blattella germanica, german cockroach, unhygienic-5261840.jpg 68

لال بیگ ___ عاطف حسین شاہ

وہ پہلی مرتبہ لاہور آیا تھا۔ لمبے سفر نے اُس پر شدید تھکاوٹ طاری کر دی تھی۔ اُسے منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔ وہ پلیٹ فارم پر اترا، پھر وقت ضائع کیے بغیر بیرونی راستے پر چل دیا۔ ابھی دو قدم کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اُس کی آنکھوں سے روشنی کی ایک عجیب سی لہر ٹکرائی۔ نہ جانے اُس لہرمیں کیا مقناطیسیت تھی کہ وہ نظریں ہٹانا بھول گیا۔
وہ درمیانی جسامت کا ایک سفری بیگ تھا۔ اُس کی رنگت سرخی مائل تھی، اُس میں ایک عجیب سی کشش اور خوب صورتی تھی۔ دیکھنے میں وہ خاصا قیمتی لگ رہا تھا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اُس بیگ کو حسرت سے دیکھے جا رہا تھا۔ گاڑی کی آمد سے مسافروں کا جو ریلا پلیٹ فارم پر آیا تھا، اب اُس میں خاصی کمی ہو گئی تھی۔
وہ حیران تھا کہ بیگ کا مالک سامنے کیوں نہیں آ رہا، پھر اُس نے سوچا کہ ممکن ہے کوئی اُسے پلیٹ فارم پر ہی بھول گیا ہو۔ ضرور اِس میں قیمتی اشیا موجود ہوں گی۔ اِس خیال سے اُسے اپنا بیگ یاد آ گیا، جسے وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اُس میں دو جوڑے کپڑوں کے علاوہ ضرورت کی کچھ اشیا موجود تھیں۔ دورانِ سفر اُس کی آنکھ کیا لگی، کسی اُٹھائی گیر نے اُس کا بیگ اُچک لیا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو وہ سر پیٹ کر رہ گیاتھا۔ اب جو اُسے لال رنگ کا بیگ دکھائی دیا تو اُس کے دل میں شیطانی خیال آیا۔ اُس نے پلیٹ فارم کا ایک لمبا سا چکر کاٹا، پھر سیدھا اُس بیگ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ بیگ کے پاس زیادہ دیر رکنا اُسے مشکوک بنا سکتا تھا۔ چناں چہ اُس نے جھٹ سے بیگ اُٹھایا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہواپلیٹ فارم سے باہر نکل آیا۔
انٹرویو کے لیے آئے ہوئے سبھی امیدوار اپنی باری آنے پر دفتر میں داخل ہو رہے تھے۔ جب اُس کی باری آئی تو وہ بیگ کے ہمراہ دفتر میں داخل ہوا۔ سامنے پکی عمر کا ایک شخص گھومنے والی کرسی پر براجمان تھا۔ اُس کی ڈاڑھی اور سر کے بال سفید تھے۔ اُس نے اُن سفید بالوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ ان میں کتنی کشش ہے، خضاب کی تو جیسے ضرورت ہی نہیں۔اتنے میں اُس بوڑھے شخص نے پراسرار نظروں سے اُ س کی جانب دیکھا۔ وہ ان نظروں کا مطلب سمجھ نہ پایا۔ پھر رسمی سوالات کے ساتھ انٹرویو شروع ہوا۔ کام میں تجربہ زیادہ ہونے کی بنا پر اُسے ملازمت پر رکھ لیا گیا۔ اچھا پیکج مل رہا تھا، مگر کمپنی کھانے اور رہائش سے بری الذمہ تھی۔ اس کا انتظام ملازم کو خود ہی کرنا تھا۔ اِس بات پر وہ پریشان تو ہوا مگر نوکری ملنے کی خوشی،پریشانی کے احساس سے بڑھ کر تھی۔ وہ ہشاش بشاش چہرہ لیے باہر آ گیا۔ اب شام ہونے سے پہلے اُسے رہائش کا انتظام کرنا تھا۔
اُس نے دو مشہور اخبارات خریدے اور اُن میں رہائش والے اشتہارات تلاش کرنے لگا۔ چند ایک اشتہار اُس کی پسند کے تھے۔ اُس نے دیے گئے فون نمبروں پر رابطہ کیا تو کرائے سے متعلق جان کر اُس کے ماتھے کی شکنیں گہری ہوگئیں۔ اُس نے حساب لگایا تو تنخواہ کا ساٹھ فی صد حصہ کھانے اور رہائش میں خرچ ہو رہا تھا۔ ایک پل کو اُس کا جی چاہا کہ وہ واپس اپنے گاؤں ہی چلا جائے، پھر اُس کے دماغ میں جھماکا سا ہوا اور اُسے لال بیگ یاد آ گیا۔
اب وہ کسی خفیہ مقام کی تلاش میں تھا، جہاں وہ بیگ کھول کر اُس کا جائزہ لیتا۔ یوں سرعام بیگ کھولنا خطرے سے خالی نہ تھا اور ڈر بھی تھا کہ کہیں بیگ کا مالک پیچھا ہی نہ کر رہا ہو۔ اُس نے ایک راہ گیر سے قریبی پارک کا پتا پوچھا۔ پارک زیادہ دُور نہیں تھا، وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا پارک میں پہنچ گیا۔
عصر کا وقت تھا، پارک میں آنے والے لوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ وہ کسی کی نظروں میں آنے سے کترا رہا تھا۔ اچانک اُسے پارک کا ایسا ایک کونہ نظر آیا، جہاں کچرا ہونے کی وجہ سے کوئی رخ نہیں کررہا تھا۔ وہ اُس جانب لپکا اور اپنا منہ دیوار کی جانب کر کے بیگ کھولنے لگا۔ بیگ کھولنے کی دیر تھی کہ فضا میں بدبودار گیس پھیل گئی۔ اُس نے ناک سکیڑتے ہوئے اندر جھانکا تو اُسے ایک ٹفن نظر آیا۔ ٹفن گلے سڑے کھانے سے بھرا ہوا تھا۔ نہ جانے یہ کھانا کب سے اِس میں موجود تھا۔ اُس نے جلدی سے ٹفن نکالا اور پرے پھینک دیا۔ اتفاق سے اس بیگ میں بھی کپڑوں کے دو جوڑے موجود تھے۔ اس کے علاوہ بیگ سے کنگھی، شیشہ اورایک قینچی برآمد ہوئی۔
ان چیزوں کو دیکھ کر اُسے سخت مایوسی ہوئی۔ وہ تو کسی خزانے کی امید لیے گھوم رہا تھا۔ اب وہ بیگ کی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ جیبوں سے دوچابیاں اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔ رقعے پر کسی گھر کا پتا لکھا ہوا تھا۔ اُس نے سوچا کہ یہ بیگ میرے تو کسی کام کا نہیں، کیوں نہ اِسے مالک تک پہنچا دوں۔ اِسی ارادے کے ساتھ وہ مکان کی تلاش میں چل پڑا۔
تقریباً بیس منٹ میں وہ مطلوبہ جگہ پہنچا تو مکان کو تالا لگا دیکھ کر سخت مایوس ہوا۔ کچھ دیر وہ انتظار کرتا رہا، لیکن مکان کا مالک نہ آیا۔ شہر کی گہما گہمی کی وجہ سے راہ گیر اُس پر دھیان نہیں دے رہے تھے۔ اب شام گہری ہونے لگی تھی تو اُس کے جسم پر تکان کا غلبہ ہوا۔ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھا اور بیگ سے برآمد ہونے والی چابیوں کی مدد سے تالا کھولنے لگا۔
ذرا سی کوشش کے بعد تالا کھل گیا۔ دروازہ کھول کروہ اندر داخل ہوا تو ہر طرف اندھیرا، ویرانی اور وحشت تھی۔ اُس مکان میں ایک کمرے کے ساتھ باورچی خانہ اور بیت الخلا تھا۔ اُس نے کمرا کھولا تو دھک سے رہ گیا۔ وہ بالکل خالی اور اُجڑا سا تھا۔ یہ دیکھ کراُسے وحشت سی محسوس ہوئی۔
اُس نے بیگ کو کمرے میں رکھا اور باورچی خانے میں داخل ہوا۔ یہاں بھی اُسے کوئی چیز نظر نہ آئی۔ اب وہ بیت الخلا کی جانب بڑھا۔ بیت الخلا بھی خالی ہی تھا مگر خوشی کی بات یہ تھی کہ اُس میں پانی کی سہولت موجود تھی۔ خود کو تازہ دم کرنے کے لیے جیسے ہی وہ واش بیسن کی جانب بڑھا تو اُسے بیسن میں ایک لال بیگ(cockroach) دکھائی دیا۔ لال بیگ بیسن کے اندر عجیب سے انداز میں چکر کاٹ رہا تھا۔ ایک پل کو تو اُس نے جھرجھری لی، پھر یہ کہہ کر خود کوتسلی دی کہ محض چھوٹا سا ایک کیڑا ہی ہے۔
ہاتھ منہ دھونے کے بعد اُس نے مکان کو تالا لگایا اور بھوک مٹانے کے لیے قریبی ہوٹل کی تلاش میں چل نکلا۔ جلد ہی وہ ایک سادہ سے ہوٹل پر پہنچ گیا۔ وہاں سے کھانا کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کرنے لگا۔ راستے میں وہ سوچتا رہا کہ اگر مالک مکان آ گیا تو وہ کیا کرے گا؟ دل ہی دل میں وہ دعا کرتا رہا کہ کاش مالک مکان کبھی واپس نہ آئے اور مفت میں رہائش مل جائے۔ گھومتے پھرتے اُس نے ضرورت کی کچھ چیزیں بھی خرید لیں۔ ان اشیا میں دری، چادر، تولیہ اور ایک صابن شامل تھا۔ مکان پر پہنچتے ہی وہ دری بچھا کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔ نیند نے بہت جلد اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
سویرے جب وہ اُٹھا تو اُسے یاد آیا کہ فیکٹری میں آج اُس کاپہلا دن ہے۔ وہ تیزی سے بیت الخلا میں گیا۔ جیسے ہی وہ واش بیسن کی جانب بڑھا، اُسے وہی لال بیگ چکر کاٹتا دکھائی دیا۔ چکر کاٹتے کاٹتے لال بیگ نے اُسے گھورا۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب سی دہشت تھی۔ اُسے لال بیگ ایک پراسرار مخلوق محسوس ہوا۔ وہ لرز کر رہ گیا۔ اپنے اعصاب ڈھیلے پڑتے دیکھ کر اُس نے خود کو سنبھالا۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد وہ تیار ہوا اور مکان کو تالا لگا کر نکل گیا۔ اُسی ہوٹل میں ناشتا کے بعد وہ فیکٹری پہنچ گیا۔
فیکٹری میں اُسے کوالٹی چیک کرنے کا کام دیا گیا تھا۔ اچھا تجربہ ہونے کی وجہ سے اُسے یہ کام بہت آسان لگا۔ کب دن گزرا، اُسے پتا ہی نہ چلا۔ دن کا کھانا اُسے فیکٹری کی طرف سے مل گیا تھا۔ چھٹی کے بعد جب وہ واپس آیا تو مکان کو تالا لگا دیکھ کر مسکرایا۔ ایک ہی دن میں اُسے یہ مکان اپنا سا محسوس ہونے لگا تھا۔ تالا کھول کر وہ اندر داخل ہو گیا۔
جب وہ بیت الخلا میں گیا تو اُس نے دیکھا کہ ابھی بھی لال بیگ اپنی دھن میں مست چکر کاٹ رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی اُسے غصہ آ گیا۔ اُس کا جی کیا کہ وہ لال بیگ کو کچل کر رکھ دے۔ وہ تیزی سے کوئی چیز ڈھونڈنے لگا۔ مکان میں ایسی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اچانک اُسے قینچی کا خیال آیا۔
بھاگم بھاگ وہ کمرے میں گیااور بیگ کی جیب سے قینچی نکال کر لال بیگ کو کچلنے کے لیے واش بیسن کے پاس جا پہنچا۔ لال بیگ چکر کاٹتے ہوئے مسلسل اُسے گھور رہا تھا۔ اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اُس نے قینچی کے وار سے لال بیگ کو کچل کر رکھ دیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ انجانے میں اُس سے کتنی بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔
کراہت دور کرنے کے لیے اُس نے صابن سے ہاتھ دھوئے، پھر اُس نے منہ پر بھی صابن لگایا۔ اچانک اُسے آنکھوں میں شدید چبھن کا احساس ہوا۔ جلن ایسی تھی، جیسے آنکھ میں صابن چلا گیا ہو۔ آنکھیں کھولنے میں شدید دقت پیش آ رہی تھی۔ اُس نے تیزی سے منہ دھونا شروع کیا۔ تکلیف گزرتے لمحوں کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ جلدی جلدی چہرے پر پانی مارتا رہا، پھر اچانک نل سے پانی آنا بند ہو گیا۔ اب کی بار اُس نے زور لگایا تو آنکھیں کھل گئیں۔ اُس نے اردگرد دیکھا تو اُسے یقین ہی نہ آیا۔ وہ ایک بہت بڑے پیالے میں موجود تھا۔
پیالے سے باہر کا منظر اُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ خاصی اونچائی پر اُسے ایک دیوہیکل نل نظر آیا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ اتنے میں اُس نے ایک بلند قہقہہ سنا۔ بیت الخلا میں کوئی اور بھی تھا، پھر اُسے دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ اُس نے پیالے سے باہر نکلنے کے لیے جیسے ہی قدم اُٹھائے تو اُس پر ایک خوف ناک انکشاف ہوا۔ اُس کی ٹانگوں کا جوڑا اب ایک سے بڑھ کر تین گنا ہوچکا تھا۔ جلد ہی سارا معاملہ اُس کی سمجھ میں آگیاکہ اُس کی روح،لال بیگ کے وجودمیں سما چکی ہے۔
یہ تصور ہی اُس کے لیے دل دہلا دینے والا تھا۔ وہ لرز کر رہ گیا۔ اُس کی کل کائنات اب یہی پیالہ تھا۔ وہ جتنا بھی زور لگاتا، پیالے سے باہر نکل نہ پاتا۔ اُس نے بے چینی سے پیالے (واش بیسن) میں چکر کاٹنے شروع کر دیے۔
لال بیگ کے وجود سے آزاد ہونے والے شخص نے کمرے میں سے لال رنگ کے خوب صورت بیگ کواُٹھایا اور مکان کو ہمیشہ کے لیے تالا لگا کر چلا گیا۔ جاتے ہوئے شخص کے قہقہے ہتھوڑے بن کر اُس نئے بننے والے لال بیگ کے کانوں سے ٹکرا رہے تھے۔ نیا لال بیگ واش بیسن میں انتظار کی سولی پر لٹک گیا کہ کب کوئی ایسی حرکت دوبارہ کرے اور اُس کی روح پھر سے انسانی جسم میں منتقل ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں