84

محنت کا پھل

تحریر:میرزا ادیب

ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے ”فاراب“، بہت مدت گزری اس شہر کے ایک محلے میں ایک بڑا غریب لڑکا رہتا تھا جسے علم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ دن کو وہ اپنے استاد کے ہاں جا کر سبق پڑھتا اور جب رات آتی تو وہ دن کا پڑھا ہواسبق یادکرتا اور اس وقت تک نہیں سوتا تھا جب تک یہ سبق پوری طرح یا نہیں ہو جاتا۔
اس کی چارپائی کے سرہانے مٹی کا ایک دیا جلتا رہتا تھا۔ اس دیے کی روشنی میں وہ رات کے دو دو بجے تک پوری کی پوری کتاب پڑھ لیتا اور بعض اوقات ساری رات ہی پڑھنے میں گزر جاتی۔
ایک رات کا ذکر ہے وہ اپنی چارپائی پر بیٹھا پوری توجہ اور انہماک سے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ دیے کی روشنی مدھم ہونے لگی۔ اس نے بتی کو اونچا کیا۔ روشنی ہوئی تو ضرور،مگر بہت جلد ختم ہو گئی۔ اب جو اس نے دیے پر نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر اسے بڑا افسوس ہوا کہ تیل تو دیے میں ہے ہی نہیں روشنی اگر ہوتو کیوں کر؟
”اب کیا کروں ؟“ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ رات آدھی کے قریب گزر چکی تھی۔شہر کی دکانیں بند ہو چکی تھیں اور اگر وہ کھلی بھی ہوتیں تو لڑکے کو کچھ فائدہ نہ ہوتا کیونکہ اس کے پاس تو تیل خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ پیسوں کے بغیر کون دکان دار اسے تیل دے سکتا تھا؟
اس حالت میں بہتر یہی تھا کہ وہ کتاب ایک طرف رکھ کر سو جائے مگر ابھی تو اسے پورے دو گھنٹے اور پڑھنا تھا۔ وہ یہ دو گھنٹے کس طرح ضائع کر سکتا تھا اور پھر دوسرے دن بھی اس کے پاس کہاں سے پیسے آ سکتے تھے؟ روٹی تو وہ ایک مسجد میں جا کر کھا لیتا اور محلے کے ایک بچے کو پڑھا کر جو رقم ملتی تھی اس سے وہ اپنے لیے معمولی کپڑے اور تیل خرید لیتا تھا۔ لیکن اسے حال ہی میں جتنے پیسے ملے تھے، وہ خرچ کر چکا تھا۔
دیے کے اس طرح بجھ جانے سے اسے بڑا افسوس ہوا۔ وہ اپنی کوٹھڑی سے نکل کر دروازے پر بیٹھا۔ رات کا اندھیرا ہرجگہ چھایا ہوا تھا۔ کہیں کوئی چراغ جلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہاتھا، سب لوگ آرام کر رہے تھے۔
اتنے میں اس کی نظر روشنی کی ایک ننھی سی لکیر پر پڑی جو شاید دورکسی دیوار پر دکھائی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی اس کے دل میں خواہش ہوئی کہ کاش یہ روشنی اس کے گھر میں ہوتی!
روشنی دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ کہاں سے آرہی ہے ادھر قدم اٹھانے لگا جدھر سے روشنی آرہی تھی۔ اپنی کتاب وہ ساتھ ہی لے آیا تھا تا کہ موقع ملے تو اسی روشنی میں کتاب کا باقی حصہ پڑھ ڈالے اور پھر واپس آ جائے۔
کچھ دور جا کر اس نے دیکھا کہ وہ روشنی ایک قندیل میں سے نکل رہی ہے جو محلے کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی۔اس نے چوکیدار سے بڑے ادب کے ساتھ کہا:
”جناب اگر آپ اجازت دیں تو میں قندیل کی روشنی میں کتاب پڑھ لوں؟“
چوکیدار ایک نیک آدمی تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ غریب طالب علم ہے جس کے پاس تیل خریدنے کے لیے پیسے نہیں۔ بولا:
”ہاں بیٹا پڑھ لے۔ میں تھوڑی دیر یہاں بیٹھوں گا، یہاں بیٹھ جا!“
لڑکا کتاب پڑھنے لگا۔
اب مشکل یہ تھی کہ چوکیدار ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک بیٹھ نہیں سکتا تھا اس لیے کہنے لگا:
”بیٹا اب تم گھر جاؤ اور سو رہو۔ مجھے آگے جانا ہے۔“
لڑکا بولا:
”آپ ضرور آگے جائیے۔ جہاں جی چاہے جایئے، میں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔“ چوکیدار قندیل اٹھا کر آگے آگے چلنے لگا اور لڑکا پیچھے پیچھے۔ اس طرح مطالعہ کرنے میں اسے بڑی دقت پیش آ رہی تھی لیکن اس نے ہمت نہ ہاری ۔ وہ چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر چوکیدار کا شکریہ ادا کر کے گھر چلا گیا۔
دوسری رات بھی یہی واقعہ ہوا۔ تیسری رات لڑکا آیا تو چوکیدار کہنے لگا:
”بیٹا! لو یہ قندیل اپنے گھر لے جاؤ میں نئی قندیل لے آیا ہوں۔“
لڑکے نے یہ لفظ سنے تو اسے اتنی خوشی ہوئی جیسے بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ وہ قندیل اپنی کوٹھڑی میں لے آیا اور اطمینان کے ساتھ اپنا کام کرنے لگا۔ چند روز کے بعد اسے پیسے ملے تو وہ بازار سے تیل خرید لایا اور اسے دیے میں ڈال دیا۔
کئی دن گزر گئے۔ اور پھر کئی سال….. لڑکا جوان ہو گیا۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی چلی جاتی تھی اس کا علم بھی بڑھتا جاتا اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا استاد بن گیا۔ بڑے بڑے عالم فاضل لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے اور اس سے علم حاصل کرتے تھے۔ وہ علم کا ایک ایسا دریا بن گیا جس سے علم کے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے رہتے تھے۔
جانتے ہو بچو! یہ کون تھا؟
یہ تھا ابونصر فارابی!
فارس کے اس عظیم مسلمان فلسفی اور سائنس دان کی وفات کوکئی برس گزر چکے ہیں مگر اس کی عزت و عظمت میں کوئی فرق نہیں آیا، اس کا نام سب بڑے احترام سے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے جس کے اپنے دیے کی روشنی ختم ہو گئی لیکن علم کا جو دیا اس نے جلایا اس کی روشنی بھی ختم نہیں ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں