118

چچا افلاطون…کنہیا لال کپور

نام تو ان کا کچھ اور ہے لیکن محلے میں وہ چچا افلاطون کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ان کے سن و سال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے بہتر لقب ان کے لیے تجویز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت دوست، رہنما اور فلسفی کی ہے۔ یعنی وہ محلے میں رہنے والے ہر شخص کے دوست ہیں، چاہے وہ ان پر ایمان لائے یا نہ لائے اور فلسفی ہیں، چاہے ان کی باتوں میں مغز ہو یا نہ ہو۔
دراصل چچا،افلاطون نہ ہوتے تو ہماری اور آپ کی طرح دفتر میں قلم گھسایا کرتے یا دکان پر سودا سلف بیچا کرتے۔ چچا افلاطون کو جس وقت پتا چلتا ہے کہ محلے میں کسی شخص پر مصیبت آنے والی ہے یا آئی ہے تو وہ فوراً اس کے پاس پہنچتے ہیں اور اسے اپنے مشوروں سے فائدہ اٹھانے کا موقع بہم پہنچاتے ہیں۔
پچھلے دنوں میری نظر کمزور ہو گئی۔ آنکھوں کا معائنہ کرایا۔ ڈاکٹروں نے عینک استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ عینک بنوانے جا رہا تھا کہ راستے میں ان سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہا:
”دماغ چل گیا ہے تمہارا، اس عمر میں عینک لگا رہے ہو! بڑھاپے میں کیا کرو گے؟“
”بڑھاپے میں، ظاہر ہے کہ بڑھاپے میں بھی عینک ہی استعمال کروں گا۔“
”میاں ہوش کی دوا کرو، اگر جوانی میں عینک لگاؤ گے تو بڑھاپے میں ضرور اندھے ہو جاؤ گے۔“
”تو بتائیے پھر کیا کروں؟“
”دیکھو، عینک لگوانے کا خیال ترک کردو اور آنکھوں میں صبح و شام روغن بادام ڈالا کرو۔ اگر دوہفتوں بعد دن کو تارے نظر نہ آنے لگیں تو چچا افلاطون نام نہیں۔“
”دن کو تارے نظر نہ بھی آئیں تو کوئی مضائقہ نہیں، رات کو نظر آ جائیں تو غنیمت ہے۔“ میں نے مسکرا کر کہا۔
”نہیں، نہیں! اپنی قسم دن کو نظر آئیں گے۔ آزمودہ نسخہ ہے۔ بس روغن بادام کے تین قطرے صبح اور تین قطرے شام، عینک کی ضرورت نہ رہے گی۔“
ہم دو بلکہ چار ہفتے آنکھوں میں روغن بادام ڈالتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رات کے وقت جب چاند کی طرف دیکھتے تو وہ ستارا نظر آتا اور جب ستاروں کی طرف دیکھتے تو مطلع بالکل صاف لگتا تھا۔ اس کے ساتھ سر میں اس قسم کا درد کہ دہاڑیں مار کر رونے کو جی چاہتا۔ دوبارہ آنکھوں کا معائنہ کروایا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ عینک کا نمبر پہلے کی نسبت بڑھ گیا ہے، اس لیے عینک لگوانے میں مزید دیر نہیں کرنی چاہیے۔ عینک لگوا لی لیکن چچا افلاطون اس دن سے ناراض ہیں، کہتے ہیں:
”یا تم آنکھوں میں روغن بادام ڈالتے نہیں رہے یا وہ روغن گھٹیا درجے کا تھا۔“
ہمارے محلے میں ایک بی اے پاس بے کار نوجوان رہتے ہیں۔ چچا افلاطون کو کسی نے بتایا کہ وہ دو سال سے بے کار ہیں۔ یہ سن کر انہیں بہت افسوس ہوا۔ اسی دن نوجوان کو گھر بلا بھیجا اور کہنے لگے:
”تم نے پہلے مجھے کیوں نہ بتایا کہ تم اتنے عرصے سے بے کار ہو؟“
نوجوان نے عاجزی سے کہا:
”غلطی ہوگئی، معاف کر دیجیے۔“
چچا افلاطون نے الماری سے ایک کتاب نکالی۔ دو چار منٹ اس کے اوراق الٹتے رہے اور پھر نوجوان سے مخاطب ہو کر فرمایا:
”دیکھو برخوردار! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بے کار لوگوں کے لیے ہزاروں کام اس کتاب میں درج ہیں۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم مچھلیاں پکڑنا پسند کرو گے یا مینڈک؟“
نوجوان نے حیران ہوتے ہوئے کہا:
”میں آپ کا مطلب سمجھا نہیں!“
”مطلب یہ ہے کہ اگر تم ہر روز پچاس مچھلیاں یا پچاس مینڈک پکڑ سکو تو انہیں فروخت کر کے کافی روپیہ کما سکتے ہو۔ مچھلیاں تو وہ لوگ خرید لیں گے جنہیں کھانے کا شوق ہے اور مینڈک تم ان کالج میں فروخت کر سکتے ہو جہاں علم حیوانات پڑھایا جاتا ہے۔“
”معاف کیجیے! یہ کام مجھ سے نہ ہو سکے گا۔“
”خیر کوئی بات نہیں، اچھا نہ کرو، جنگلی بندر پکڑ لو گے؟“
”جنگلی بندر، یہ تو اور بھی مشکل کام ہے۔“
”اچھا اسے بھی رہنے دو۔ تمہارے لیے کوئی اور کام ڈھونڈتے ہیں۔“
چچا افلاطون نے پھر کتاب کھولی اور تھوڑی سی ورق گردانی کے بعد خوشی سے چلا کر کہا:
”مل گیا! مل گیا!“
نوجوان نے کہا:
”فرمائیے؟“
”تم جنگلی شہد اکٹھا کر کے فروخت کیا کرو، معقول آمدنی ہو سکتی ہے۔“
نوجوان نے ڈرتے ڈرتے کہا:
”لیکن یہ تو ذرا ٹیڑھی کھیر ہے۔“
”ذرا بھی ٹیڑھی نہیں۔“چچا افلاطون بڑے وثوق سے بولے:
”تم شاید شہد کی مکھیوں سے ڈرتے ہو۔ انہیں بھگانے کی ترکیب میں بتائے دیتا ہوں۔ دیکھو! ابلتا ہوا پانی شہد کے چھتے پر ڈال دو، تمام مکھیاں چھتے سے گر کر ڈھیر ہو جائیں گی۔ پھر اطمینان سے چھتے سے شہد نہ نچوڑو اور بوتل بھر لو۔“
وہ نوجوان شہد کے چھتوں کی تلاش میں روانہ ہو گیا۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ایک جنگل میں اسے بہت بڑا چھتہ نظر آیا۔ وہ درخت پر چڑھ گیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ چھتے پر گرم پانی انڈیلتا، سینکڑوں مکھیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ گھبرا کر نوجوان درخت سے نیچے جو گرا تو ٹانگ ٹوٹ گئی۔ تین مہینے اسپتال میں پڑا رہا۔ چچا افلاطون بھی حال پوچھنے گئے، فرمانے لگے:
”تم نے غلطی کی کہ چھتے پر پانی پچکاری سے نہیں ڈالا۔ پچکاری استعمال کرتے تو مکھیوں کی کیا مجال تھی کہ تمہیں کاٹتیں۔ خیر آئندہ خیال رکھنا۔“
ہمارے محلے میں ایک خاندانی رئیس بھی رہتے تھے۔ انہیں جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ ان کا ہرن گم ہو گیا۔ بہت پریشان ہوئے کیوں کہ ان کے ہاں ہرن اور ہرنی کا ایک جوڑا تھا اور ہرن کی غیر حاضری میں ہرنی اداس اداس دکھائی دیتی تھی۔ انہوں نے بہت تلاش کیا، اخباروں میں گمشدہ ہرن کے عنوان سے اشتہار دیا اور اسے ڈھونڈ کر لانے والے کے لیے انعام مقرر کیا لیکن ہرن نہ ملا۔ چچا افلاطون نے جب سنا تو وہ رئیس کے گھر پہنچے۔
”آپ کے خیال میں ہرن کے یک لخت گھر سے چلے جانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟“ انھوں نے رئیس سے پوچھا۔
”کیا معلوم، کچھ نہیں کہہ سکتا۔“
”آپ نے اسے کبھی سخت سست تو نہیں کہا؟“
”میں اسے سخت سست کہتا؟اجی حضرت وہ تو مجھے جان سے زیادہ عزیز تھا۔“
”آپ نے اسے وہ غذا کھانے پر مجبور تو نہیں کیا جو اسے ناپسند تھی؟“
”بالکل نہیں۔“
”آپ کبھی اس کے آرام میں تو خلل انداز نہیں ہوئے؟“
”مطلق نہیں۔“
”آپ نے کبھی اس پر یہ ظاہر تو نہیں ہونے دیا کہ وہ اب بوڑھا ہو گیا ہے؟“
”نہیں۔“
”تو پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے؟“
”خدا جانے، ہماری سمجھ میں تو کوئی وجہ نہیں آئی۔“
”ٹھہریے میں بتاتا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کسی بات پر ہرنی سے رنجش ہو گئی اور وہ…!“
”جی ہاں، یہی مطلب ہے۔“
”اچھا! اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ کا خیال صحیح ہے تو پھر…؟“
”پھر ہرن کے واپس لانے کا ایک ہی طریقہ ہے…یعنی…“
”یعنی اسے منانے کے لیے ہرنی کو بھیجا جائے۔“
”جی ہاں، جی ہاں۔“
”لیکن کہاں؟ ہرن کا کچھ اتا پتا بھی تو معلوم ہو۔“
”اس کی فکر نہ کیجیے، یہ سب ہرنی پر چھوڑ دیجیے۔ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ وہ خود تلاش کر لے گی۔“
رئیس پہلے تو ہچکچایا لیکن جب افلاطون نے اسے یہ بات ذہن نشین کرا دی کہ اس کا گم شدہ ہرن مل جائے گا تو وہ رضامند ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہرن تو گم ہو ہی گیا تھا، وہ ہرنی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا لیکن چچا افلاطون کو اب یقین ہے کہ ایک دن ہرنی ہرن کو ضرور واپس لے آئے گی۔“
دو سال پہلے کی بات ہے، لڑکے کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا۔ محلے والے لڑکے کو اسپتال لے جارے تھے، کہیں سے چچا افلاطون آ نکلے اور کہنے لگے:
””کیوں نازک اندام لڑکے کو خواہ مخواہ اسپتال لے جاتے ہو؟ وہاں لوگ ٹیکے لگا لگا کر اس کا جسم چھلنی کر دیں گے، اسے سخت اذیت ہو گی۔“
کسی نے پوچھا:
”تو پھر کیا کرنا چاہیے؟“
چچا افلاطون نے کہا:
”جس جگہ کتے نے کاٹا ہے، اس پر دھتورے کے پتے گرم کر کے باندھ دو، چار پانچ دنوں تک ٹھیک ہو جائے گا۔“
چناں چہ یہی کیا گیا اور لڑکا بظاہر تندرست ہو گیا۔ ہر شخص نے چچا افلاطون کی فہم و فراست کی تعریف کی لیکن چند مہینوں کے بعد وہ لڑکا خاص قسم کے پاگل پن میں مبتلا ہو گیا۔ وہ پانی سے ڈرتا، کتے کی طرح آوازیں نکالتا اور لوگوں کو کاٹنے کے لیے دوڑتا۔
چچا افلاطون ان دنوں شہر گئے ہوئے تھے، کسی شخص کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جائے۔ لڑکے کا بہترین علاج کیا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکا۔ شہر سے واپس آنے کے بعد جب چچا افلاطون نے اس لڑکے کی وفات کی خبر سنی تو کہنے لگے:
”میں صرف ایک مہینہ محلے سے غیر حاضر رہا اور میری عدم موجودگی میں تم سب مل کر بھی بے چارے نوجوان کی جان نہ بچا سکے۔ مجھے تمھاری بے بسی پر ترس آتا ہے۔“
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں