woman, red, girl-1905529.jpg 154

کالی برساتی

تحریر:فلک زاہد

جرمنی کے خوب صورت و پرسکون قصبے لیونابرگ میں جیک وارنر حال ہی میں منتقل ہوا تھا۔ وہ پچیس چھبیس سال کا خوبرو و وجیہہ نوجوان تھا۔ اس نے ابھی ابھی اپنی ہاؤس جاب مکمل کی تھی اور لیونابرگ قصبے کے ایک ہسپتال میں بطور ڈاکٹر تعینات ہوگیا تھا۔ وہ اپنی فیملی کو اپنے شہر ہیمبرگ میں ہی چھوڑ کر خود اکیلا یہاں چلا آیا تھا۔ اس نے لیونابرگ میں اپنے لیے اچھا سا مکان تلاش کیا اور اس میں منتقل ہو گیا۔ وہ خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ نیک دل، خوش اخلاق اور خوش گفتار بھی تھا۔ اپنے مریضوں کے ساتھ بہت رحم دلی سے پیش آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی ہسپتال میں اس کی بہت عزت کرتا تھا۔ قصبے میں بھی جب کسی مریض کو علاج کی ضرورت پیش آتی تو وہ ڈاکٹر جیک وارنر کے پاس بھاگا چلا آتا۔ وہ بہت توجہ سے ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ جو مریض چل کر اس کے پاس نہ آ سکتے، جیک خود ان کے پاس جا کر انھیں دیکھ آتا۔ غریب مریضوں کا علاج وہ مفت بھی کر دیا کرتا تھا۔ دن ہو یا رات وہ ہر وقت اپنے مریضوں کے لیے میسر رہتا تھا۔ صبح سے شام تک وہ ہسپتال میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتا۔ شام کے بعد جو وقت بچ جاتا تو وہ قصبے کے دیگر مریضوں کو دیکھ لیتا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ رات کے کسی وقت کسی مریض کی حالت بگڑ گئی اور لوگوں نے آکر اس کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جیک نے کبھی انہیں مایوس نہ لوٹایا۔ وہ فوری اپنا ڈاکٹری بیگ اٹھا کر مریض کے معائنے کے لیے چل پڑتا تھا۔ اسی لیے علاقے بھر میں ہر کوئی اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور اس کا احترام بجا لاتا تھا۔ قصبے کا ہر شخص اسے احترام سے ڈاکٹر جیک کہہ کر پکارتا تھا۔ اپنی اس نیک طبیعت کے باعث جلد ہی وہ اپنے پڑوسیوں میں بھی گھل مل گیا۔
پڑوس میں مختلف مریضوں کا معائنہ کرنے کے دوران ہی اسے یہ بات معلوم ہوئی کہ قصبے سے باہر جانے والی سڑک آسیب زدہ ہے۔ لوگ دن میں ہی آمدورفت کے لیے اس سڑک کا استعمال کرتے تھے شام کے بعد وہاں سے اکا دکا ہی گاڑیاں گزرتی تھیں۔ جیک بھوت پریت جیسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا اور ان باتوں کو قصبے میں رہنے والے سادہ لوح لوگوں کی دقیانوسی ذہنیت سمجھتا تھا۔ اسی لیے اس نے کبھی یہ جاننے میں دلچسپی بھی نہ رکھی تھی کہ اس سڑک سے متعلق قصبے والے یہ باتیں کیوں منسوب کرتے ہیں۔ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی اپنی گاڑی پر خود ڈرائیو کر کے اپنی فیملی کے پاس ہیمبرگ جاتا تھا اور یہ سفر وہ دن میں ہی کرتا تھا۔ رات کو کبھی اسے اس سڑک پر سفر کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، لہٰذا قصبے والوں کی باتوں میں کتنی سچائی ہے، وہ نہیں جانتا تھا۔
ایک روز وہ معمول کے مطابق ہیمبرگ اپنی فیملی سے ملنے گیا۔ وہاں اس کی چھوٹی بہن کی سالگرہ پارٹی تھی، جس میں پوری فیملی نے مل کر خوب انجوائے کیا۔ چار افراد پر مشتمل اس کا چھوٹا سا خاندان تھا۔ اس کی والدہ، دو چھوٹی بہنیں اور وہ ہیمبرگ میں پرسکون و مطمئن زندگی گزار رہے تھے۔ شاید وہ کچھ دن مزید ان کے پاس رہتا لیکن ایک شام اسے لیونابرگ کے ہسپتال سے کال موصول ہوئی کہ وہ اگلی صبح ہر حال میں ڈیوٹی پہ لوٹ آئے کیوں کہ ہسپتال میں سٹاف کی ضرورت تھی۔ چوں کہ یہ ایک ایمرجنسی کال تھی، چناں چہ جیک وارنر ضروری سازو سامان کے ساتھ سرشام ہی لیونابرگ کی جانب روانہ ہوگیا۔ آج پہلی مرتبہ وہ شام کا سفر کر رہا تھا۔ قصبے کے قریب پہنچتے پہنچتے رات کا دوسرا پہر شروع ہوچکا تھا۔
یہ دسمبر کی طویل سرد راتوں کا آغاز تھا۔ رات بہت گہری اور تاریک تھی۔ ہر طرف پرہول سناٹا اور گہرا اندھیرا مسلط تھا۔ آسمان کی سیاہ چادر پر بھی آج چاند اور ستاروں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا جس کی وجہ سیگہرا اندھیرا ہر سو پھیلا ہوا تھا۔ اس دبیز اندھیرے کو گاڑی کی ہیڈ لائیٹس بھی کم کرنے میں ناکام تھیں۔ جیک وارنر کی سفید گاڑی جس سڑک پر بھاگ رہی تھی۔ اس کے دونوں اطراف گھنا جنگل تھا۔ قد آدم درختوں کا لامتناہی سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ گاڑی کے تمام شیشے بند اور اندر ہیٹر آن تھا، لہٰذا جیک سکون سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ سٹیرنگ پر تھرک رہے تھے اور ایکسلریٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھتا ہی جاتا تھا۔ ڈرائیونگ کرنا اسے پسند تھا خاص کر سردیوں کی طویل راتوں میں۔ گاڑی کے اندر ریڈیو میں کوئی ساٹھ کی دہائی کا پرانا انگریزی گانا چل رہا تھا۔
معاً آسمان پر کڑاکے کی بجلی گرجی جس نے لمحے کے لیے گردونواح کو روشن کر دیا مگر اگلے ہی پل آسمان کا سنگلاخ سینہ کڑکتی بجلی کو اپنے اندر سما لے گیا جس سے چار سو پھر سے تاریکی چھا گئی۔ تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے تھے جس سے اطراف کے درخت آپس میں گتھم گتھا ہوگئے۔ بادل کسی شیر کی مانند دہاڑ رہے تھے۔ بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک مل کر ایک عجیب خوفناک ماحول پیدا کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ دھواں دھار بارش گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی طرح گاڑی کے بونٹ پر گر رہی تھی۔ گاڑی کے وائپر تیزی سے ونڈ سکرین کو صاف کرتے جاتے تھے۔ تیز ہوائیں، کڑکتی بجلی، گرجتے بادل اور زور دار بارش طوفان کا روپ دھارنے لگے تھے۔ اطراف میں موجود درختوں کے پتے بری طرح ہواؤں کے زور پر لہرا رہے تھے۔ خراب موسم کے باعث گاڑی کے اندر چلتا ریڈیو بھی جواب دے گیا تھا۔ ریڈیو میں سے بے ہنگم آوازیں ابھرنے لگی تھیں۔ لہٰذا جیک نے ریڈیو بند کر دیا۔ اب صرف منہ زور طوفان کا سماعت شکن شور تھا جو جاری و ساری تھا۔ جیک اس قدر خراب موسم سے بالکل نہیں گھبرایا تھا۔ وہ ایک نڈر نوجوان تھا، لہٰذا اطمینان سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔ تاہم بڑھتے ہوئے طوفان کے پیشِ نظر گاڑی کی ہیڈ لائٹس کے باوجود سڑک پر راستہ دیکھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اب بہت محتاط ہوکر ڈرائیونگ کر رہا تھا کہ دفعتاً اس نے گاڑی کو بریک لگائے۔ گاڑی کے ٹائر اس اچانک افتاد پر چیخ اٹھے۔ سیٹ بیلٹ لگی ہونے کے باوجود جیک سٹرینگ وہیل پر خود بھی جھک سا گیا تھا۔
جیک نے جو نظرے اٹھا کر اوپر دیکھا تو سامنے ایک خوبصورت دوشزہ کو کھڑا پایا۔ وہ کالی برساتی میں کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھی جس کاچھجا اس کے سر پر موجود تھا۔ اگر جیک بروقت بریک نہ لگاتا تو ایک خوفناک حادثہ پیش آ سکتا تھا۔ وہ لڑکی گاڑی کے نیچے آکر مر سکتی تھی۔ خراب موسم کی وجہ سے جیک اسے دیکھ نہ سکا تھا۔ وہ نہ جانے کہاں سے سڑک کے درمیان آ موجود ہوئی تھی۔ وہ تو شکر تھا کہ وہ دکھائی دے گئی تھی ورنہ گاڑی کے نیچے آکر کچلی جاتی۔ جیک نے فوری اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا تو وہ لڑکی چلتی ہوئی اس کے قریب آ گئی۔
”کون ہو تم، اور یہاں کیا کر رہی ہو؟“ جیک نے پوچھا۔
”میرا نام ازابیلا ہے، میری گاڑی خراب ہوگئی ہے۔ کیا مجھے لیونابرگ تک لفٹ مل سکتی ہے؟“ وہ شیشے کے پاس جھک کر بولی۔
جیک سوچ میں پڑ گیا۔ رات کا وقت تھا اوپر سے دھواں دھار بارش برس رہی تھی۔ ایسے خراب موسم میں وہ اس لڑکی کو تن تنہا رات کے اس پہر اس جنگل میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ لہٰذا جیک نے زیادہ نہ سوچا اور بولا:
”میں بھی وہیں جا رہا ہوں…آجاؤ!“
وہ لڑکی گاڑی کی دوسری طرف جاکر دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ کے برابر آ بیٹھی۔ جیک گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ وہ لڑکی سردی سے کانپ رہی تھی اور اپنے ہاتھوں کو گرمائش کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ رگڑ رہی تھی۔ اس نے گیلی برساتی اتار کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی۔ جیک نے اس کو بیک ویو مرر سے دیکھا۔ وہ جینز اور شرٹ میں ملبوس تھی۔ اس کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں۔ گاڑی میں چلتے ہیٹر کے باعث اس کی کپکپاہٹ دور ہوگئی اور جلد ہی پرسکون ہوگئی۔ موسم کے تیور بدستور خطرناک حد تک خراب تھے۔ دونوں کو آپس میں بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا، کیونکہ گاڑی قصبے میں داخل ہوچکی تھی۔
ازابیلا نے جیک کو اپنے گھر کا راستہ سمجھایا اور جیک نے کچھ ہی پل میں اس کے بتائے گئے پتے پر گاڑی روک دی۔ ازابیلا نے اس مشکل وقت میں مدد کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی سے اتر کر اپنے گھر کے اندر چلی گئی۔ اب جیک کا رخ اپنے گھر کی طرف تھا۔ قصبے کے اندر موسم کے تیور کسی حد تک اعتدال پر تھے۔ جیک اپنے گھر پہنچا اور گیراج میں اپنی گاڑی کھڑی کی تو اسے احساس ہوا کہ ازابیلا اپنی کالی برساتی گاڑی میں ہی بھول گئی ہے۔ شام سے مسلسل ڈرائیونگ کر کے جیک بہت تھک چکا تھا۔ اوپر سے رات کا وقت تھا اور موسم بھی خراب تھا۔ ایسے میں جیک کو واپس جانا کچھ مناسب نہیں لگا۔ اس نے سوچا، وہ کل صبح ازابیلا کو اس کی برساتی واپس کر آئے گا۔ چناں چہ جیک گھر کے اندر اپنے کمرے میں چلا آیا اور بستر پر بنا چینج کیے ہی دراز ہوگیا۔ وہ اس قدر تھکا ہوا تھا کہ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔
اگلی صبح جیک کی آنکھ موبائل فون کی رنگ سے کھلی۔ کال ہسپتال سے تھی۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو دس بج رہے تھے۔ وہ اتنی دیر بے خبر سوتا رہا تھا، اسے کوئی ہوش ہی نہیں رہی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھا، نہا دھو کر چینج کیا، گھر میں جو کچھ موجود تھا اس سے ہلکا پھلکا ناشتا کیا اور گیراج میں آکر اپنی گاڑی سٹارٹ کی۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ازابیلا کی کالی برساتی جوں کی توں پڑی تھی۔ ہسپتال جانے سے قبل اس نے ازابیلا کو اس کی برساتی لوٹانے کا سوچا اور گاڑی گیراج سے نکال کر بھگا لے گیا۔
گزشتہ رات جس گھر کے سامنے اس نے ازابیلا کو اتارا تھا، اس گھر کی جیک نے ڈور بیل بجائی اور چند لمحے انتظار کو رکا۔ اس کے ہاتھ میں ازابیلا کی کالی برساتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک عمر رسیدہ عورت گھر سے باہر آئی۔ جیک نے اسے برساتی پکڑاتے ہوئے کہا:
”گزشتہ شب میں نے آپ کی بیٹی ازابیلا کی گاڑی خراب ہونے پر اسے قصبے سے باہر جانے والی سڑک سے گھر تک لفٹ دی تھی۔ وہ اپنی یہ برساتی میری گاڑی میں ہی بھول گئی تھی، اس لیے واپس دینے آیا ہوں۔“
عمر رسیدہ عورت یہ سن کر رونے لگی۔ اسے روتا دیکھ کر جیک حیران پریشان ہوگیا۔
”کافی سال پہلے میری بیٹی ازابیلا قصبے سے باہر جانے والی سڑک پر ایک حادثے میں ماری گئی تھی۔ گاڑی والے نے اسے بری طرح اپنی گاڑی کے ٹائروں کے نیچے کچل دیا تھا۔ اس وقت وہ یہی برساتی پہنے ہوئے تھی۔“
وہ عورت روتی ہوئی برساتی لے کر گھر کے اندر چلی گئی جبکہ جیک وہاں ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔ وہ جو بھوت پریتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا، اب اسے سمجھ آگئی تھی۔ یہ قصبے کے سادہ لوح لوگ اس سڑک کو آسیب زدہ کیوں کہتے تھے۔ وہ سادہ لوح لوگ سچے نکلے تھے۔ وہ جھرجھری لے کر رہ گیا۔ چند لمحوں کے لیے سہی لیکن اس نے ایک روح کے ساتھ سفر کیا تھا جس نے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ بھر دی تھی۔ وہ حواس باختہ گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال کی جانب روانہ ہوگیا۔ اس نے رات کے وقت اکیلے سفر کرنے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی تھی۔

فلک زاہد کی دل چسپ کہانی مجسمہ ساز پڑھنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

کالی برساتی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں