75

پانچ انگلیاں ___ عاطف حسین شاہ

چاروں سہیلیاں آج ایسے گم صم بیٹھی تھیں،جیسے کسی گہری سوچ میں غرق ہوں۔ اُن کے چہرے مسلسل اُداس رہنے کی وجہ سے مرجھا سے گئے تھے۔ بیتے لمحوں کو یاد کر کر کے وہ جی ہلکان کر رہی تھیں۔ وہی لمحے جب عروج بھی اُن کے گروپ کا حصہ تھی۔ ہنستے کھیلتے وقت جس برق رفتاری سے گزر جاتاتھا، اس پر اکثر وہ خودبھی حیران رہ جایا کرتی تھیں۔ اب انھیں عروج کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ اُس کے بغیر انھیں ایک ایک پل بے چین کرنے لگا تھا۔
سب سے بڑی فضہ سستی کا نمونہ تھی، ثانیہ ذہانت کی مثال تھی، حجاب اپنے نام کی مناسبت سے بے حد شرمیلی تھی جب کہ ایمان ان سب میں میسنی تھی۔ یہ چاروں سہیلیاں آپس میں ہر وقت چپکی رہتی تھیں۔ کھانا،پینا اور سکول کی سرگرمیاں مل کر کرنا انھیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ایک مرتبہ ایمان کو ایسا بخار ہوا کہ وہ پورا ہفتہ سکول نہ آ سکی۔ فضہ،ثانیہ اور حجاب نے وہ ہفتہ تو جیسے کانٹوں پر گزارا۔ ایمان کے ٹھیک ہونے ہونے پر تینوں نے اپنے اپنے جیب خرچ سے ایک چھوٹی سی پارٹی کا اہتمام کیا۔
وقت گزرتا گیا اور پھر ایک اور لڑکی ان کے گروپ کا حصہ بن گئی۔اُس کا نام عروج تھا اور وہ والدین کے تبادلہ کی وجہ سے اُن کے سکول میں داخل ہوئی تھی۔ عروج کی طبیعت میں مزاح بہت تھا۔ اُس کے چٹکلوں پر چاروں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جایا کرتیں۔ عروج بہت جلد اُن میں گھل مل سی گئی تھی۔اب وہ چار سے پانچ ہو گئی تھیں۔رفتہ رفتہ انھیں احساس ہوا کہ اُن کی چیزیں غائب ہونے لگی ہیں۔ کبھی رنگوں والی ڈبیاتو کبھی کھانے والی چیزیں جادوئی انداز میں نظروں سے اوجھل ہوجایا کرتی تھیں۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ایک دن حجاب نیا جیومیٹری باکس لائی تھی۔وہ بہت خوب صورت اور قیمتی جیومیٹری باکس تھا۔اچانک اُس کے غائب ہونے پر سب پریشان ہو گئیں۔ پھر وہ سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔
”ایسا کون کر سکتا ہے؟ہمیں جس چیز کی ضرورت ہو،مانگ لیتی ہیں….پھر چور کون ہے؟“
ایمان نے بات کا آغاز کیاتھا۔
”میرا خیال ہے،کلاس کی تلاشی لی جائے۔“ ثانیہ نے مشورہ دیا۔
”نہیں نہیں،ایسے سب کا دل دکھے گا کہ ہم نے خواہ مخواہ شک کیا۔“ فضہ نے یہ کہا تو عروج نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ مگر ثانیہ اڑ گئی تھی۔وہ کسی بدگمانی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی۔ پھر کلاس کی تلاشی لی گئی مگر جیومیٹری باکس نہ ملا۔ پوری کلاس سراپا احتجاج ہو گئی کہ اب ان پانچوں کے بستوں کی بھی تلاشی لی جائے۔ عروج کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ جب عروج کے بستے کی باری آئی تو اُس نے کافی مزاحمت کی مگر ثانیہ نے بستہ کھول دیا۔ عروج کے بستے سے جیومیٹری باکس برآمد ہو گیا۔ چاروں کوعروج کی اِس حرکت پر بہت دکھ ہوا تھا۔ انھوں نے عروج سے بات چیت کرناچھوڑ دی۔
کچھ دن تو عروج پریشان رہی مگر پھر اسی ڈگر پر چل پڑی۔ اب وہ دیگر جماعتوں سے چیزیں چرانے لگی تھی۔ اُس کی یہ عادت پورے سکول کے سامنے آ گئی تھی۔ بالآخر اُسے سکول سے نکال دیاگیا۔ چاروں سہیلیاں عروج کو جاتا دیکھ کر دل ہی دل میں شکر ادا کر رہی تھیں۔
چند دنوں پر چھایا خوشی کایہ احساس جلد ہی ختم ہو گیا۔ اب وہ چاروں پریشان رہنے لگی تھیں۔یوں لگتا تھا کہ جیسے اُن کے پاس کرنے کو کوئی بات ہی نہیں اورکھیلنے کو کوئی کھیل ہی نہیں ہے۔ہنسی تو اُن سے روٹھ ہی گئی تھی۔ وہ پھر سے سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔
”ہمیں عروج کو روکنا چاہیے تھا۔“ ہربار کی طرح ایمان نے بات کا آغاز کیا۔
”ہاں یار! ہم مل کر کوشش کرتیں تو اُس کی عادت چھڑائی جا سکتی تھی۔ ہم نے کوشش ہی نہیں کی….!“ ثانیہ پچھتائے ہوئے لہجے میں بولی۔ فضہ اور حجاب بھی اپنے ہاتھ مل رہی تھیں۔پھر حجاب بولی:
”ہم چڑیوں کو کھیت نہیں چگنے دیں گی۔“
”کیا مطلب…؟“ فضہ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔
”ارے پگلی! وہ محاورہ نہیں سنا؟ ’اب پچھتائے کیا ہوت،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘ ابھی بھی وقت ہے،ہم عروج کو واپس سکول لائیں گی۔اُس کی چوری والی عادت کا خاتمہ کریں گی۔“ حجاب پرعزم لہجے میں بولی۔
”کیا وہ مان جائے گی؟“ فضہ اب بھی بے یقینی میں تھی۔
”کیوں نہیں مانے گی! میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ اپنے کان قریب لاؤ۔“ ثانیہ نے سب کو ترکیب بتائی اور سب کے چہرے امید سے کھل اُٹھے۔
روزے اپنے اختتام کی جانب رواں دواں تھے اور عید کی آمد بالکل قریب تھی۔ چاروں سہیلیوں کو اسی موقعے کا انتظار تھا۔ پھر وہ موقع آ گیا۔ منصوبے کے مطابق چاروں نے ایک جیسا لباس پہنا تھا جس کے پیچھے مخبری شامل تھی۔ ہاتھوں میں تھالیاں اٹھائے وہ عروج کے گھر پہنچ گئیں۔ میٹھی عید کے موقعے پر چاروں الگ الگ میٹھی ڈش لائی تھیں۔ جب وہ گھر پہنچیں تو عروج نے بھی اسی رنگ کا جوڑا پہن رکھا تھا۔ چاروں دھیرے سے مسکرائیں اور پھر عروج کے سر پر پہنچ گئیں اور چیختے ہوئے بولیں:
”عید مبارک!!!“
عروج حیرت سے اچھل پڑی۔اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔اُن سے بچھڑ کر وہ خود بھی تواُداس تھی،سو دیکھتے ہی خوشی سے نہال ہو گئی۔
”خیر مبارک!“
عروج نے جواب تو دیا تھا مگر اُس کا لہجہ ندامت سے بھرپور تھا۔
”اچھا چھوڑو،یہ دیکھو….!“
ثانیہ نے کھیر اُس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔فضہ نے بھی زردہ چاول سامنے رکھ دیے۔حجاب نے سویاں پیش کیں۔ ایمان نے میووں سے سجے ہوئے حلوے کا دیدار کرایا تو عروج خوشی کے مارے جھینپ سی گئی۔چاروں سہیلیوں نے اپنے ہاتھوں سے الگ الگ تھالیوں میں سے عروج کو کھلایا۔
عروج نے اُن کا بہت شکریہ ادا کیا۔فضہ،حجاب،ثانیہ اور ایمان کو اِس بات پر یقین تھا کہ وہ محبت کی طاقت سے عروج کی بری عادت کا خاتمہ ضرورکر لیں گی۔عروج کے گھر ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔اب وہ پھر سے پانچ ہو گئی تھیں۔بالکل ایسے ہی جیسے ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہوتی ہیں جو برابر تو نہیں ہوتیں مگر اتحاد کی عمدہ مثال ہوتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں