183

خیالی پلاؤ ___ انعم توصیف

”بس، بس! اب یہ ہی مشہور ہونے اور پیسے کمانے کا بہترین طریقہ ہے۔“
اقبال صاحب عرف چاچا خیالی پلاؤ نے اپنے ہاتھ میں پکڑے رسالے کو دیکھتے ہوئے، خیالوں کی دنیا میں جا کر پلاؤ پکانا شروع کر دیا تھا۔
”چاچا جی! خیریت؟ پیسے کمانے کا اب کون سا نیا طریقہ ذہن میں آیا ہے؟“
اخبار کے اسٹال کے پاس کھڑا ان کا پڑوسی ندیم ان کو سوچ میں گم کھڑا دیکھ کر دانت نکال کر پوچھنے لگا۔
”اپنے دانت اندر کر! بہت جلد میں مشہور ہونے والا ہوں اور میرے پاس پیسہ ہی پیسہ آنے والا ہے۔ پھر دیکھوں گا تم سب کو، جو میرا ہر وقت مذاق اڑاتے رہتے ہو۔“
چاچا نے غصے سے ہاتھ ہوا میں لہرا لہرا کر جواب دیا۔ غصہ کرنے سے ان کی سفید رنگت سرخ ہو رہی تھی۔
”چاچا جی! غصہ نہ کرو۔ خون کا دباؤ بڑھ جائے گا۔ یہ بتاؤ جب تم مشہور ہوجاؤ گے تو ہمیں یاد رکھو گے؟“
ندیم نے چاچا کے موڈ کو ٹھیک کرنے کے لیے جلدی سے بات بدلی۔
”یہ تو بعد میں سوچوں گا۔ ویسے تم لوگوں کو اپنے بنگلے پر نوکر رکھنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔“
درمیانے قد، سفید رنگت، کن پٹیوں پر سرمئی مائل سفید بال اور آنکھوں پر لگی عینک والے چاچا خیالی پلاؤ نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
”ہاں، ہاں! چاچا جی! ہم تمہارے نوکر بھی بن جائیں گے۔“
ندیم نے ان کے آگے جھکتے ہوئے کہا تو آس پاس موجود کئی لوگ جو ان کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ ان سب کے قہقہے بلند ہوئے۔ چاچا خیالی پلاؤ غصے سے تلملاتے ہوئے وہاں سے چلتے بنے۔
٭
”آگئے میاں؟“چاچا کی بیوی نے ان کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر اونچی آواز میں کہا۔
”سامنے کھڑا ہوں تو آ ہی گیا ہوں۔ جب دیکھو الٹی سیدھی باتیں کرتی رہتی ہو۔“چاچا نے تپ کر جواب دیا۔
”زبان چلانے سے گھر کی دال روٹی نہیں چلتی، آٹا ختم ہے۔ اس وقت تو میں نے چاول پکا لیے ہیں، شام کے لیے گھر میں کچھ نہیں ہے۔“
”آج پڑوس سے ادھار مانگ لو۔ بس پھر کچھ ہی دنوں میں ہمارے دن پھرنے والے ہیں۔ ہم اس کچرا مکان کو چھوڑ کر بنگلے میں جانے والے ہیں۔“
چاچا نے ایک بار پھر کھڑے کھڑے کمرے کی چھت کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر خیالی پلاؤ بنانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ اوپر دیکھ کر کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ مٹی اور پلستر کا ایک ٹکڑا ان کے منہ پر آ گرا۔
”ہی ہی ہی! پہلے چند روپوں سے اس چھت کی تو مرمت کروالو، پھر سوچنا بنگلے کا۔“
بیوی کی ہنسی نے انھیں آگ بگولہ کردیا۔ وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
٭
”کہاں ہے قلم؟ لگتا ہے بس ہر ایک چیز میری ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ کاغذ مل گیا تو قلم غائب ہے۔“
چاچا نے اپنے سر کو کھجاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو غصے سے موڑتے ہوئے کہا۔
”ہے تو یہ بہت ہی مشکل کام۔ لیکن کمائی کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ پانچ ہزار تو ایک کہانی پر مل ہی جاتے ہوں گے۔“
چاچا نے کاغذ کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
”مل گیا! ادھر چھپا بیٹھا تھا۔“میز کے نیچے جھکتے ہوئے وہ زور سے چلائے اور قلم اٹھانے لگے۔
”بس اب شروع کرتا ہوں لکھنا۔ لیکن کہانی لکھوں گا کیا؟“
خود سے ہی باتیں کرتے ہوئے چاچا الجھن کا شکار تھے۔
چاچا خیالی پلاؤ کو نت نئے طریقوں سے پیسے کمانے کا شوق تھا۔ کئی ماہ سے بے روزگار چاچا ہر وقت آسان طریقے سے پیسہ کمانے کے طریقے سوچتے اور پھر خیالوں کی دنیا میں ہی اپنا بنگلہ، گھر اور گاڑی بھی دیکھ آتے تھے۔
”رسالے میں دیکھتا ہوں۔ شاید کوئی اچھوتا خیال آجائے۔“
میز پر سامنے دھرا رسالہ کھولتے ہوئے چاچا نے اپنی عینک ناک پر ٹکایا اور پہلی کہانی پر لکھا مصنف کا نام دیکھا۔
”ندیم اختر…یہ تو مجھے اپنے پڑوس کا ندیم لگ رہا ہے۔ لیکن وہ تو ایک نمبر کا نکھٹو ہے، وہ کہاں کچھ لکھ سکتا ہے!چلو جو بھی ندیم ہے،کل کو یہ بھی مجھ سے آٹو گراف لے گا۔ یہ سارے ادیب میرے آگے پیچھے گھومیں گے۔“
چاچا نے ہنستے ہوئے سوچا اور دونوں ہاتھ ملا کر تالی بجائی۔
چاچا نے سب خیالات کو جھٹکا اور میز کے پاس کرسی گھسیٹ کر اس کے اوپر کسی بادشاہ کی طرح براجمان ہوگئے۔ ہاتھ میں قلم تھاما اور کاغذ کو میز پر رکھا۔ گہری سانس لی اور لکھنا شروع کیا۔
”ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک جنگل میں…“
ابھی اتنا ہی لکھا تھا کہ پھر سے چہرہ اوپر کرکے دانت نکال کر خیالات کی دنیا میں پہنچ گئے۔
”میری ایک کہانی چھپتے ہی ادبی دنیا میں ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ رسالے کے مدیروں کا کیا حال ہو گا؟“
چاچا خیالی پلاؤ نے مستقبل کا نقشہ کھینچنا شروع کردیا۔
”ایک طرف سنہرے رنگ کے صندوق میں میری کہانیاں رکھی ہوں گی اور سارے مدیر اس صندوق میں بند خزانے کو حاصل کرنے کے لیے گتھم گتھا ہوں گے۔ کوئی وائپر اٹھا کر کسی کو مارے گا، کوئی ڈنڈے سے کام چلائے گا۔ کسی کو کوئی ہتھیار نہیں ملے گا تو وہ اپنے ہاتھوں سے کام چلاتے ہوئے مخالف کے بال نوچنے لگے گا۔“
چاچا خیالی پلاؤ سوچتے جا رہے تھے اور مدیروں کو تصور میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتا دیکھ کر ہنستے جا رہے تھے۔
”میں بھی کیا کچھ سوچ لیتا ہوں، پہلے مجھے کہانی مکمل کر لینی چاہیے۔“
کہانی کی دو سطریں مزید لکھیں اور رسالے کی جانب دیکھ کر کچھ سوچنے لگے۔
”لکھنے والے مجھ سے حسد کرنا شروع ہوجائیں گے۔ شہرت اور دولت جس کے پاس ہو اس سے جلنا تو عام بات ہے۔“
خود کلامی کرتے ہوئے چاچا کہانی بھی لکھتے جا رہے تھے۔
”آہا! یہ ہو گئی مکمل کہانی۔ بس اب جلدی سے اس کو جا کر ڈبے میں ڈال آتا ہوں۔“
چاچا خیالی پلاؤ تیزی سے اٹھے اور دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
٭
”بس کچھ دنوں کی ہی بات ہے، پھر رسالوں کے بعد ٹی وی والے بھی مجھے ڈھونڈتے نظر آئیں گے۔ ڈرامے لکھنا شروع کروں گا۔“ چاچا خیالی پلاؤ اپنا پکا ہوا خیالی پلاؤ اخبار کے اسٹال کے پاس کھڑے لوگوں کو بیچ رہے تھے۔
”واہ چاچا واہ! ہمیں یقین تھا آپ کچھ ایسا ہی کر گزریں گے کہ ہمیں آپ پر فخر ہو گا۔“ ایک آدمی نے ہنسی دباتے ہوئے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”بس بس! اب زیادہ جھوٹ مت بولو۔ مجھے یاد ہے تم سب ہی یہاں بیٹھ کر میرا مذاق اڑاتے تھے۔“
ہر روز اس ہی طرح کی باتیں کرتے، ڈینگیں مارتے ہوئے چاچا انگلیوں پر دن گنتے ہوئے وقت گزار رہے تھے۔
کئی دنوں کے انتظار کے بعد بھی جب چاچا کو کوئی ڈاک موصول نہ ہوئی اور حالات بد سے بدتر ہونے لگے تو آخر کار ندیم کے مشورے سے ہی ادارے کے نمبر پر ندیم کے موبائل سے ہی رابطہ کیا۔ فون کی گھنٹی بجتے ہی چاچا کی دل کی دھڑکن بھی تیز ہونی لگی تھی۔
ہیلو! میں بول رہا ہوں مستقبل کا ادب کا چمکتا ستارہ۔“
نمبر ملانے کے چند سیکنڈ بعد ہی ادارے سے ان کا رابطہ بحال ہو چکا تھا۔
”آپ اپنا نام بتائیے حضرت۔“بڑے ہی تحمل اور عزت کے ساتھ سوال کیا گیا۔
”نام… میرا نام نہیں جانتے آپ؟“
”حضرت آپ بتائیں گے تو جانیں گے۔“مقابل کی آواز سے واضح تھا کہ بڑی مشکل سے وہ چاچا کو برداشت کر رہا ہے۔
”اقبال خان نام ہے میرا اقبال…کہانی لکھ کر بھیجی تھی۔ یہ بتاؤ معاوضہ کب تک اور کتنا دو گے؟“چاچا خیالی پلاؤ نے بلا کسی تمہید کے کہنا شروع کیا۔
”جی…؟“حیرت سے ڈوبی آواز موبائل سے باہر نکلی۔
”دیکھیے حضرت! ہمارا ادارہ بچوں کے لیے کہانیاں شائع کرتا ہے۔ آج کے دور میں یہ….“
”ارے! تم کیوں مجھے کہانی سنانے لگے۔ میں تو تمہارے ہی فائدے کی بات کر رہا ہوں۔ میں کوئی عام آدمی نہیں ہوں۔ میرے قلم میں جادو ہے جادو۔ میری پہلی کہانی چھپتے ہی تمہارا ادارہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔“
”آپ بات تو سن لیجیے۔“ایک بار پھر غصے کو ضبط کرتے ہوئے جواب دیا گیا۔
”بس یہ بتاؤ ایک کہانی کے کتنے ہزار؟“ چاچا نے اب کی بار چیختے ہوئے پوچھا۔
”حضرت! آپ کی کہانی ناقابل اشاعت ہے۔ آپ معاوضے کی بات ایسے کر رہے ہیں جیسے اعلیٰ پائے کے ادیب ہوں۔“
ادارے میں موجود شخص نے بات کرتے ہوئے، لیپ ٹاپ میں موجود ناقابل اشاعت تحریروں کی فہرست کو دیکھ کر جواب دیا اور ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گیا۔ چاچا خیالی پلاؤ کا پلاؤ پکتے پکتے ہی آگ میں غائب ہو چکا تھا۔ انھوں نے موبائل کو دیکھا اور وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ جب کہ برابر میں کھڑا ندیم موبائل سے باہر آتی آواز کی وجہ سے ساری باتیں سن چکا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں