adult, beauty, face-19033.jpg 61

خوش بو کا راز ___ عاطف حسین شاہ

”منیب بیٹا! کہاں کی تیاری ہے؟“ منیب کوصبح سویرے جوگر پہنتے دیکھ کر اس کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔
”امی جان…!میں نے صبح کی سیر کے ان گنت فائدے پڑھے ہیں۔اتنے فائدے پڑھنے کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا،اس لیے میں آج صبح کی سیر کے لیے پارک میں جا رہا ہوں۔“ منیب نے پرجوشی سے جواب دیا۔ یہ سن کر امی مسکرا کر رہ گئیں اور پھر بولیں،
”یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بیٹا، مگریاد رکھنا کہ اتنے فائدوں کے لیے اس سیر کی پابندی کرنا پڑتی ہے اور ہاں جلدی واپس آجانا،پھر سکول بھی جانا ہے۔“ امی کی بات سن کر منیب کے چہرے پر لالی آگئی اور اس نے ایک مضبوط ارادے کے ساتھ صبح کی سیر کا آغازکر دیا۔
پارک میں خاصی گہما گہمی تھی۔ منیب اپنی دانست میں سب سے پہلے پہنچا تھا مگر یہاں کامنظر دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ سویرے جاگنے والے والوں میں وہ کتنا پیچھے ہے۔ وہ اب مرکزی دروازے سے اندر داخل ہو چکا تھا۔ چہل قدمی کے لیے خوبصورت اینٹوں سے بنے شاخوں نما راستے ایک دوسرے سے جدا ہو رہے تھے۔ ان راستوں پر لوگ تیز رفتاری سے چل رہے تھے۔ پارک کے وسیع احاطے میں گھومنے کے لیے منیب بائیں جانب کے راستے پر چل پڑا۔ وہ ابھی چند قدم ہی چل پایا تھا کہ اس کا سانس پھولنے لگا۔ وہ ہانپتا ہوا بیٹھ گیا۔ اس کا ارادہ کمزور پڑنے لگا۔ اتنے میں اسے امّی کی بات یاد آگئی۔ وہ ہمت جمع کرتے ہوئے اٹھا اور پھر تیز تیز قدموں سے چل پڑا۔ دفعتاً اسے بھینی بھینی مہک نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے اپنے ارد گرد نگاہ دوڑائی تو اسے گلاب کے پھولوں کا پوراٹولہ نظر آیا۔ دل و دماغ کو معطر کرتی یہ خوشبو ان گلاب کے پھولوں سے پھوٹ رہی تھی۔منیب بے اختیار وہیں رک گیااور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ان پھولوں کو دیکھنے لگا۔اس کا بس چلتا تو وہ شام تک ان پھولوں کو دیکھتا رہتا مگر اسے سکول بھی جانا تھا۔ وہ ایک عجیب سی کسک لیے پارک سے نکل آیا۔
منیب سکول پہنچ تو گیا تھا مگر اس کا دل کسی صورت بھی سنبھلنے کو تیار نہ تھا۔اس کا پورا دن انتہائی افسردہ گزرا تھا۔منیب کی اداسی بھانپ کر اس کا دوست اویس اس کے پاس آیا اور بولا،
”منیب یار! آج تم صبح سے ہی پریشان دکھائی دے رہے ہو۔کیا بات ہے؟“
منیب اویس سے اپنی کوئی بھی بات چھپاتا نہ تھا۔پوری کلاس میں اس کا سب سے بہترین دوست ایک اویس ہی تو تھا۔منیب اپنے ہمدرد کو سامنے پاتے ہی فوراً بولا،
”یار کیا بتاؤں! میں آج صبح کی سیر کے لیے پارک میں گیا تھا۔وہاں میں نے بہت پیاری خوشبو محسوس کی۔اس خوشبو کے پا س ہی میں نے بہت سے پھول دیکھے۔میرا خیال ہے کہ وہ خوشبو ان پھولوں سے آرہی تھی۔“
منیب کی بات سن کر اویس بولا، ”ہاں یار خوشبو تو پھولوں سے ہی آتی ہے مگر مجھے تمھارے پریشان ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔“
”یارتمھیں کیسے سمجھاؤں! مجھے وہ خوشبو بہت پسند آئی ہے۔جی چاہتا ہے کہ وہ خوشبو ہر وقت میرے آس پاس رہے۔“اس بار منیب کے لہجے میں ایک فریادتھی۔
”اچھا تو یہ بات ہے….کل جب پارک جاؤ گے تو وہاں سے ایک پھول لیتے آنا۔جتنی تعریف تم نے کی ہے،اس کے بعد مجھے بھی اس خوشبو کی طلب محسوس ہو نے لگی ہے۔وہ پھول تمھاری جیب میں جتنی دیررہے گا،اتنی دیرہم خوشبو لیتے رہیں گے۔“ اویس نے مشورہ دیا۔
”ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔“ منیب اب کی بار خوشی سے بولا۔اب وہ پر امید تھا۔
اگلے دن منیب علی الصبح پارک میں پہنچ گیا۔ وہ ٹہلتا ہوا اس جگہ پہنچاجہاں گلاب کے پھول صبح کی تازگی میں اضافہ کر رہے تھے۔ منیب نے ایک پھول توڑا اور اسے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ پارک میں جس نیت سے وہ آیا تھا،اس کی مراد پانے کے فوراً بعد وہ وہاں سے لوٹ گیا۔آج سکول جاتے وقت اس کی طبیعت بہت ہشاش تھی۔ وہ بار بار اپنی جیب سے پھول نکالتا اور اسے اپنے نتھنوں کے قریب لے جا کر سونگھتا۔ ایسا کرنے سے اس پر سرور کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ اس کا سارا دھیان پھول کی جانب تھا۔ اویس نے اس کے چہرے پر خوشی دیکھ لی تھی۔ دونوں باری باری اس پھول کی خوشبو سے محظوظ ہو رہے تھے۔
چوتھے پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی سر وقار کلاس میں پہنچ گئے۔سر وقارایک سائنس ٹیچر تھے۔ان کے پڑھانے کا انداز بہت دلچسپ ہوتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ پنجم جماعت کے طلبا بھی سائنسی مظاہر کابغور مشاہدہ کرتے نظر آتے تھے۔اتنے دلچسپ پیریڈ میں بھی منیب اور اویس غیر متوجہ تھے۔ وہ ایک الجھن کا شکار تھے۔ پھول کی خوشبو اب ماند پڑ چکی تھی۔ دونوں دوست اس بدلاؤ کو سمجھنے سے قاصر تھے مگروہ چوری چھپے اسے مسلسل سونگھ رہے تھے۔ سر وقار کافی دیر سے ان کی حرکات دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دونوں دوستوں کو کلاس کے سامنے کھڑا کیا اور انھیں سزا سے بچنے کے لیے سچ کہنے کی تدبیر بتائی۔ منیب اور اویس اب سچ بولنے کے پابند ہو چکے تھے چنانچہ منیب نے سارا ماجرا کلاس کے سامنے بیان کر دیا۔ سر وقار نے پھول لے کردونوں کو واپس اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔ ساری کلاس شش و پنج میں مبتلا تھی۔ سبھی اس بدلاؤ کی وجہ جاننا چاہ رہے تھے۔ سر وقار نے سب کی دل چسپی دیکھی تو سکوت توڑا،
”پیارے بچو!مجھے بہت خوشی ہوئی کہ منیب نے صبح کی سیر کا آغاز کیا۔سب بچوں کو اس کی عادت ڈالنی چاہیے مگر سیر کے اصل مقصد سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ اس پھول کی خوشبو کہاں غائب ہو گئی؟“
تمام بچے’جی سر‘کرتے ہوئے پوری طرح متوجہ ہوگئے۔سر وقار نے جب سب کی توجہ محسوس کی تو بولے:
”بچو! یہ انتہائی سادہ سا عمل ہے۔پھولوں کی خوشبو ان کی پتیوں میں ہوتی ہے۔ان پتیوں کے اندر چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں،جن میں غدود ایک خاص قسم کا تیل پیدا کرتے ہیں۔یہ تیل مسلسل بخارات میں بدل کر اڑتا رہتا ہے۔یہی خوشبو ہے۔رہی بات اس پھول کی خوشبو کے غائب ہونے کی، جب پھول اپنی عمر پوری کر کے مرجھا جاتے ہیں تو اس کی پتیوں میں موجود غدود یہ تیل پیدا کرنا بند کر دیتے ہیں۔ یوں خوشبو ختم ہو جاتی ہے۔منیب نے جب پھول توڑا تو یہ اپنی عمر پوری کیے بنا جلد مرجھا گیا۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پھول توڑنا بری بات ہے۔پودے بھی ہماری طرح جاندار ہیں،انھیں زندہ رہنے کا پورا حق ہے۔“
سر وقار کی باتیں سن کر جہاں ساری کلاس خوشبو کے انوکھے راز سے واقف ہو گئی،وہیں منیب کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوگیا۔اس کے ساتھ پوری کلاس نے صبح کی سیر پابندی سے کرنے کا عہد کر لیا۔
اگلی صبح پارک کی رونق میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔سب بچے خوشبو کے جھونکے لیتے ہوئے تیز تیز قدموں کے ساتھ سیر کر رہے تھے۔منیب کے آس پاس کئی ’پھول‘ تھے جو اس کے ہم سفر بھی تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں