86

جُدائی کا احساس ___ عاطف حسین شاہ

بلال ہفتم جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کی بنا پر بہت ہی لاڈلا اور چہیتا تھا۔ بلال کے والدین اُس کی ہر جائز اور ناجائز خواہش پورا کرنے کی کوشش میں رہتے تھے۔بے جا لاڈ پیار نے بلال کو بہت شرارتی بنا دیاتھا۔ وہ اب ایسی حرکتیں کرتا رہتا،جن سے دوسروں کا نقصان ہوتا۔ وہ اتنا بدتمیز ہو چکا تھاکہ والدین کی نصیحتوں کو ایک کان سے سُنتا اور دوسرے کان سے نکال دیتا۔
ایک دن بلال عصر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں گیا، واپسی پر جب وہ گھر آ رہا تھا تو راستے میں اُسے ایک چڑیا کے ننھے مُنے بچوں کی آوازیں سُنائی دیں۔ بلال کو فورًا شرارت سوجھی۔ وہ درخت پر چڑھا، چڑیا کے بچوں کو ہاتھوں میں دبوچا اورچپکے سے نیچے اُتر آیا۔ پھر اُس نے اپنے گھر کی جانب دوڑ لگا دی۔ چڑیا بے چاری ”چوں….چوں“ کر کے چیختی رہ گئی۔
اُن دنوں،بلال کی خالہ اپنے بچوں کے ساتھ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے اُن کے گھر آئی ہوئی تھیں۔ بلال بہت خوش تھا۔نعمان بھی گاؤں کی فضا میں بہت سکون محسوس کر رہا تھا۔وہ اپنے خالہ زاد بھائی نعمان کے ساتھ مِل کر خوب کھیلتا۔ وہ دونوں مِل کر چھٹیوں کا کام کرتے اور چڑیا کے بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتے۔ ایک دِن بلال اور نعمان گھر سے سیر کے لیے نکلے تو چلتے چلتے وہ اُسی درخت کے پاس سے گزرے، جس سے بلال چڑیا کے بچوں کو گھونسلے سے نکال کر گھر لے آیا تھا۔ بلال نے دیکھا کہ ایک چڑیا گھونسلے میں اُداس بیٹھی تھی۔ کچھ چڑیائیں اُس کے ارد گرد چہچہا رہی تھیں۔نعمان سے چڑیا کی یوں اُداسی دیکھی نہ گئی۔اُس نے سوچا کہ کیوں نہ چڑیا کے بچوں کو واپس اپنی ماں کے پاس پہنچا دیا جائے۔یہ خیال آتے ہی وہ بلال کے گھر کی جانب دوڑ پڑا۔بھاگتے بھاگتے اچانک وہ رُکا اور اِردگرد دیکھنے لگا۔اُسے یہ جگہ انجانی محسوس ہوئی۔بہت جلد اُس پر یہ انکشاف ہو گیا کہ وہ راستہ بھول چکا ہے۔
بلال، اُسی درخت پر بیٹھی اُداس چڑیا کو دیکھ رہا تھا۔ اگلے ہی لمحے اُس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ نعمان وہاں موجود نہیں تھا۔ بلال نے اُسے بہت تلاش کیا مگر نعمان اُسے نہ ملا۔آخر بلال روتا بسورتا گھر واپس آ گیا۔ اُس نے گھر والوں کو ساری بات بتائی۔ بلال کی خالہ نے اپنے بیٹے کے گم ہونے کی خبر سُنی تو وہ بے ہوش ہو کے گر گئیں۔ بلال کی امی نے اُن کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تو اُنھیں کچھ ہوش آیا مگر اپنے بیٹے کو پاس نہ دیکھ کر وہ پھر سے رونے لگیں۔
بلال کے ابو جب ڈیوٹی سے لوٹے تو گھر میں قیامت کا منظر تھا۔ وہ اُلٹے قدموں نعمان کی تلاش میں گھر سے نکل گئے۔ بلال نے جب خالہ کو اپنے بیٹے کے لیے یوں روتے تڑپتے دیکھا تو اُس کے ذہن میں اُداس بیٹھی چڑیا کا خیال آیا، جس کے بچوں کو وہ گھونسلے میں سے نکال کر گھر لے آیا تھا۔ اُس نے سوچا کہ یقیناً وہ چڑیا بھی اپنے بچوں کی جدائی میں ایسے ہی تڑپ رہی ہو گی۔ یہ احساس ہوتے ہی بلال بھاگ کر اُن بچوں کے پاس گیا اور اُنھیں بڑے پیار کے ساتھ اُٹھا کر اُسی گھونسلے میں رکھ آیا۔
بلال جب اپنے گھر پہنچا تو اُس کے ابو نعمان کو لے کر گھر آ چکے تھے۔ وہ اُنھیں ایک دکان کے پاس بیٹھا دکھائی دیا تھا۔نعمان کی امی اُسے گود میں بٹھا کر پیار کر رہی تھیں۔ بلال اُنھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
بلال کی بے چینی ابھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ وہ چڑیا کو خوش ہوتے دیکھنا چاہتا تھا۔ اگلے دن بلال ایک بار پھر نعمان کے ہمراہ اُسی درخت کے پاس گیا جس کے اوپر چڑیا کا گھونسلا تھا۔ بلال نے دیکھا کہ اُداس چڑیا آج خوشی سے ”چوں….چوں“ کر رہی تھی اور اپنے بچوں کے منہ میں دانہ دُنکا ڈال رہی تھی۔یہ دیکھ کر بلال بہت خوش ہوا،اُس کی بے چینی بھی جاتی رہی۔ بلال نے آئندہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں