witch, magic, bounce-1112643.jpg 68

جادوئی کنچہ ___ عاطف حسین شاہ

سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ پرندے اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے تیار تھے۔ جانے سے قبل وہ دائرے کی شکل میں پرواز کرتے ہوئے آزادی کا لطف لے رہے تھے۔ یکایک اُنھیں شرارت سوجھی اور وہ فضا میں تیزی سے قلابازیاں کھاتے ہوئے حیران کن انداز میں تیرنے لگے۔ اس حرکت میں حیران کن بات یہ تھی کہ ان سب کے ملاپ سے آسمان پر مختلف حروف تہجی بنتے جا رہے تھے۔ کبھی ’ب‘ بن جاتا، کبھی ’ج‘ تو کبھی بڑا سا ’ل‘۔ یوں مختلف حروف انتہائی دل چسپ انداز میں حرکت کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
اُنہی پرندوں میں زیٹو نام کا خوب پلا ہوا ایک کبوتر بھی موجود تھا۔ وہ سفید رنگ کے ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو کبوتروں کی ہر نسل پر راج کرتا ہے۔ دیگر کبوتروں کی نسبت اس خاندان کی خوب صورتی اور وضع قطع میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ فضا میں اُڑتے ہوئے زیٹو نے یکبارگی نیچے کی جانب دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ نیچے تو بہت ہی عجیب منظر تھا۔ وہ سب سے الگ ہوتے ہوئے تیزی سے زمین کی جانب بڑھا۔
”ارے زِیٹو! کہاں چل دیے؟“
رُوفی نے اُسے پکارا۔
”ابھی آیا دوست!“
زیٹو نے مختصر سا جواب دیا اور تیزی سے نیچے اُترنے لگا۔ روفی ماتھا سکیڑے اپنے دوست زیٹو کو یوں زمین کی جانب جاتا دیکھ رہا تھا۔
روفی، زیٹو کا گہرا دوست تھا۔ تھا تو وہ بھی ایک کبوتر ہی مگر اُس کا رنگ بالکل سیاہ تھا۔ پہلے پہل روفی اپنے سیاہ رنگ کی وجہ سے بہت پریشان رہتا تھا لیکن جب سے زیٹو اُس کا دوست بنا تھا، روفی خود کو اُسی کے خاندان کا حصہ سمجھنے لگا تھا۔
زیٹو نیچے اُتر رہا تھا اور پھر اُس نے اپنے قدم زمین پر ٹکا دیے۔ اب وہ مٹکتی چال چلتے ہوئے اُس منظر کے بالکل قریب پہنچ گیا اور ٹکٹکی باندھ کر عبیر کا اُداس چہرہ دیکھنے لگا۔
z
عبیر کی جیب خالی ہو چکی تھی۔ وہ اپنے ساتھ لائے سبھی کنچوں کو داؤ پر لگا چکا تھا۔ اب اُس کے پاس بس ایک ’اَنٹولا‘ (بڑا کنچہ) ہی بچا تھا۔ پھر اُس نے اپنے ’انٹولے‘ کے بدلے میں دو کنچے اُدھار لیے اور آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
اُس کا حریف دانش تھا، وہ عبیر کے اس فیصلے پر مسکرا کر رہ گیا۔ پھر بازی شروع ہوئی۔ ’پیڑی‘ یعنی زمین پر کھینچے گئے گول چکر کے عین مرکز میں چار کنچے ایک قطار میں رکھے گئے۔ پھر عبیر اور دانش نے نپے تلے انداز میں اپنے ’اَنٹولے‘ لڑھکا دیے۔ دونوں انٹولوں کا پیڑی کے چکر سے فاصلہ دیکھا گیا۔ عبیر کا اَنٹولا پیڑی کے زیادہ قریب تھا، اس لیے اُسے پہلے نشانہ لگانے کا موقع مل گیا۔ عبیر نے اپنی گردن ٹیڑھی کر کے نشانہ باندھا اور پوری قوت سے انٹولے کو کنچوں کی جانب اُچھال دیا۔ وہ کنچوں پر کسی توپ کے گولے کی مانند لپکا تھا۔ عبیر نے نشانہ لگاتے ہی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اگلے پل وہ ایک آنکھ کھول کر اپنے انٹولے کو دیکھ رہا تھا جو کنچوں سے سلام دعا کیے بغیر پیڑی سے خاصا دور جا چکا تھا۔ عبیر پر غصے اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت طاری ہو گئی۔ دانش نے عبیر کو اپنے پیلے پیلے دانت دکھائے، عبیر تو جل بھن کر رہ گیا۔ اُس کا دل چاہا کہ وہ انٹولے کو دانش کے دانتوں پر دے مارے مگر ایسا وہ صرف سوچ ہی سکتا تھا۔
پھر دانش نے نشانہ باندھ کر چوٹ لگائی اور وہ چوٹ تو جیسے سیدھی عبیر کے دل پر جا لگی۔ ’ٹھچ‘ کی آواز اُبھری تھی اور چار کنچوں میں سے دو ”ہائے ہائے!“ کرتے ہوئے پیڑی سے باہر بھاگ نکلے، جب کہ دانش کا انٹولا پیڑی کے اندر ہی لٹو کی مانند گھوم رہا تھا۔ عبیر کو اپنا سر بھی بالکل اسی طرح چکراتا ہوا محسوس ہوا۔ دانش نے ایک بار پھر اپنے میلے دانت نکالے اور دوبارہ نشانہ باندھا۔ تیسرا کنچہ بھی سر کی چوٹ برداشت نہ کر سکا اور فوراً باہر کی راہ لی۔ چوتھا کنچہ خوش قسمت تھا کہ اُسے بنا کسی چوٹ کے اُٹھا لیا گیا کہ یہی ’پیڑی‘ کھیل کا اصول تھا۔
دانش اب کھل کر قہقہے لگا رہا تھا جب کہ عبیر اپنے نچلے دانت پیچھے دھکیل کر دل ہی دل میں رو رہا تھا۔ اسی روتے دل کے ساتھ عبیر نے اپنا اَنٹولا دانش کے حوالے کر دیا۔ اِس سے آگے کا منظر زیٹو کی برداشت سے باہر تھا۔ وہ عبیر کے غم میں خود کو شریک محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ کاش! وہ عبیر کے لیے کچھ کر سکتا۔ وہ اُڑنے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ اُسے روفی دکھائی دیا۔
”روفی! تم کیوں نیچے چلے آئے؟“
زیٹو نے قدرے خفگی سے پوچھا۔
”مجھے لگا کہ تم کسی مشکل میں ہو اور مجھے تمھارے ساتھ رہنا چاہیے۔ کیوں آئے تھے نیچے اور منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟“
”روفی! تم تو جانتے ہی ہو کہ ہم کبوتروں میں راجا شمار ہوتے ہیں۔ ہم کسی کو مشکل میں دیکھتے ہیں تو اُس کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دیکھو نا! یہ بچہ کتنا اُداس بیٹھا ہے جب کہ دوسرا اِس کا درد نہیں سمجھ پا رہا۔ بس اپنی خوشی پہ ہنسے جا رہا ہے۔“
”ہاں زیٹو! میں نے بھی یہی محسوس کیا ہے مگر ہم اِس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟“
”جب یہ کھیل رہا تھا تو میں نے اندازہ لگایا کہ اس کی آنکھیں ایک جگہ فوکس نہیں رہ پاتیں۔ اسی لیے یہ صحیح نشانہ نہیں لگا سکتا۔“
”اوہ! اب پھر…… کیا کریں؟“
زیٹو کی باتیں سن کر روفی سوچ میں پڑ گیا۔
”روفی! تمھیں یاد ہے، جب ہم پچھلی گرمیوں میں نیلی جھیل کے کنارے کھیل رہے تھے تو ہمیں ایک گول سی چیز ملی تھی۔“
”ہاں! یاد آ گیا! عجیب سا پتھر تھا وہ، بالکل گول مٹول۔ ارے……ارے! مجھے سب یاد آ گیا۔ اُس کا رنگ گلے سڑے پتوں جیسا تھا۔“
”پھر تو تمھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ جب ہم اُس گول چیز کو غور سے دیکھ رہے تھے تو ہمیں بہت دور ایک خطرناک چیل نظر آئی تھی۔“
”ہاں، بالکل! وہ ہماری طرف ہی آ رہی تھی، ہم پر حملہ کرنا چاہتی تھی۔ اگر ہم نے اُسے پہلے دیکھ نہ لیا ہوتا تو اب تک ہماری ہڈیاں بھی غائب ہو چکی ہوتیں۔“
روفی یہ کہتے کہتے افسردہ سا ہو گیا۔
”ہاں، روفی! تم ٹھیک کہتے ہو، اُس گول چیز نے ہمیں حادثے سے بچا لیا تھا۔ شاید وہ عجیب سی چیز اس بچے کے کسی کام آ جائے۔“
”میں بھی یہی کہنا چاہتا تھا لیکن وہ تو ہم نے اُس چیل کے خوف سے وہیں پھینک دی تھی اور اب تو ویسے بھی شام ہو چکی ہے۔“
”ہاں! اب وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے، سویرے جلدی آ جانا میرے گھر ہی۔ پھر اسے تلاش کرنے جائیں گے۔“
”ٹھیک ہے، اب چلو…… دیکھو، سب پرندے کتنا آگے نکل گئے ہیں۔“
پھر وہ دونوں تیز تیز پر ہلاتے ہوئے باقی پرندوں سے جا ملے۔
z
تڑکا ہوتے ہی روفی، زیٹو کے گھر پہنچ گیا۔ زیٹو اُسی کا انتظار کر رہا تھا، پھر دونوں نے اللہ کا نام لیا اور نیلی جھیل کی جانب پرواز کر گئے۔ اونچے اونچے درختوں سے گزرتے ہوئے جلد ہی وہ نیلی جھیل تک پہنچ گئے۔ ایک جگہ چمک دیکھ کر روفی نے پوچھا:
”زیٹو! وہ جگہ اتنی چمکیلی کیوں ہے؟“
”روفی! سورج کی کرنیں پانی پر پڑ رہی ہیں، یہ چمک اسی وجہ سے ہے۔“
پھر دونوں جھیل کے اُسی کنارے پر پہنچ گئے جہاں انھیں وہ گول چیز ملی تھی۔ اُنھوں نے اپنے پنجوں اور چونچوں کی مدد سے اُس جگہ کو کریدنا شروع کر دیا۔ بہت دیر تک وہ اُس چیز کو تلاش کرتے رہے مگر اُنھیں کامیابی نہ ملی۔ اب دھوپ تیز ہو چکی تھی، انھوں نے جھیل کا پانی پیا اور ذرا سستانے کے لیے درختوں کی جانب اُڑ گئے۔ درختوں کے پھلوں سے ہی اُنھوں نے بھوک کا حل نکالا اور دم لینے کے لیے درمیانے سے ایک درخت کی شاخ پر بیٹھ گئے۔
”زیٹو! اگر ہمیں وہ چیز نہ ملی تو پھر کیا کریں گے؟“
”پریشان نہ ہو، نیت اچھی ہو تو منزل ضرور ملتی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اُسے ڈھونڈ نکالیں گے۔“
زیٹو کی بات سن کر روفی نے سر ہلا دیا، پھر اگلے ہی پل وہ چیخ اُٹھا۔
”روفی! یہ دیکھو!“
اُس نے زیٹو کی توجہ ایک گھونسلے کی جانب دلائی۔ اُس گھونسلے میں تین انڈے تھے۔ اُن تینوں میں ایک انڈا رنگ اور جسامت کے لحاظ سے مختلف تھا۔ باقی انڈے قدرے سرمئی رنگ کے تھے جب کہ وہ آبنوسی رنگ میں نہایا ہوا تھا۔ زیٹو نے آگے بڑھ کر اُ س انڈے کو ہولے سے ٹھونگ لگائی۔
”اوئی! چونچ ہل گئی یار! یہ تو انڈا نہیں ہے۔“
یہ سن کر روفی نے بھی اپنا سر آگے کیا۔
”ارے! کہیں یہ وہی عجیب چیز تو نہیں؟“
روفی نے پنجے میں مضبوطی سے پکڑ کر کہا اور پھر آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ بہت اونچائی پر اُسے ایک جہاز اُڑتا ہوا دکھائی دیا۔ جہاز میں کھڑکی کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر اُسے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ اُس نے زیٹو کو بھی موقع دیا۔
”شکر ہے خدایا! یہ وہی ہے روفی!“
زیٹو نے پرجوش انداز میں کہا۔ ”چلو! اب جا کر یہ اُس بچے تک پہنچا آتے ہیں۔“
”ہاں، زیٹو……چلو!“
روفی نے بھی خوشی سے نعرہ لگایا، پھر دونوں تیزی سے اُڑتے ہوئے اُسی جگہ پہنچ گئے جہاں انھیں گذشتہ روز اُداس لڑکا دکھائی دیا تھا۔ وہاں اُنھیں کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ جب فضا میں تپش کم ہوئی تو بچے گھروں سے کھیلنے کے لیے نکل آئے۔ اُن بچوں میں عبیر اور دانش بھی شامل تھے۔ دانش اُچھلتا کودتا میدان کی طرف بڑھ رہا تھا جب کہ عبیر منہ لٹکائے سست قدموں سے چل رہا تھا۔ اسی لیے وہ دانش سے تھوڑا پیچھے تھا۔ وہ اس سوچ میں گم تھا کہ آج ہارنے سے کیسے بچ سکوں گا کہ اچانک کوئی سخت سی چیز اُس کے سرسے ٹکرائی۔ ”کٹک‘ کی آواز پیدا ہوئی تھی۔ روفی اور زیٹو نے اُس عجیب چیز کو فضا میں سے ہی نیچے پھینک دیا تھا اور وہ سیدھی عبیر کے سر میں جا لگی تھی۔ عبیر اپنا سر ملتا ہوا اُس سخت چیز کو اِدھر اُدھر ڈھونڈنے لگا۔
”یہ تو اَنٹولا ہے، عجیب سا مگرکتنا خوب صورت!“
وہ بڑبڑایا اور پھر اُس نے جھک کر آبنوسی رنگ کا بڑا کنچہ اُٹھا لیا۔
”عبیر! کیا چن رہے ہو؟آؤ نا جلدی!“
دانش نے چلا کر کہا۔ عبیر خاموشی سے چلتا ہوا اُس کے پاس پہنچ گیا۔
دانش نے چھوٹی سی لکڑی کی مدد سے پیڑی بنائی۔ عبیر سے دو کنچے لے کر اُس نے پیڑی کے عین مرکز میں کل چار کنچے ایک ساتھ رکھ دیے۔ پھر دونوں نے انٹولے لڑھکا دیے۔ عبیر کا انٹولا پیڑی کے زیادہ قریب تھا، چناں چہ وہ نشانہ لگانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اُس نے آبنوسی رنگ کا کنچہ پکڑا اور گردن ٹیڑھی کر کے نشانہ باندھا۔ ”ٹھچ“ کی آواز اُبھری اور چاروں کنچے پیڑی سے باہر جا اُڑے۔ دانش اس کے لیے بالکل تیار نہ تھا، اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
”نہیں، نہیں …… یہ تمھارا تُکا لگا ہے۔ لاؤ دو کنچے!“ وہ بے صبری سے بولا۔
اگلی بازی پھر سے عبیر جیت گیا۔ شام ڈھلنے سے ذرا پہلے ہی دانش کے سارے کنچے ختم ہو چکے تھے۔ اُس نے غصے سے خالی ڈبہ عبیر کی طرف اُچھال دیا۔ عبیر ابھی تک خاموش تھا بلکہ وہ تو حیران تھا کہ یہ سب ہوا کیسے! اُس نے سارے کنچے ڈبے میں ڈالے اور دانش کی جانب دیکھا۔ وہ اب اتنا دور جا چکا تھا کہ اُس کی دھندلی سی شبیہ دکھائی دے رہی تھی۔ عبیر نے آبنوسی رنگ کا کنچہ سامنے لا کر اُس میں دانش کو دیکھا۔ اب وہ بالکل صاف دکھائی دیا۔ پھر اُس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ پرندے مختلف حروف تہجی بناتے ہوئے پرواز کر رہے تھے۔ ’ت‘ کے نقطوں میں اُسے دو کبوتر دکھائی دیے۔ اس جادوئی کنچے کی مدد سے وہ یہ تک محسوس کر رہا تھا کہ ایک کبوتر کالے رنگ کا ہے جب کہ دوسرا سفید ہے۔ پھر وہ ڈبہ ہلاتا ہوا گھر کی جانب چل دیا۔
اگلے پانچ دنوں میں دانش بہ مشکل دو بازیاں جیت پایا تھا۔ وہ پریشان تھا کہ عبیر کے ہاتھ ایسا کون سا جادو آ گیا ہے جس سے اس کا نشانہ سیدھا ہو گیا ہے۔ اسی کھوج میں ایک دن اُس نے وہ راز پا ہی لیا۔ اُس دن وہ جان بوجھ کر میدان میں دیر سے آیا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ عبیراپنی آنکھوں کے سامنے ایک کنچہ رکھ کر آسمان پر موجود ایک راکٹ جہاز کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ دبے قدموں چلتا ہوا اُس کے پاس پہنچا اور پھر حیران رہ گیا۔
”یہ تو وہی کنچہ ہے جس سے عبیر نشانہ لگاتا ہے۔“ اُس نے دل میں سوچا اور اگلے ہی پل اُس نے عبیر سے جادوئی کنچہ جھپٹ لیا۔ اِس سے پہلے کہ عبیر کچھ جدو جہد کرتا، دانش نے اپنا بازو گھما کر پوری قوت سے جادوئی کنچے کو دور پھینک دیاجہاں بڑی بڑی گھاس اور چند جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ عبیر تو جیسے پاگل ہی ہو گیا۔ وہ دوڑ کر اُس جانب گیا اور کنچہ ڈھونڈنے لگا۔ دانش نے اُسے کھیلنے کے لیے کئی آوازیں دیں مگر عبیر نے پلٹ کر دیکھا بھی نہیں۔ جادوئی کنچے کو تلاش کرتے کرتے اُس نے اپنے ہاتھ بھی زخمی کر لیے تھے مگر کنچہ مل کر نہ دیا۔ اب شام ڈھل رہی تھی، بالآخر وہ بجھے دل کے ساتھ گھر واپس آ گیا۔
عبیر اُس رات سکون سے سو نہ سکا۔ اُسے رہ رہ کر جادوئی کنچے کا خیال آ رہا تھا۔ وہ سوچتا رہا کہ اب میں دانش سے کیسے جیت سکوں گا۔ دوسری جانب دانش کے لیے بھی سونا مشکل تھا۔ وہ بہت خوش تھا اور اگلے دن کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔
اگلے روز دانش، عبیر کو بلانے اُس کے گھر پہنچ گیا۔ایسا پہلی بار ہوا تھاکیوں کہ دانش جانتا تھا کہ آج عبیر کھیلنے نہیں آئے گا۔ عبیر نے پہلے تو ٹال مٹول کی لیکن دانش نے اُسے کسی طرح آمادہ کر ہی لیا اور پھر وہ کھیلنے کے لیے چل نکلے۔
دانش نے جلدی سے پیڑی بنائی،پھر اُسی پھرتی سے مرکز میں کنچے جوڑ دیے۔ آج اُس نے تین کا جوڑا یعنی چھ کنچے ایک قطار میں رکھے تھے۔ جب اَنٹولے لڑھکائے گئے تو دانش نے جوش کے مارے زیادہ زور لگا دیا، اس لیے اُس کا اَنٹولا دور جا کر رُکا۔ عبیر کی پہلی باری آئی، اُس نے گردن ٹیڑھی کی اور نشانہ باندھنے لگا۔ اُس نے محسوس کیا کہ آج اُس کی آنکھیں زیادہ جھپکنے کی بجائے ایک جگہ پر مرکوز تھیں۔ پھر اُس نے اَنٹولے کو زورسے پیڑی کے مرکز میں اُچھال دیا۔ ”ٹھچ“ کی آواز اُبھری اور درمیان کے دو کنچے ”ہائے ہائے“ کرتے ہوئے باہر بھاگ نکلے جب کہ عبیر کا اَنٹولا پیڑی کے مرکز میں ہی تیزی سے گھومنے لگا۔ یہ منظر دیکھ کر دانش کا دماغ بھی اسی تیزی کے ساتھ گھوم رہا تھا۔ ہفتہ بھر کی مشق کے بعد عبیر نشانہ باندھنا سیکھ چکا تھا۔ اب اُسے کسی جادوئی کنچے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ آنے والے دنوں میں وہ دانش کے لیے ایک مشکل حریف ثابت ہونے والا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں