62

سرجیکل سٹرائیک

تحریر:علی اکمل تصور

یہ ایک انتہائی حساس علاقہ تھا۔ یہاں چڑیا کو بھی پھڑکنے کی اجازت نہیں تھی۔ چاروں طرف باوردی فوجی جوان پہرہ دے رہے تھے۔
ایک سیاہ رنگ کی گاڑی بیرونی دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ اُس گاڑی میں بس ایک ہی آدمی موجود تھا۔ گاڑی وہ خود ہی چلا رہا تھا۔ اُس کی شناخت ملتے ہی پہرہ داروں نے اُسے سلامی دی اور بیرونی دروازہ کھول دیا۔ اب گاڑی عمارت کے اندر داخل ہوئی۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ آدمی عمارت میں داخل ہوا۔ چند فوجی جوان اُس کی رہنمائی کر رہے تھے۔ وہ اُسے ایک کمرے میں لے آئے۔ یہاں ایک لفٹ موجود تھی۔ وہ آدمی لفٹ میں داخل ہوا اور لفٹ چل پڑی۔ وہ آدمی محسوس کر سکتا تھا کہ لفٹ نیچے جا رہی ہے۔ لفٹ رکی،دروازہ کھلا، اُس کا استقبال ایک فوجی نے کیا۔
”آپ وقت پر آئے، اِس کے باوجود آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔“
وہ مسکرایا اور آگے بڑھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُسے کہاں جانا ہے۔ یہ ایک زمین دوز خفیہ کمرہ تھا۔ وہ دو ایک بار پہلے بھی یہاں آ چکا تھا۔ یہاں ملکی سلامتی کے حوالے سے حساس میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ کمرے میں چار افراد اُس کا انتظار کر رہے تھے۔ اُن میں سے ایک ائیر فورس کا چیف تھا۔ باقی سیاست دان تھے۔
”آؤ موہن چند، بیٹھو! کل ہونے والا اہم مشن تم مکمل کرو گے۔“
موہن چند کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب ائیر چیف بولا:
”ہمیں خبر ملی ہے کہ سرحد کے اُس پار گاؤں میں ایک مدرسہ ہے۔ اُس مدرسے میں بچے اس کلام کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جو اُن کے پیغمبر پر اُترا ہے۔ یہی بچے بڑے ہو کر فوجی اور مجاہد بنتے ہیں۔ اُن سب کو آج ہی مار دینا بہتر ہے۔ ورنہ کل کو یہ ہمارے لیے، ہمارے ملک کے لیے مصیبت کا باعث بنیں گے۔“
تم صبح سویرے اپنے جنگی جہاز میں اُڑان بھرو گے اور اُس مدرسے پر آگ برسا کر واپس لوٹ آؤ گے۔“ اُسے اس کے مشن کے متعلق بتایا گیا۔
موہن داس زیر لب مسکرایا۔
”آسان کام ہے، ہو جائے گا۔“
”دشمن کے رے ڈار سے ہوشیار رہنا۔“ ایک سیاست دان نے لقمہ دیا۔
”فکر مت کریں، یہ میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔“ موہن کے لہجے میں غضب کا اعتماد تھا۔
پھر ایک ایک کر کے سب وہاں سے رخصت ہو گئے۔ اب موہن پو پھٹنے کا انتظار کر رہا تھا۔
پھر نئی صبح کا آغاز ہوا۔ موہن چند نے اپنے جنگی طیارے میں پرواز بھری۔ اب وہ نیچی پرواز کرتا طوفانی رفتار میں پاکستانی سرحد کی طرف آ رہا تھا۔ اُس کے خیال میں اُس کا کام لمحہ بھر کا تھا۔ اِس سے پہلے کہ پاکستانی فضائیہ کے جوان ہوشیار ہوتے، وہ مدرسے پر بم گرا کر واپس لوٹ جاتا۔
یہ ایک سرجیکل سٹرائیک تھی اور ایسی سٹرائیک میں وہ خود کو ماہر تصور کرتا تھا۔
آن کی آن میں وہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو گیا۔ نیچے اُسے سرسبز درخت نظر آ رہے تھے۔ پھر اُس نے مدرسے کی عمارت دیکھ لی۔ وہ بندوق سے نکلی گولی کی مانند مدرسے کی طرف بڑھا۔ اچانک اُسے خوف محسوس ہوا۔ اُس کی نظروں کے سامنے طیارے کا کی بورڈ موجود تھا۔ اُس کی بورڈ کی اسکرین پر وہ ایک اشارہ اپنی طرف بڑھتے دیکھ رہا تھا۔
”یہ کیا ہو سکتا ہے؟“ اُس نے سوچا۔ گھبراہٹ میں اُس نے ایک بٹن دبا دیا۔ بم کی بجائے اُس کے طیارے میں موجود ایندھن کا ڈرم نیچے گر پڑا۔ اُس نے طیارے کا رخ موڑا۔ جانے کیوں اُسے اپنی موت نظر آ رہی تھی اور وہ جینا چاہتا تھا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ پاک فوج نے زمین سے فضا میں وار کرنے والا میزائل داغا تھا۔ موہن کا طیارہ اُس میزائل کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔ اب موہن کے پاس بس ایک ہی راستہ تھا۔ اُس نے طوفانی انداز میں ایک بٹن دبایا۔ دوسرے ہی لمحے ایک جھٹکے سے اُس کی کرسی طیارے میں سے باہر نکل گئی۔ وہ دیکھ رہا تھا۔ اُس کا طیارہ میزائل کی زد میں آ کر ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ اُس نے اپنی کمر پر سے بیلٹ ہٹائی اور کرسی سے الگ ہو گیا۔ اب وہ ہوا میں چکر کھا رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ ِاس وقت وہ کہاں ہے۔ پھر اُس نے اپنا پیراشوٹ کھول دیا۔ اب وہ رفتہ رفتہ زمین کے قریب ہو رہا تھا۔ نیچے درخت اور سرسبز میدان موجود تھا۔ اُس نے میدان میں اُترنے کی کوشش کی مگر ہوا کے رخ نے اُس کا پیراشوٹ ایک طویل قامت درخت کے ساتھ الجھا دیا۔ اُس نے حنجر کی مدد سے پیراشوٹ کی رسیاں کاٹ دیں اور پھر درخت سے نیچے اُتر آیا۔ اب جو اُس نے دیکھا تو ایک نوعمر لڑکا اُسے تاڑ رہا تھا۔ اُس لڑکے کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا بھی موجود تھا۔ اُس لڑکے کے آس پاس بہت سی بکریاں اور بھیڑیں چراگاہ میں گھاس پھوس پر منہ چلا رہی تھیں۔
”کون ہو تم؟“ موہن داس نے اُس لڑکے کی طرف اپنا پستول سیدھا کر لیا۔
”میں رام ہوں اور میں ایک گڈریا ہوں۔“ وہ لڑکا اطمینان سے بولا۔
”میں اِس وقت کہاں ہوں؟“ موہن نے اطمینان کا سانس لیا۔
”آپ اِس وقت اپنے ہی ملک میں موجود ہیں۔“ لڑکے نے موہن داس کی وردی پر بنے ترنگے کی طرف اشارہ کیا۔
”بہت خوب! تمھارا نام سن کر مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں اپنے ہی ملک میں ہوں اور یہ بہت اچھی بات ہے ورنہ مصیبت ہو جاتی۔“ اب موہن مطمئن نظر آ رہا تھا۔ اُس نے اپنا پستول بھی جیب میں رکھ لیا تھا۔
”جب آپ پیراشوٹ کی مدد سے نیچے اُتر رہے تھے تب ہی میں نے آپ کو دیکھ لیا تھا۔ میں آپ کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ آپ ہمارے ملک کی شان ہیں۔ یہ ملک جوان اور کسان پر ہی تو چل رہا ہے۔“ وہ لڑکا پرجوش لہجے میں بولا۔
”خوب…… بہت خوب!“ اُس لڑکے کی گفتگو سن کر موہن داس کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا۔
”یقینا آپ کوئی مشن مکمل کر کے یہاں تک پہنچے ہیں۔ میرے ساتھ میرے گھر چلیں،پہلے کچھ کھا پی لیں۔ پھر اپنی اگلی منزل کی طرف سفر کیجیے گا۔“
”اچھی بات ہے۔“ موہن داس رضامند ہو گیا۔ وہ اپنے ملک میں ہی تو تھا تو پھر خوف کس بات کا!
وہ لڑکا موہن کو اپنے گھر لے آیا۔ گھر میں اُس لڑکے کی بوڑھی دادی موجود تھی۔
”کون ہے بیٹا؟“ دادی جان نے کپ کپاتے ہوئے پوچھا۔
”مہمان ہے دادی جان۔“ اُس لڑکے نے دادی جان کو جواب دیا۔
”آپ ہاتھ منہ دھو لیں،میں کھانا تیار کرتا ہوں۔“ وہ لڑکا چولہے کے پاس بیٹھ گیا۔
”تمہارے والدین کہاں ہیں؟“ موہن نے سوال کیا۔ وہ لڑکا اُداسی سے بولا:
”آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارا پڑوسی ملک کتنا ظالم ہے۔ اکثر ہمارے گاؤں پر گولہ باری کرتا ہے۔ ایسی ہی گولہ باری میں میرے والدین مر گئے۔“
”افسوس ہوا! اِن پاکستان والوں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں!“
موہن نے اُسے دلاسا دیا اور پھر ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔ اُس لڑکے نے بڑا لذیز کھانا بنایا تھا۔ موہن نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ اب موہن کو نیند آ رہی تھی۔ وہ سستانے کے لیے اُسی چارپائی پر لیٹ گیا۔ لیٹنے کی دیر تھی کہ اُس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ سو رہا تھا کہ ایسے میں کسی نے اُسے جھنجھوڑا۔ موہن داس سمجھا کہ یہ کوئی خواب ہے۔ وہ کسمسا کر رہ گیا۔ پھر اُس پر کسی نے پانی پھینک دیا۔
”کک ……کون ہے؟“ وہ ابھی تک نیند میں تھا۔
”اُٹھو!یہ ہم ہیں۔“
موہن داس نے کن اکھیوں سے دیکھا اور پھر تو جیسے اُس کی جان ہی نکل گئی ہو۔ وہ اُس وقت پاک فوج کے گھیرے میں تھا۔
”تو کیا…… اس لڑکے نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے؟“ موہن داس گڑبڑا کر رہ گیا۔
”دھوکا نہیں،دفاع!“ پاک فوج کا آفیسر مسکرایا۔
”دراصل تم سرحد کے اِس طرف ہی گرے تھے،پاکستان میں۔ اگر یہ لڑکا حاضر دماغی سے کام نہ لیتا تو تم اِس کے علاوہ معصوم گاؤں والوں کو بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ اِس لڑکے نے تمھارے کھانے میں اپنی دادی کی نیند لانے والی دوا شامل کر دی تھی۔ اِس لڑکے نے تم لوگوں سے اپنے والدین کی شہادت کا بھی انتقام لیا ہے اور سنو!“ آفیسر بات کرتے ہوئے رکا۔
”کیا؟“ موہن داس مایوسی سے بولا۔
”پاک فوج کے جوان ہی نہیں، بچے بھی اِس پاک وطن کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔“
موہن داس کا سر جھک گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُس نے بھی اِس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں