66

پکھی۔۔۔علی اکمل تصور

کرمو کے ہاتھوں میں کلہاڑی موجود تھی۔ کلہاڑی کی دھار دھوپ میں چمک رہی تھی۔ آج وہ فیصلہ کر کے آیا تھا کہ روز کی اس مصیبت سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لے گا۔ گاؤں میں اس نے ٹال والے سے بات کر لی تھی۔ وہ بدلے میں پرکشش رقم دینے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ اس نے اداسی سے جامن کے درخت کی گھنی شاخوں کی طرف دیکھا پھر بولا:
”بے کار ہو تم۔“
کلہاڑی کے دستے پر اس کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ کلہاڑی کو مخالف سمت میں لے گیا اور پھر اس نے ایک بھرپور ضرب درخت کے تنے پر لگائی۔ کلہاڑی کا پھل درخت کے تنے میں پیوست ہو گیا۔ پھر جانے کیا ہوا، اسے زور کا جھٹکا لگا۔ کلہاڑی کا دستہ اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ وہ نیچے گر پڑا۔ اسے تیز بدبو کا احساس ہوا۔ یوں محسوس ہوا جیسے ایک انجان طاقت اس پہ حاوی ہونے کی کوشش کر رہی ہو۔ وہ اپنی کلائیوں کے دم پہ رینگتے ہوئے آگے بڑھا۔ پھر اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور پھر وہ گرتے پڑتے بھاگنے لگا۔ سرد ہوا اس کے تعاقب میں تھی۔ اس نے میدان عبور کیا۔ سامنے سڑک تھی۔ وہ سنبھل ہی نہیں پایا۔ ایک تیز رفتار کار اسے ہوا میں اچھالتی آگے بڑھ گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور سر بھی زخمی ہے۔ اس کے پاس اس کے اپنے موجود تھے مگر وہ کسی اپنے بیگانے کو اس جھٹکے اور اپنی گھبراہٹ کے متعلق بتا نہیں پایا۔ اس کے کچھ نہ بتانے کے باوجود گاؤں کے سیانے اس کی حالت دیکھ کے ہی سمجھ گئے تھے کہ ماجرا کیا ہوا ہو گا۔ بات سے بات نکلتی چلی گئی اور یوں دھیرے دھیرے جامن کا یہ درخت ایک آسیبی درخت کے طور پہ مشہور ہو گیا۔ یہ شہرت ایسی غلط بھی نہ تھی کیونکہ جامن کے اس درخت پہ بھوتوں کی ایک پکھی بسیرا کیے ہوئے تھی۔ پکھی خاندان کو کہتے ہے۔ جامن کے اس درخت کو کبھی پھل نہیں لگتا تھا اور پھل نہ لگنے کی وجہ اس پکھی کی نحوست تھی۔ اس درخت کا مالک کرمو اپنی طرف سے پوری دیکھ بھال کرتا۔ وقت پہ پانی دیتا۔ سبز کھاد کا استعمال کرتا اور پھر برسات سے پہلے وہ امید کرتا کہ اب پھل آئے گا۔ برسات آ کے گزر جاتی مگر پھل نہ آتا۔ اکتا کے اس نے درخت کاٹ کے لکڑی فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس روز وہ کلہاڑا لے کر آیا تھا مگر پھر اس پکھی کی نحوست کا شکار ہو گیا۔ بھوتوں کی یہ پکھی اب اپنی زندگی کے خوش و خرم دن گزار رہی تھی کیونکہ آسیبی درخت کے خوف سے کوئی انسان اس طرف نہیں آتا تھا اور یوں اس پکھی کے سکون میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا تھا۔
اس پکھی کے سربراہ کا نام جندالی تھا۔ وہ ایک مکروہ شکل بھوت تھا۔ لمبے اور الجھے بال، پکوڑا ناک، بڑے بڑے کان اور میلے نوکیلے دانت باہر کو نکلے ہوئے۔ اس کی بیوی کا نام ناوی تھا۔ یہ بھی اپنے شوہر کی طرح میلی کچیلی تھی۔ لمبے ناخن، طوطے کی چونچ جیسی ناک…… ان کے تین بچے تھے۔ کولی، مولی اور شولی…… تینوں ہی شیطان کے پرکالے تھے۔ سارا دن درخت کی شاخوں پہ الٹا لٹکے رہتے۔ ناوی تمام رات اپنے بچوں کو ہذیان بکتی اور بھوک مٹانے کے لیے گندگی کی تلاش میں رہتی جبکہ جندالی اونگھتا رہتا اور جب اسے بھوک لگتی تو وہ ہڈیوں کی تلاش میں نکل جاتا۔
ایک روز انہوں نے میدان میں شوروغل کی آوازیں سنیں۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ نزدیکی شہر سے نوعمر لڑکے یہاں کرکٹ میچ کھیلنے آئے تھے۔ کھیل کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ ان کے جوش میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ ایسے میں بلے باز نے ایک زور دار ہٹ لگائی۔ گیند ہوا میں پرواز کرتا جامن کے درخت کی شاخوں سے الجھتا زمین پر آ گرا۔ گیند کے تعاقب میں ایک لڑکا دوڑتا ہوا درخت کے پاس آیا۔ دوڑتے ہوئے اس لڑکے کے سنہری بال ہوا کی لہروں پہ جھوم رہے تھے۔ اس کے نین نقش تیکھے تھے اور آنکھیں نیلی تھیں۔ اس لڑکے کو دیکھ کر ناوی سب کچھ بھول گئی۔
”دیکھو تو یہ لڑکا کتنا خوبصورت ہے۔“ اس نے جندالی کو ٹہوکا۔
”اتنا خاص بھی نہیں ہے۔“ جندالی بے زاری سے بولا۔
”بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں اس لڑکے کے ساتھ ہی رہوں گی۔“ اس نے جیسے جندالی کو حکم دیا ہو۔
”مرضی ہے تمہاری۔“ جندالی فوراََ ہی رضا مند ہو گیا۔ اتنے میں وہ لڑکا گیند اٹھا کر واپس بھاگ گیا۔
”سب تیار ہو جاؤ…… ہم یہاں سے کوچ کرنے والے ہیں۔“ ناوی نے نیا حکم جاری کیا۔ اب ان سب کی نظریں اس لڑکے پہ جمی ہوئی تھیں۔ بلے باز اسی ہاتھ کھیلنے کا عادی تھا۔ اس مرتبہ بھی اس نے جامن کے درخت کی طرف ہی ہٹ لگائی تھی۔ وہ لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور گیند اٹھانے کے لیے جھکا۔ اسی پل پکھی اس لڑکے پر سوار ہو گئی۔ لڑکے کے اعصاب اچانک ہی جواب دے گئے تھے۔ وہ خود کو تھکا تھکا محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ پاؤں گھسیٹتے ہوئے اپنے دوستوں کے پاس پہنچا اور گیند ان کی طرف اچھالتے ہوئے بولا:
”میری طبیعت خراب ہے…… میں گھر واپس جا رہا ہوں۔“
”رک جاؤ شانی! کھیلو مت…… یہیں آرام کر لو۔“ ٹیم کے کپتان نے اسے آواز دی۔
”نہیں! گھبراہٹ ہو رہی ہے، چکر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر سے دوا لیتا ہوں۔“ شانی رکا نہیں۔ وہ بوجھل قدموں سے چلتا رہا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ اچانک اسے کیا ہو گیا ہے۔ اس نے اپنی پیشانی کو چھو کر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کی۔
”لگتا ہے کہ بخار ہو رہا ہے۔“ یہ خود کلامی تھی۔ جب وہ گھر پہنچا تو ابو جان اس کی کیفیت دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ وہ اسے نزدیکی ڈاکٹر کے پاس لے آئے۔ ڈاکٹر نے شانی کا اچھی طرح چیک اپ کیا اور پھر بولا:
”مقبول صاحب! بظاہر تو بچے کو بخار ہے مگر بخار کس وجہ سے ہے یہ میں سمجھ نہیں پایا۔ دوا دیتا ہوں، ساتھ ہی ٹیسٹ بھی کروا لیں۔“
ڈاکٹر نے شانی کے خون کا نمونہ لے لیا اور ابو جان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان کی اپنی طبیعت بھی بوجھل ہو رہی تھی۔ وہ کب جانتے تھے کہ جندالی ان کے اعصاب پہ سوار ہو چکا ہے اور اب ان کی رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ نحوست بن کر دوڑ رہا ہے۔ وہ گھر آئے تو ان کی پریشانی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ ان کی بیوی گھر کے صحن میں چت لیٹی تھی۔ مقبول نے دیکھا، وہ بے ہوش تھی۔ مقبول گلاس میں پانی لے کر آیا۔
”عالیہ! عالیہ……! کیا ہوا؟“ مقبول اس کے چہرے پہ پانی کے چھینٹے مارتے ہوئے اسے آواز دے رہا تھا۔ پھر کراہتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
”معلوم نہیں کیا ہوا! بس اچانک ہی چکر آیا اور سر میں شدید درد ہے۔“ اس نے اپنی کیفیت بتائی مگر وہ بھی کب جانتی تھی کہ ناوی نے اسے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ اب مقبول اسے بھی ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر مرض سمجھ نہیں پایا اور عالیہ کے خون کا نمونہ بھی لے لیا۔ مقبول کی اپنی طبیعت بھی ناساز ہو رہی تھی تو ایک انجانے شک کے تحت اس نے اپنے خون کا نمونہ بھی جمع کروا دیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ تینوں کسی پراسرار بیماری کا شکار ہوئے ہیں تو ایک ساتھ ان کا علاج ممکن ہو جائے گا۔
بھوتوں کی پکھی نے اس گھر میں بسیرا کر لیا تھا۔ گھر کے تمام افراد بیمار اور پریشان رہنے لگے تھے۔ اب مقبول کو حد سے زیادہ غصہ آتا تھا۔ غصے میں وہ گھر کے برتن بھی توڑ دیتا تھا۔ عالیہ کاہل ہو چکی تھی۔ مقبول کے بچے بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ مقبول ایک باشعور آدمی تھا مگر اب وہ خود کو بے بس محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اچانک ہی ان کی پرسکون زندگی کو کس منحوس کی نظر بد لگ گئی ہے۔ اب وہ مشاہدہ کرتا تھا۔ اکثر اسے اپنے آس پاس بدبو کا احساس ہوتا۔ رات میں برتن بجتے۔ اسے محسوس ہوتا کہ گھر میں ان کے علاوہ کوئی اور بھی رہتا ہے مگر وہ کون ہے……؟ مقبول یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس رات مقبول کی دو سالہ بچی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے کولی مولی اور شولی تنگ کر رہے تھے۔ شانی کو جو غصہ آیا تو اس نے منی کا کھلونا اس کے سر پہ دے مارا۔ کھلونا ٹھوس تھا، ضرب شدید لگی تو منی کا سر پھٹ گیا۔ منی رونے لگی۔ مقبول نے شانی کو ڈانٹنے کی کوشش کی تو شانی کے دفاع میں عالیہ مقبول سے الجھ پڑی۔ مقبول منی کو اٹھائے ڈاکٹر کی طرف بھاگا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر پہلے سے مقبول کا منتظر ہے۔ منی کی مرہم پٹی کے بعد ڈاکٹر نے چند کاغذات مقبول کی طرف بڑھائے اور بولا:
”میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ تمام رپورٹس نارمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ لوگوں کو کوئی بیماری نہیں ہے۔“
”تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ مقبول الجھن کے عالم میں بولا۔
”اب میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ مگر ہاں …… مجھے کہنا تو نہیں چاہیے کہ میرا ان باتوں پہ یقین نہیں ہے مگر آپ میرے دوست ہیں، اس لیے آپ کو رائے دیتا ہوں کہ……“ ڈاکٹر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”ہاں، ہاں! میں سن رہا ہوں۔“ مقبول بے تابی سے بولا۔
”شاید آپ لوگوں کو روحانی علاج کی ضرورت ہے۔“ مقبول ڈاکٹر صاحب کا اشارہ سمجھ رہا تھا اور پھر مقبول کسی عامل باعمل کی تلاش میں نکل پڑا۔ وہ تین ماہ تک یہاں سے وہاں دھکے کھاتا رہا۔ اس نے ہزاروں روپے خرچ کر دیے مگر ان کا علاج کرنے والا ہر عامل ٹھگ نکلا۔ مقبول کے گھریلو حالات تیزی سے بگڑ رہے تھے۔ ایک روز وہ مایوسی کے عالم میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا۔
”آپ مقبول صاحب ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”جج…… جی……!“ مقبول گڑبڑا گیا۔
”آپ کو امام مسجد صاحب بلا رہے ہیں۔“
اب مقبول نے دیکھا۔ وہ ایک خوبصورت مسجد کے سامنے کھڑا تھا۔ مسجد میں داخل ہونے کو اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا مگر اس سوال کا جواب بھی ضروری تھا کہ امام مسجد صاحب اسے کیسے جانتے ہیں۔ وہ آدمی مقبول کو امام مسجد صاحب کے حجرے میں لے آیا۔ امام مسجد صاحب ایک نورانی صورت والے بزرگ تھے۔ انہوں نے مقبول کو خوش آمدید کہا اور پھر بولے:
”شاید آپ یقین نہ کریں مگر میرے موکل نے مجھے آپ کے متعلق خبر دی ہے، تب ہی میں نے آپ کو بلایا۔ میرے پاس آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہیں اور علاج بھی۔“ ہمدردی کے دو بول سن کر مقبول کا دل پگھل گیا۔ اب امام مسجد صاحب بول رہے تھے اور مقبول سن رہا تھا۔ ابھی بات جاری تھی کہ موذن نے اذان کہنا شروع کر دی۔ اذان مکمل ہوئی تو امام مسجد صاحب بولے:
”آپ کا امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ نماز پڑھیں اور میری ہدایات پر عمل کریں۔“
امام مسجد صاحب چلے گئے۔ یہ پل مقبول پر بڑے سخت تھے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ بھاگ جائے۔ کوئی طاقت اسے نماز سے روک رہی تھی اور پھر وہ مسکرانے لگا۔ واقعی امتحان اب شروع ہو رہا تھا۔ وہ اٹھا، وضو بنایا اور باجماعت نماز ادا کی۔ پھر وہ اپنے گھر واپس لوٹا۔ گھر میں نحوست نے ڈیرے ڈال رکھے تھا۔ مقبول نے سب کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور پھر بولا:
”گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دراصل ہمارے گھر میں بھوتوں کی ایک پکھی نے بسیرا کر لیا ہے۔“ اس کی بات سن کے عالیہ اور شانی ڈر گئے۔
”ہمیں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہم مل کر ان بھوتوں کو اپنے گھر سے بھگائیں گے۔“
”مگر کیسے؟“ عالیہ نے پوچھا۔
”پہلے ایک حکایت سن لو! کسی خوشحال انسان کے پاس مصیبت انسانی شکل میں حاضر ہوئی۔ مصیبت نے اس خوشحال آدمی سے کہا کہ اب میں آپ پر آنے والی ہوں۔ آپ کی ہر چیز برباد کر دوں گی۔ مال…… دولت…… اولاد…… گھر بار…… سلوک……زندگی اور سب کچھ مگر میں آپ کو موقع دیتی ہوں کہ ایک چیز آپ میرے غضب سے بچا سکتے ہیں، انتخاب آپ خود کر لیں۔ خوشحال آدمی نے غور وفکر کیا اور پھر بولا:
”سلوک…… ہمارے سلوک کو برباد مت کرنا۔ اگر ہمارا سلوک رہے گا تو ہر برباد چیز ہم پھر سے بنا لیں گے لیکن اگر ہمارا سلوک برباد ہو گیا تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔“ اس کی بات سن کر مصیبت ہنس پڑی اور پھر بولی:
”میں مصیبت ہوں اور تب ہی آتی ہوں جب گھر والوں کا باہمی سلوک برباد ہوتا ہے۔“
تو پہلا کام ہمیں یہ کرنا ہے کہ اب ہم غصہ نہیں کریں گے اور اپنا سلوک سلامت رکھیں گے۔“ مقبول کی بات سن کے عالیہ اور شانی کے چہرے پہ رونق آ گئی تھی۔
دوسرا کام یہ ہے کہ باورچی خانے میں تمام آلودہ برتن دھو کر سوئیں گے اور کوڑے کرکٹ والی ٹوکری گھر سے باہر ٹھکانے لگائیں گے۔“
”یہ بھی ہو گیا اور……؟“ عالیہ جوش میں نظر آنے لگی تھی۔
”تیسرا کام یہ ہے کہ ہمارا غسل خانہ گندہ نہیں ہونا چاہیے۔ سونے سے پہلے مکمل صفائی کی جائے گی۔“
”یہ بھی ہو گیا۔“
”تو چلو کام پہ لگتے ہیں۔“ مقبول کی آواز پہ عالیہ اور شانی نے لبیک کہا اور پھر وہ تینوں کام میں جت گئے۔ رات ہوئی، گھر کے تمام افراد سو گئے تو بھوتوں کی پکھی متحرک ہوئی۔ جندالی باورچی خانے گیا مگر اسے کھانے کے لیے کوئی ہڈی نہیں ملی۔ ناوی غسل خانے گئی مگر اسے کھانے کے لیے گندگی نہیں ملی۔ کولی مولی اور شولی بھوک سے بلبلا رہے تھے۔ جندالی اور ناوی کو بھی غصہ آ رہا تھا۔ انہوں نے مل کر گھر میں اودھم مچایا۔ برتن گرائے…… سرد اور بدبودار ہوا سے مدد لی۔ مقبول اور عالیہ کی آنکھ کھل گئی تھی مگر وہ گھبرائے نہیں۔ پاکیزگی قائم کرنے کی وجہ سے پکھی کا ہر وار ناکام ہو رہا تھا۔ اگلے تین روز تک یہ دھمکا چوکڑی جاری رہی مگر مقبول اور عالیہ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آیا اور پھر مایوس ہو کر ناوی نے جندالی سے کہا۔
”چلو جی، جامن کے درخت پہ واپس چلتے ہیں۔ اگر اب بھی یہاں رہے تو بھوکے مر جائیں گے۔“
”اس کے سوا کوئی چارہ نہیں! کتنا مزا آتا تھا جب شوہر اور بیوی لڑتے تھے۔ اگر یہ خاندان بکھر جاتا تو ہم تمام عمر اس گھر میں مزے کرتے مگر اب نہیں …… چلو واپس!“ جندالی انتہائی مایوس نظر آ رہا تھا۔ پھر وہ ناوی اور اپنے بچوں کے ہمراہ جامن کے درخت کی طرف روانہ ہوئے۔ جب وہ میدان میں پہنچے تو ایک ایسا منظر ان کا منتظر تھا کہ وہ رونے لگے۔ وہ اپنے سر پہ خاک ڈالنے لگے۔ یہاں ایک ایسا دکھ اُن کا منتظر تھا کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کی غیر موجودگی میں کرمو نے اپنی کلہاڑی کی مدد سے جامن کا درخت کاٹ دیا تھا اور پھر بھوتوں کی یہ پکھی بین کرتی رات کی تاریکی میں نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئی۔
٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں