109

لوہے کے چنے چبانا

تحریر:محمد اکمل معروف

میں اپنے کمرے میں بیٹھا ایک دل چسپ کتاب پڑھ رہا تھا۔کہانی اتنی اچھی تھی کہ میں مسلسل پڑھے جا رہا تھا۔اچانک میرا دس سالہ بھتیجا نومی کمرے میں داخل ہوا اور زور سے چلایا:
”تایا ابو! جلدی کریں…پاپا کو اسپتال لے کر جائیں،ان کی طبیعت خراب ہونے والی ہے۔“
اس کی بات سن کر میں نے گھبراہٹ میں کتاب ایک طرف رکھ دی اور بھاگتا ہوا اپنے چھوٹے بھائی احسان کے کمرے میں پہنچ گیا۔میرا بھتیجا بھی میرے ساتھ بھاگ کر آگیا۔
احسان موبائل پر کسی سے باتوں میں مگن تھا۔میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھ کر جلدی سے موبائل جیب میں رکھ لیا اور پوچھا:
”بھائی جان!خیریت تو ہے؟ آپ بہت پریشان لگ رہے ہیں۔“
”میں تو ٹھیک ہوں،تم بتاؤ کہ تمھیں کیا ہوا ہے؟نومی کہہ رہا ہے کہ تمھیں اسپتال لے کر جانا ہے۔“میں نے جواب دیا تو میرا بھائی حیرت سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا۔
”کیوں بیٹا…مجھے کیا ہوا ہے؟“
”پاپا آپ موبائل پر کسی کو کہہ رہے تھے نا کہ آپ کو آج لوہے کے چنے چبانے پڑے ہیں۔لوہا تو پیٹ میں بہت درد کر دے گا۔“وہ معصومیت سے بولا تو میں اور احسان ہنس ہنس کر دوہرے ہوگئے۔
”ارے بیٹا!یہ ایک اردو محاورہ ہے۔جب کسی کام کے لیے بہت محنت اور بھاگ دوڑ کرنی پڑے تو کہتے ہیں کہ لوہے کے چنے چبا رہے ہیں۔“احسان نے اسے پیار سے سمجھایا۔
ہم بہت دیر تک اس بات پر ہنستے رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں