128

موٹو اور ولیمہ ___ انعم توصیف

”مرغ بریانی تو ہو گی، قورمہ بھی شاید مرغے کا ہی ہو۔“بن کی طرح پھولے ہوئے ہاتھوں پر کھانے کی اقسام کو گنتے ہوئے نو سالہ سلمان عرف موٹو اپنے گھر سے باہر گلی میں اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھا۔
”موٹو! شش….شش! اِدھر…!“
صغرا آپا نے اپنے مکان کی پہلی منزل کی کھڑکی سے گلی میں جھانکتے ہوئے موٹو کو آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ موٹو نے گول گول گھوم کر اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔
”ارے! اوپر…“ کھڑکی سے آدھی باہر کو لٹکی آپا نے دوپٹہ کانوں کے پیچھے اڑستے ہوئے کہا۔
”ہونہہ! موٹو کے نام سے مجھے آواز نہیں آتی۔“آپا کو دیکھتے ہوئے موٹو نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔
”میرے پیارے بچے سلمان!“آپا نے کام کے وقت گدھے کو باپ بنانے کے مصداق پیار سے اسے آواز دی۔
”جی! اب بولیے۔“ اپنا گول مٹول منہ ان کی طرف کرکے موٹو نے کمال فرماں برداری کا مظاہرہ کیا۔
”ایک پاؤ دہی لادو۔“ دوسرے شہر اپنے ماموں جان کے ولیمے میں جانے کے لیے صبح سے گہرے نیلے رنگ کے کوٹ اور ہلکی نیلے رنگ کی جینز پہنے موٹو نے منہ کھولے آپا کو دیکھا۔
”میں… دہی لا کر دوں؟“ اپنے ہاتھ کی انگلی سے موٹو نے خود اپنی طرف اشارہ کر کے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں ہاں! پتا ہے ولیمے میں جا رہے ہو تم۔ دہی لانے کا کہہ رہی ہوں، کون سا گھر کا جھاڑو پونچھا کروا رہی ہوں۔ میرا مطلب ہے پلیج…“آپا نے بگڑتے تیور کو درست کرتے ہوئے انگریزی کی ٹانگ توڑ کر مصنوعی نرمی چہرے پر سجاتے ہوئے کہا۔
”اس پلیج کی وجہ سے لا دیتا ہوں۔“ہوا میں چالیس روپے اچھلتے ہوئے ہاتھوں کے بنے پیالے میں پکڑ کر موٹو دہی لینے چل پڑے۔
اپنی عادت سے مجبور ہو کر موٹو کے دماغ میں کھچڑی پکنا شروع ہو چکی تھی۔ چالیس کے بجائے تیس کی دہی لا کر آپا کو دینے کا سوچا۔ ابھی وہ دس روپے کی ٹافیاں لینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ پچھلی بار ایسے ہی گڑ بڑ گھوٹالا کرنے پر اماں کی مار یاد آگئی اور موٹو دل مسوس کر رہ گیا۔
٭
گلی کے نکڑ پر بنی اشرف چاچا کی دکان پر رش دیکھ کر موٹو نے گھر کی طرف واپس پلٹنے کا سوچا ہی تھا کہ سامنے کھڑی بڑی سی کالے رنگ کی گاڑی کے نیچے سوئے کتے پر نظر پڑی اور پھر اس کے ہاتھوں میں کھجلی ہونے لگی۔ اتفاق سے گاڑی کے اندر بیٹھا موٹا آدمی اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ موٹو نے جلدی سے اپنا رخ پھیر کر دکان کی طرف دیکھا۔ گاڑی خراب ہو چکی تھی جس کو ڈرائیور ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ موٹے آدمی کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ آدمی گرمی سے پریشان ہو کر گاڑی سے باہر اترنے لگا۔ موٹو نے جلدی سے پتھر اٹھایا اور کتے کی جانب اچھالنے ہی والا تھا کہ آدمی نے اسے غصے سے گھورا۔ موٹو نے ڈر کے مارے ہاتھ میں پکڑا دوسرا پتھر وہیں پھینک دیا۔ آدمی سمجھ رہا تھا کہ موٹو اس کی گاڑی پر پتھر مارنا چاہ رہا ہے۔ اسے خبر ہی نہ تھی کہ موٹو کے ارادے ہی کچھ اور ہیں۔
”ہونہہ! یہ موٹا تو مجھے ہی گھورے جا رہا ہے۔ کیا یہ گاڑی کے بجائے کتے کا رکھوالا ہے۔“منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے موٹو، آدمی کو دیکھے جا رہا تھا۔ کتے کو سامنے دیکھ کر اسے مارے بنا واپس چلے جانا موٹو کے لیے ممکن نہ تھا۔ جانوروں کو تنگ کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
”ایک تھپڑ ماروں گا۔“ موٹے آدمی نے دوسری جانب دیکھا تو جھٹ سے موٹو نے ایک بڑا سا پتھر اُٹھا کر ہاتھ اوپر کو اٹھایا۔ ابھی وہ پتھر پھینکنے ہی والا تھا کہ آدمی کی آواز نے اس کو دم بخود کردیا۔ کوٹ پینٹ پر ٹائی لگائے موٹے سے آدمی کی آواز لڑکیوں کی طرح باریک تھی۔ جسے سن کر اس کے منہ سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ اس سے پہلے آدمی کچھ کہتا، ڈرائیور نے اس کے قریب آ کر کچھ کہا اور وہ موٹو کو گھورنا چھوڑ کے گاڑی کے بارے میں کچھ کہنے لگا۔
”ہاں بھئی موٹو جینٹل مین!کتنے روپے کی دہی دوں؟“ اشرف چاچا نے اس کے کپڑوں طرف دیکھا پھر ہنستے ہوئے پوچھا۔
”تیس کی…نہیں وہ اکتیس کی… میرا مطلب ہے پینتیس کی۔“ موٹو نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
”پچھلی بار کی دھلائی بھول گئے میاں؟سچ سچ بتاؤ کتنے کی دہی منگوائی ہے اماں نے؟“اشرف چاچا جو اس کے گھر کے برابر میں ہی رہتے تھے۔ انھوں نے پچھلی بار کی درگت یاد دلا کر مسکراتے ہوئے ایک بار پھر سوال کیا۔
”ہونہہ!چالیس کی دے دیں۔“ موٹونے اپنی ناک پھلا کر مخصوص انداز میں ہونہہ کیا۔ دہی کی تھیلی تھام کر موٹو نے حسرت سے خواب خرگوش کے مزے لیتے کتے کو دیکھا اور آگے بڑھنے لگا۔ موبائل کی گھنٹی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ جلدی سے پیچھے مڑا۔ آدمی موبائل کان سے لگا کر کسی سے بات کرنے میں مصروف ہو چکا تھا۔ موٹو نے پھرتی سے نیچے جھک کر پتھر اٹھایا اور کتے کو مارا مگر یہ کیا؟ پتھر کتے کے بجائے گاڑی پر لگ چکا تھا۔ موٹو نے منہ سے باہر نکلی زبان دانتوں تلے دبا کر اپنے ہی سر پر چپت رسید کی۔ اس سے پہلے وہ دم دبا کر بھاگتا، آدمی نے چلا کر اسے پکارا۔
”ہلنا مت اپنی جگہ سے چھوٹے موٹے!“آدمی کی آواز سن کر موٹو ڈرنے کے باوجود ہنسنے لگا۔
”ابھی بتاتا ہوں تجھے۔“آدمی موٹو کی جانب لپکا۔
”انکل وہ… میں…“
”کیا وہ میں…میری پندرہ لاکھ کی گاڑی کو پتھر مارنے کی ہمت کیسی ہوئی؟“آدمی موٹو کے سر پہنچ کر چلایا۔ اسے معلوم ہی نہ تھا کہ موٹو اس کی گاڑی کو نہیں بلکہ کتے کو مارنے کے جدوجہد کر رہا ہے۔
”انکل…!“ موٹو خوف کے مارے زمین پر گر گیا۔ آواز اس کے منہ میں ہی رہ گئی۔ دہی کی تھیلی اس کے ہاتھ سے گر گئی۔
”مجھے پاگل سمجھا ہے؟ تم سے بات کر رہا ہوں میں۔ کبھی مجھے دیکھ کر ہنس رہے ہو، کبھی گاڑی کو پتھر مار رہے ہو۔ اب تم سے بات کر رہا ہوں تو میرے پیچھے دیکھے جا رہے ہو۔“آدمی غصے میں تیز رفتاری سے بنا رکے بولے جارہا تھا۔
”پیچھے تو دیکھو!“موٹو نے دہشت زدہ چہرے سے کہا۔ کالے رنگ کا زخمی کتا جو گاڑی کے نیچے سو رہا تھا، وہ آدمی کے پیچھے کھڑا خونخوار نظروں سے ان دونوں کو گھور رہا تھا۔
”کیا؟“آدمی نے پیچھے دیکھا تو کتے کو دیکھ کر گبھراہٹ کے مارے پیچھے ہونے کے بجائے وہ آگے بڑھ گیا۔ کتے کی طرف دیکھنے کی وجہ سے وہ گٹر پر سے ہٹا ہوا ڈھکن نہ دیکھ سکا اور ٹھوکر کھا کر نیچے گر پڑا۔ اس ابڑ دھبڑ میں آدمی کا ہاتھ کتے کی گردن پر لگا۔ کتے کی گردن پہلے سے ہی زخمی تھی۔ وہ غصے سے بھونکتا ہوا آدمی پر جھپٹ پڑا۔ موٹو نے جلدی سے پاس پڑی تھیلی اٹھائی، خود کو کتے سے بچاتے ہوئے دھڑام کی آواز کے ساتھ آدمی گٹر میں گر پڑا۔
سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس پاس کے لوگ جلدی سے گٹر کی جانب بڑھے جس کے اوپری حصے پر موٹو کے ہاتھ نظر آ رہے تھے جو پوری طرح نیچے گرنے سے خود کو بچائے رکھنے کی کوششوں میں ہلکان ہو رہا تھا۔ کتا آدمی کو چھوڑ کر اب موٹو کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ موٹو بھاگ بھاگ کر اپنے گھر سے گلی کے نکڑ کے تین چکر لگا چکا تھا مگر کتا اس کی جان بخشنے کے لیے تیار نہ تھا۔بڑی مشکل سے چوتھے چکر پہ اس نے آپا کے گھر کے دروازے کو کھلا دیکھ کر اندر جانے کے لیے دوڑ لگائی۔ آپا جو کب سے دہی کے انتظار میں بیٹھی تھیں، انہوں نے موٹو کو دیکھنے کے لیے ہی دروازہ کھولا تھا۔
موٹو دروازے سے اندر گھسا ہی تھا کہ سامنے سے آتی آپا سے اس کی زور دار ٹکر ہوئی۔ صحن کے بیچ میں پڑی رسی پر پھیلے کپڑوں میں سے ایک چادر نے موٹو کو چھپا دیا۔ آپا نے اس اچانک افتاد پر بوکھلا کر موٹو کو چور سمجھتے ہوئے پاس پڑے موٹے ڈنڈے سے روئی کی طرح دھن ڈالا۔ موٹو کی آواز اور پاس پڑی دہی کی تھیلی سے آپا اپنے حواسوں میں واپس آئیں، پھر کہیں جا کر موٹو کی جان بخشی ہوئی۔
٭
”کیسا بنا ہے سالن؟“
”بہت اچھا، بہت ہی اچھا…بہت زیادہ ہی اچھا۔“
جگہ جگہ سے سوجا ہوا موٹو آپا کے گھر کی چارپائی پر بیٹھا چپاتی سے شوربا کھا رہا تھا۔ شوربے میں مرغ تو نہیں مرغی کے ابلے ہوئے انڈے پڑے تھے۔ گھر والے اسے آپا کے پاس چھوڑ کر دو دن کے لیے شہر سے باہر جا چکے تھے۔ موٹو بے چارہ مار کھانے کی وجہ سے ولیمے میں نہیں جا سکا تھا اور اب اس ہی دہی کا بنا سالن کھا رہا تھا جس کو جان پر کھیل کر وہ لے کر آیا تھا۔٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں