139

کیٹی پاری ___تنزیلہ احمد

شہری آبادی کے بیچ و بیچ واقع رہائشی کالونی کے ایک خوب صورت سے گھر میں اس وقت ہو کا عالم تھا۔ سبھی بڑے چپ چاپ لاؤنج میں بیٹھے اس کے اترے چہرے کو اداسی سے دیکھ رہے تھے۔
”بس بھی کرو بیٹا۔“پاپا نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی۔ جب سے وہ آفس سے لوٹے تو اسے ایسی حالت میں ہی دیکھا تھا۔
”اور کتنا منہ لٹکانا ہے؟ لٹک لٹک کر پہلے ہی پیٹ تک آ گیا ہے۔ دھیان سے کہیں گر ہی نہ جائے۔“
حدید نے مسکراہٹ دباتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا تو زید نے اسے پہلے حیرت سے دیکھا اور پھر شرارت سمجھ کر بسورنے لگا۔
”بھیا….!“ آنسو اس کی پھولے گالوں پر لڑھکنے لگے۔
”بس میری جان اتنا نہیں روتے۔ اللہ بہتر کرے گا۔“ ممی نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے سر پر بوسا دیا تھا۔
گھر کا چھوٹا بچہ ہونے کے باعث سات برس کا زید سب کا لاڈلا تھا۔ اس کی اور بڑے بھائی حدید کی عمر میں پانچ برس کا فرق تھا۔ حدید اس کے ساتھ بہت کم کھیلتا۔ اس کا زیادہ تر وقت اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گزرتا تھا اور زید کا اپنے دوستوں کے ساتھ۔
دس بارہ روز قبل اپنے دوستوں کے ساتھ پارک میں کھیلتے ہوئے زید کو باڑھ کے پاس بلی کا سفید رنگ کا ایک چھوٹا اور کمزور سا بچہ نظر آیا۔ وہ شاید بھوکا پیاسا تھا۔ زید اسے احتیاط سے اٹھا کر اپنے گھر لے آیا۔ اسے کھانا کھلایا، نہلایا دھلایا، صاف ستھرا کیا اور پیار سے بلی کے بچے کو کیٹی کا نام دے دیا۔ اس سب کے بعد بھی کیٹی اس سے ذرا کچھی کھچی سی تھی۔ وہ پیار کرنے اس کے پاس جاتا تو وہ ہلکی سی آواز میں ”می ی ی یا اؤں“ کہتی باہر کو چل دیتی۔ وہ اسے اپنی پالتو بلی بنانا چاہتا تھا۔
”میں اس کا خیال رکھا کروں گا تو کچھ دنوں میں مانوس ہو جائے گی۔“
اس نے سوچا تھا، مگر یہ تو کچھ اور ہی ہو گیا تھا۔
”ارے! یہ کیا ہوا؟“
ممی نے اس کے بازو پر خراشیں دیکھ کر پوچھا۔ خراشوں پر تازہ تازہ خون رس کر جم چکا تھا۔
”وہ…. وہ ممی….!“
”کیا وہ؟“ پاپا نے پوچھا۔
”جب میں کیٹی کو ڈھونڈنے نکلا تو ٹھوکر کھا کر گر گیا۔ سڑک پر گرنے سے یہ چوٹ آ گئی۔“
اس نے سر جھکاتے ہوئے دھیمی آواز میں انھیں بتایا۔
”چلو اس کی کیٹی پاری تو ملی نہیں، الٹا نشانی کے طور پر یہ زخم مل گیا۔“
حدید نے ہنستے ہوئے کہا تو زید کے ساتھ ساتھ امی ابو نے بھی اسے گھورا۔ زید کی کیٹی کو شرارت سے وہ کیٹی پاری کہتا تھا۔
”فضول باتیں نہ کیا کرو۔“
پاپا نے حدید کو تنبیہ کی اور پھر زید کو دیکھا۔
”او ہو! آپ کو ہمیں پہلے بتانا چاہیے تھا۔ سڑک پر سو طرح کے جراثیم ہوتے ہیں، کوئی انفیکشن لگ گیا تو پھر؟ ابھی اٹھو! آپ کو انفیکشن سے حفاظتی ٹیکہ لگوانا بہت ضروری ہے۔“
ٹیکے سے تو اس کی جان جاتی تھی مگر ابھی وہ خاموش رہا کہ پاپا کی بات ماننا ضروری تھی۔
ٹیکہ لگوانے کے بعد گھر آتے ہی وہ لان کی طرف چل دیا۔ اندھیرے میں ڈوبے لان کا مشرقی کونا دیکھ اس کی آنکھوں سے کچھ آنسو ٹپکے تھے۔ رات ہو چکی تھی۔ اس نے اداس نظروں سے لان اور بیرونی گیٹ کو دیکھا تھا۔
”پتا نہیں میری کیٹی اب کہاں ہو گی؟“
دکھ سے سوچتے ہوئے تھکے قدوں سے چلتا اپنے کمرے میں آ گیا۔ دو تین روز میں چوٹ ٹھیک ہو گئی تھی پر اس کی بے چینی اور اداسی کم نہیں ہوئی تھی۔
جب سے ممی نے اسے بتایا کہ ”بلیاں رستہ نہیں بھولتیں۔فکر نہ کرو، کیٹی کو اگر کسی نے پکڑ بھی لیا ہو تو موقع ملتے ہی وہ گھر واپس آ جائے گی۔“
وہ خوش ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں امید کا ننھا سا پودا اُگ آیا اور وہ کیٹی کی واپسی کے خواب دیکھنے لگا۔
”آئی ایم سوری اللہ جی! مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔مجھے معاف کر دیں۔“
رات سونے سے قبل آنکھیں میچ کر اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی ہتھیلیاں جوڑ کر دعا مانگی۔
اس نے گھر میں کسی کو بھی یہ سچ نہیں بتایا تھا کہ اس کی کلائی پر خراشیں کیسے آئی تھیں۔ اس روز وہ کھیلنے کے ارادے سے کیٹی کو تلاش کرتا ہوا لان میں آیا تھا۔ وہ لان کے کونے والی دیوار کی طرف منہ کیے سو رہی تھی۔ زید نے چپکے سے جا کر جیسے ہی اسے دبوچا تو پتا نہیں کیٹی کو کیا ہوا، وہ ایک دم پلٹی اور اس کی کلائی پر اپنا پنجہ مار دیا۔ اسے کیٹی کی یہ حرکت بہت بری لگی اور جب خراشیں دکھنے لگیں اور خون رستا دیکھا تو اس پر بہت غصہ آیا۔
اس نے ایک بار ممی کو کہتے سنا تھا کہ ”بلی کو تکلیف نہیں پہچانی چاہیے اور نہ مارنا چاہیے۔ بہت نقصان کر دے، تب بھی نہ مارو۔ بلی موذی جانور نہیں۔ اسلام میں بلی کے ساتھ پیار سے پیش آنے اور نرمی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ بلی نقصان کرے تو بھی اسے مارنے کی بجائے کہیں اور چھوڑ آئیں۔“
٭
آج کیٹی کو کھوئے چوتھا روز تھا۔ معمول کے مطابق وہ اسکول سے لوٹا اور کپڑے بدلے۔
”آپ کی پسند کے آلو کے پراٹھے بنائے ہیں، ساتھ میٹھی دہی ہے۔“
زید کھانے کی میز پر آ کر بیٹھا تو ممی نے خوشی سے بتایا۔ تبھی اسے اپنے پاؤں پر گدگدی سی محسوس ہوئی۔ جیسے ہی اس نے نیچے دیکھا، ”می ی ی یا اؤ ں“ کی آواز مانوس آواز سنائی دی۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔
”میری کیٹی آ گئی… یا ہو! یہ کب آئی ممی؟“
”جب آپ اسکول گئے ہوئے تھے تب یہ گھر کے دروازے کے باہر بیٹھی تھی۔ میں ایک کام سے باہر گئی، دروازہ کھولا تو یہ بھاگ کر اندر آ گئی۔ تب سے آپ کو ڈھونڈ رہی تھی۔“
زید کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا تھا۔ اس کے ساتھ مل کر کیٹی نے بھی آلو کا تھوڑا سا پراٹھا کھایا۔ دودھ ممی اسے پہلے ہی دے چکی تھیں۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اسے نہلانے دھلانے لے گیا۔ وہ پتا نہیں کتنی دور سے آئی تھی، میلی میلی سی بھی لگ رہی تھی۔ اپنی کیٹی پاری کے مل جانے پر اس نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا۔ وہ غصے میں کیے گئے اپنے غلط فیصلے پر شرمندہ تھا۔ اپنے جھوٹ اور غلطی پر اللہ سے توبہ بھی کر چکا تھا۔
گھر والے سمجھ رہے تھے کہ کیٹی گم گئی تھی، مگر صرف وہی جانتا تھا کہ کیٹی کھوئی نہیں تھی۔ بل کہ وہ اس کی حرکت پر غصے میں آ کر خود ہی اسے بوری میں ڈال کر پارک لے گیا تھا اور وہاں کھڑے اس چھوٹے ٹرک میں رکھ آیا جس پر کسی کا سامان کہیں جا رہا تھا۔ یہ ایسا راز تھا جو اس نے کسی کو نہیں بتایا اور بتانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ کیٹی خیریت سے گھر واپس آ چکی تھی۔ اس کے لیے یہ ہی کافی تھا۔
تو پیارے بچو! زید کی کیٹی پاری کی گم شدگی کا راز آپ بھی کسی کو کبھی نہ بتائیے گا۔٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں