماری طرف اور ہمیں دیکھ کر خوف سے کانپو…… کون ہے جو ہمارے سامنے ٹھہر پائے……!“
”میں تمہاری ماما ہوں۔“ شمولی بے بسی سے بولی۔
”دور ہٹ چوہیا…… ورنہ ہم اپنے قدموں تلے تمہیں مسل دیں گے۔“
شمولی کا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔ وہ روتے ہوئے اپنے بل میں گھس گئی۔ پھر جانے کیا ہوا، یہ اس کی بددعا تھی یا پھر قدرت کا انتقام……
ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ ایک بہت بڑا شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا۔ یہ ٹکراؤ ایٹم بم سے بھی زیادہ شدید تھا۔ پھر اس شہابِ ثاقب کے ٹکرے پوری زمین پر آگ کی صورت برسنے لگے۔ حدت سے ہر چیز پگلنے لگی۔ دیو ہیکل ڈائنو سارس کسی تنکے کی مانند راکھ ہو گئے۔ زمین پہ ڈائنو سارس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا اور بس وہی خشرات اور ننھے جانور بچ پائے جنہوں نے زمین کے نیچے پناہ لے لی تھی۔ ان میں شمولی بھی شامل تھی۔ چند روز کے بعد جب شمولی کو محسوس ہوا کہ اب حرارت جان لیوا نہیں ہے تو وہ اپنے بل میں سے باہر نکلی۔ اس نے دیکھا۔ ہر طرف راکھ اور دھول کا راج تھا۔ اس نے سر اٹھا کے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر اس کا سر جھک گیا۔
غرور والے فنا ہو چکے تھے اور عاجزی والے محفوظ رہے تھے۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں