bridge, park, grass-2767545.jpg 77

ہریالی ___ عاطف حسین شاہ

وہ بس اسٹینڈ پر اترا اور تیز تیز قدموں کے ساتھ اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگا۔اُس کے چہرے پر بے پناہ خوشی کے آثار تھے۔وہ خود کو کسی فاتح کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔یہ کیفیت توہرمہینے کے آغاز میں اُس پر طاری ہوا کرتی تھی،مگر آج اس کیفیت میں کافی شدت تھی کیوں کہ آج وہ علی سے کیا وعدہ پورا کرنے کی حالت میں تھا۔اپنی جیب نوٹوں سے بھری ہوئی محسوس کرکے وہ بہت خوش تھا۔
شوکت عدلیہ کے محکمے میں گزشتہ پندرہ برسوں سے اپنے فرائض پوری ایمانداری سے سرانجام دے رہاتھا۔یہ حلال کمائی ہی کااثر تھا کہ وہ بے حد پرسکون تھا۔اُس پریہ کیفیت اس قدر غالب تھی کہ اُسے گرمی کا احساس تک نہیں ہورہا تھا،جب کہ اُس کے کپڑے پسینے سے تر تھے۔ اسی کیفیت میں وہ اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اُس کا دس سالہ بیٹا علی بظاہر بلاکس گیم کھیلنے میں مگن تھا،مگردراصل وہ ابو کے انتظار میں تھا۔ علی نے جب ابو کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تواُس کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔
”السلام علیکم ابو جی!“ علی نے ادب سے سلام پیش کیا۔
”وعلیکم السلام بیٹا! ذرا پانی تو پلا دو۔“ شوکت رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولا۔
علی فوراًپانی لے آیااور سوالیہ نظروں سے ابو کا چہرہ تکنے لگا۔شوکت نے پانی پیتے ہوئے اپنے بیٹے کی کیفیت بھانپ لی۔وہ پرجوش لہجے میں بولا:
”بیٹا! وعدے کے مطابق کل ہم بازار چلیں گے۔“
یہ سنتے ہی علی کا دل خوشی سے ناچنے لگا۔وہ خوشی پر قابو پاتے ہوئے بمشکل بولا:
”ٹھیک ہے ابو جی،شکریہ۔“
علی مسلسل مسکرا رہا تھا۔کافی دیر تک وہ تصور میں بازار کی رنگارنگ گلیوں کی سیر کرتا رہا۔خوشی کے احساس کے ساتھ ہی اُسے بے چینی ستانے لگی۔ اب اُسے کسی طرح یہ رات کاٹنی تھی۔رات کوبستر پر لیٹ کر بھی وہ گھنٹہ بھرخیالوں میں کھویا رہا۔اُسے خبر ہی نہ ہوئی کہ کب نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
قریب آٹھ بجے کا وقت تھا۔کہنے کو تو صبح تھی مگر سورج نے دن کی ابتدائی گھڑیوں ہی میں آگ برسانا شروع کردی تھی،یوں جیسے بدن میں سوئیاں چُبھ رہی ہوں۔ماحول اچانک سے حبس کی لپیٹ میں آگیا تھا۔علی اور اُس کے ابو ناشتا کرنے کے بعدبازار جانے کے لیے تیار ہوچکے تھے۔علی بے حد خوش تھا۔وہ من پسند چیزیں خریدنے کے لیے بے تاب تھا۔گھر سے نکلنے سے قبل شوکت نے اپنی بیوی سے سودا سلف والی فہرست بنوا لی تھی۔ پھر دونوں باپ بیٹابازار کے لیے نکل پڑے۔ایک رکشے کا سہارا لے کر وہ بازار میں پہنچ گئے۔
بازار کی رنگینی دیکھنے لائق تھی۔ اُس کی سجاوٹ ایسے گلشن کی مانند تھی جو پھلوں اور پھولوں سے لدا ہوتا ہے۔ دکانیں اور ٹھیلے عجب سماں پیش کررہے تھے۔ وطن سے عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے دیدہ زیب اشیا سلیقے سے دھری تھیں۔ کپڑے سے بنے بے شمار پرچم فضا میں لہرا رہے تھے۔ دل کش بیج، گھڑیاں، چھلے،کیچر(کلپ)، ٹوپیاں، غبارے، شرٹس…..غرض روزمرہ کی ہرچیز ہی ہرے رنگ میں نہائی ہوئی تھی۔ یہ ہرا رنگ چودہ اگست کی آمدکی نویدتھاجو کہ پیارے ملک پاکستان کے قیام کی تاریخ ہے۔یہ بہاریں تاحد نگاہ دیکھی جا سکتی تھیں۔اس کے ساتھ ساؤنڈسسٹم میں بلند آوازکے ساتھ ملی نغمے گونج رہے تھے۔اُن نغموں کی گونج وطن سے محبت کے جذبات کو اُبھاررہی تھی۔
علی خود کو کسی ہوش رُبا ماحول میں دیکھ رہا تھا۔ اُس کا بس چلتا تو وہ یہاں سے سب کچھ سمیٹ کر بھاگ نکلتامگر ایسا کہاں ممکن تھا۔ پھر وہ دونوں ایک دکان کے سامنے رک گئے۔اس دکان پر تقریبًاتمام ورائٹی دستیاب تھی۔ شاید اسی لیے یہاں گاہکوں کاکافی ہجوم تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے خریداری کررہے تھے۔یہاں میٹھے کم اور تلخ الفاظ کا زیادہ تبادلہ ہورہاتھا۔گرمی کا زور گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا چلاجا رہا تھا۔
اچانک علی کو اپنے سر میں دباؤ سا محسوس ہوااور اس کاجی گھبرانے لگا۔اُس نے ہمت کرکے خود پر قابو پایا۔ دکان کا جائزہ لیتے ہوئے اُس نے اپنے گھر کی چھت پر لگانے کے لیے ایک بڑا پرچم پسندکیا۔ یہ پرچم انھوں نے پانچ سو روپے میں خریدا۔ابھی علی نے مزید کچھ چیزیں خریدنی تھیں کہ وہی کیفیت اُس پرپھر سے طاری ہوئی اور وہ دھڑام سے زمین پہ آ گرا۔ شوکت نے علی کو اِس حال میں دیکھا تو اُس پر بوکھلاہٹ طاری ہوگئی۔وہ علی کو بازوؤں میں اٹھائے ہسپتال کی جانب دوڑ پڑا۔
شوکت کے چہرے پر فکر کے سائے منڈلانے لگے۔ وہ پُرامید نظروں سے نرس کی جانب دیکھ رہا تھا۔بلڈپریشراور ٹمپریچر چیک کرنے کے بعد نرس بولی:
”پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔شاید یہ معاملہ ہیٹ اسٹروک کے زیرِاثرپیش آیا۔گرمی کی شدت سے فضا بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ انھیں ممکنہ حد تک دھوپ سے بچائیں اور ٹھنڈے مشروبات پلائیں۔“
”بہت شکریہ سسٹر! کوشش ہوگی کہ آپ کی تجاویز پر عمل کریں مگر دھوپ سے کیسے بچا جائے،جب کہ ہرطرف دھوپ ہی دھوپ ہے۔“
”آپ نے ٹھیک کہا،چھاؤں تو درختوں سے ہوتی ہے۔یہ ہمارے ملک کی مجموعی صورت حال ہے، یہاں درخت کاٹنے پر تو زور ہے مگر لگانے سے متعلق کوئی نہیں سوچتا۔“
شوکت نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نرس کا شکریہ ادا کیا اور علی کو لیے پھر سے بازار کی جانب چل دیا۔
بازار کی سجاوٹ میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی تھی۔ہرا رنگ ہر جانب نمایاں تھا۔سب کچھ وہی تھا مگر علی کو اب وہ گلشن ایک مصنوعی نمائش محسوس ہورہا تھا۔ہر چیز اُس کا منہ چڑا نے لگی تھی۔اُسے کچھ بھی پسند نہیں آرہا تھا۔ کئی دکانوں سے خالی ہاتھ نکل کر دونوں آگے بڑھتے رہے۔شوکت، علی کے لیے فکرمند ہوگیا جو پہلے تو پورا بازار خریدنے کو مچل رہا تھا اور اب اُسے بھرے بازار میں ایک بھی چیز پسند نہیں آرہی تھی۔ علی اپنے ہی خیالوں میں کہیں کھویا ہوا تھا اور شوکت کو اُس کی خاموشی سے ڈر لگنے لگا۔
”علی بیٹا کیا بات ہے؟طبیعت پھر تو نہیں خراب ہو گئی؟“
شوکت پریشان لہجے میں بولا۔
”جی…..ابو…..جی جی میں اب ٹھیک ہوں۔“
”کوئی بات تو ہے بیٹا! ہم کب سے گھومے جا رہے ہیں اور آپ کو کچھ بھی پسند نہیں آرہا….!“
”ابو جی! بس یہی ایک پرچم کافی ہے،مجھے اور کچھ نہیں لینا۔“
شوکت اِس بات سے بے خبر تھا کہ علی نرس سے ہونے والی تمام گفتگو سن کر کافی حد تک سمجھنے میں بھی کامیاب ہوچکا ہے۔وہ کندھے اُچکاکررہ گیا۔اب مزید بازار میں رکنا وقت کا ضیاع تھااور گرمی سے بدن بھی جھلس رہاتھا۔شوکت کچن کے لیے کچھ سامان خریدنا چاہتا تھا، سو وہ غلہ منڈی کی جانب چل دیے۔علی اپنے دل پر عجیب سا بوجھ محسوس کررہا تھا۔وہ اب جلد سے جلدگھر پہنچنا چاہتا تھا۔وہ غلہ منڈی کے قریب پہنچے ہی تھے کہ علی کی نظر وں نے کچھ دیکھ لیا۔وہ پودوں کی ایک نرسری تھی۔علی چلا اُٹھا:
”ابو جی….! ابو جی….!وہاں چلیں نا…..!“
شوکت حیران تھا کہ بھلا چھوٹے سے بچے کا نرسری میں کیا کام،مگر حقیقت تو یہ تھی کہ یہ کام اب چھوٹوں ہی کوکرنا تھا۔ نرسری پہنچ کر علی کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا کیوں کہ یہ ایک حقیقی گلشن تھا۔یہاں ہرطرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔یہ ہرا رنگ زندگی کی علامت تھا۔ اُس نے جھٹ سے تین خوب صورت پودے خریدلیے،جنھیں کل تناوردرخت بننا تھا۔ اب علی بہت سکون محسوس کررہا تھا۔ اُس کا سارا بوجھ اُتر گیا تھا۔پھرسودا سلف لینے کے بعد دونوں گھر کو روانہ ہو گئے۔
علی نے اپنے ابو کی مدد سے اُن پودوں کو صحن میں لگا دیا۔ شوکت اور اُس کی بیوی اپنے بیٹے کی اِس ادا پر بہت خوش تھے۔ اُس کے بعد دونوں نے لائے گئے جھنڈے کو چھت پر نصب کردیا۔ پھر یومِ آزادی کا دن بھی آ گیا۔ علی دیکھ رہا تھا کہ پورا شہر ہرے رنگ میں نہایا ہوا تھا مگر ہریالی تو صرف اُسی کے گھرمیں تھی۔علی نے وطن سے محبت کا حقیقی اظہار کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں