120

داداجان کا صندوق __ عربی ادب سے ایک ڈرامہ

اردو قالب:محمدفیصل علی

پہلامنظر


منظر:(بالاخانے پہ ایک کمراہے جو اسٹورروم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کمرے میں ٹوٹا پھوٹا سامان،پرانے کھلونے، کپڑے اور گتے کے کچھ کارٹن موجودہیں۔اسٹور روم میں ایک کھڑکی نصب ہے جس سے سورج کی روشنی کمرے میں آرہی ہے اوریوں کمرا روشن روشن نظر آرہا ہے۔اچانک دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے،جیسے کوئی دوڑتاہوا سیڑھیاں چڑھ رہاہواور پھرایک اسد نامی لڑکا اس کمرے میں داخل ہوتا ہے۔اس کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔وہ کمرے کے درمیان میں آکررُک جاتا ہے۔)
اسد:(خود کلامی میں)اف اللہ! بڑے بھائی میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے ہرکمرے میں تلاش کریں گے،ہائے میں کیاکروں؟کاش!میں ان کا موبائل نہ اٹھاتا،نہ اس کی اسکرین ٹوٹتی،انھیں کیسے سمجھاؤں کہ میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑی،کیا کروں اب؟ میرا خیال ہے کہ میں چھپ جاؤں۔ (لڑکا وہاں پڑے سامان کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتاہے اور اس کوشش میں کچھ چیزیں گرتی ہیں اور شورپیداہوتاہے،اسی اثنا میں کمرے کے باہر سے اس کے بڑے بھائی ارقم کی آواز آتی ہے)
ارقم: کہاں ہو اسد کے بچے؟میں نے تمھیں کئی بار تنبیہ کی ہے کہ میری چیزوں کو ہاتھ نہ لگایا کرو،میں ابھی تلاش کرتا ہوں تمھیں اور تمھاری پٹائی لگاتا ہوں۔(بھائی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے،ادھر لڑکا چیزوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش میں ہے اور پھر اسے لکڑ ی کا ایک بڑا صندوق دکھائی دیتا ہے۔ داداجان کاپرانا صندوق!وہ پہلے بھی کئی بار اس میں چھپ چکاہوتا ہے، اس لیے اس وقت اسے کچھ اور نہیں سوجھتی اور وہ اس میں گھس جاتاہے،ادھر بڑا بھائی کمرے کے قریب پہنچ چکاہوتا ہے۔)
ارقم:لڑکے تم ہوکہاں؟(مکمل خاموشی ہے،لڑکا صندوق میں ہے)
ارقم:کہاں ہوتم؟میں نے تمھیں کئی بار سمجھایا ہے کہ میری چیزوں کو نہ چھیڑا کرو،اب توڑ دیا نہ آخر تم نے؟کہاں ہو؟نکلو باہر(وہ چیزوں کو الٹ پلٹ کرکے اسے تلاش کرتاہے)اب میں تمھیں سبق سکھاؤں گا،(جب اسے لڑکا دکھائی نہیں دیتا تو وہ خودکلامی کرتا ہے)لگتا ہے وہ ادھر نہیں آیا،خیر جلد ہی اسے تلاش کرلوں گا اور پھر دیکھوں گا اسے، بدبخت کہیں کا!
(بڑابھائی کمرے سے چلاجاتا ہے۔اس کے جانے کے بعد لڑکا صندوق سے جھانکتاہے اور ادھر ادھر نگاہیں دوڑاتا ہے جیسے اسے یہ خوف ہو کہ کہیں بڑا بھائی دوبارہ نہ آجائے۔وہ صندوق میں بیٹھا رہتا ہے اور اپنے آپ سے یہ باتیں شروع کردیتا ہے)
اسد:شکر ہے کہ بھائی چلا گیا ہے۔میں اس کا موبائل توڑنا تو نہیں چاہتا تھا،یہ تو حادثہ ہوگیا،میں توصرف گیم کھیل رہاتھا کہ اچانک موبائل میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور نیچے گرکر ٹوٹ گیا،اب اس سب میں میرا کیا قصور؟لیکن لگتایہی ہے کہ امی ابو بھی میرا ساتھ نہیں دیں گے،وہ بھی تو صرف بڑے بھائی کو پسند کرتے ہیں،مجھے تو وہ ہروقت کوستے رہتے ہیں،میرا خیال ہے کہ میں یہاں سے چلاجاؤں۔ (اچانک صندوق ہلتاہے اور لڑکے کے منھ سے ہلکی سی چیخ نکلتی ہے اور وہ صندوق میں غائب ہوجاتا ہے،اس کے ساتھ ہی صندوق کا ڈھکن بند ہوجاتا ہے اور اس میں سے روشنی اور سفید دھواں سا نکلنے لگتا ہے، پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔)


دوسرا منظر


منظر:(ایک زیرزمین کمرے کا منظر جس کی دیواریں آئینوں سے بھری ہوئی ہیں۔ان آئینوں کے درمیان ایک بڑا آئینہ نصب ہے۔اس کمرے کے ایک کونے میں بعینہ ویسا صندوق پڑا ہے جیسابالاخانے والے کمرے میں تھا،جس میں اسدچھپا تھا،اچانک اس صندوق میں سے سفید دھواں نکلتا ہے اور پھر صندوق میں ہلکی سی حرکت ہوتی ہے۔صندوق کا ڈھکن آہستگی سے اوپر کو اٹھتا ہے،اس میں اسد سر نکال کر کمرے کا جائزہ لیتا ہے،چاروں طرف آئینے،رنگارنگ غبارے اور بچوں کے نت نئے کھلونے نظرآرہے ہوتے ہیں۔اسدپہ حیرت طاری ہوجاتی ہے۔)
اسد:(خودکلامی میں)میں کہاں ہوں؟ یہ کیسی جگہ ہے؟کیا داداجان کا صندوق کسی اور جگہ منتقل ہوگیا ہے؟یہ میرا گھر تو نہیں ہے۔(وہ صندوق میں سے باہر نکل آتا ہے)کیا انھوں نے مجھ سمیت صندوق کو بیچ ڈالا؟اف خدا یا!یہ آئینے کیسے ہیں؟ یہ کمرا تو مجھے آئینوں کی دکان کی طرح نظر آرہا ہے۔(وہ آئینے کے قریب جاکر اسے چھوتا ہے اور پھر اس کے منھ سے دبی دبی چیخ نکل جاتی ہے،کیوں کہ آئینے میں ایک چھوٹے بچے کا چہرہ نمودار ہوتا ہے۔)
ٓآئینے والا بچہ:(التجائیہ اندازمیں)مجھے بچالو،مجھے یہاں سے نکالو دوست!مجھے نکالو میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں۔
اسد:تم کون ہو اور اس آئینے میں کیسے قید ہو؟یہ کیسے ممکن ہے؟(ان کی بات چیت سے یکلخت باقی آئینے بھی جاگ جاتے ہیں اوران میں بچوں کے روتے چہرے نمودار ہوجاتے ہیں)
آئینوں والے بچے:(ملی جلی آوازیں)اے دوست ہمیں بچالو!خدارا ہماری مدد کرو!ہم گھر جانا چاہتے ہیں۔
(عین اسی وقت بھاری قدموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو رفتہ رفتہ قریب آ رہی ہوتی ہیں،یہ آوازیں سنتے ہی آئینوں والے بچے خوف زدہ اندازمیں کہتے ہیں، ”وہ آ گئی، وہ آگئی، بھاگو!“لڑکا گھبراکر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے اور پھر دوبارہ اسی صندوق میں گھس جاتا ہے،لیکن وہ ڈھکن کا ایک کونا اُٹھا کر کمرے کا منظر دیکھ رہاہوتا ہے۔ اچانک کمرے میں ایک بڑی ناک والی عورت داخل ہوتی ہے۔ اس کے بال برف کی طرح سفید ہوتے ہیں اوراس نے اپنے ہاتھ میں ایک چھڑی اٹھا رکھی ہوتی ہے۔ اس کے سر پر جادوگرنیوں جیسی سیاہ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔)
جادوگرنی: (کرسی پہ بیٹھ کر)صبح بخیر بچو! چھوٹی لڑکی تم کہاں ہو؟ میرا ناشتا کدھر ہے؟
(اسی وقت کمرے میں ایک چھوٹی لڑکی ایک ٹرے اٹھائے داخل ہوتی ہے۔ اس کے چہرے پہ غم کے بادل چھائے ہوتے ہیں۔ وہ ٹرے جادوگرنی کے سامنے رکھ دیتی ہے۔)
چھوٹی لڑکی: ملکہ! یہ رہا آپ کا ناشتا
جادوگرنی:شکریہ،لیکن تمھارے چہرے پہ بارہ کیوں بجے ہوئے ہیں،گھڑی پہ توابھی سات بجے ہیں۔(دیوار پہ لگے گھڑیال کی طرف دیکھتے ہوئے)ارے واہ!شان دار خوشبو تمھاری کوکنگ آہستہ آہستہ مزید بہتر ہورہی ہے۔
چھوٹی لڑکی:ملکہ آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اور میرے بھائی کو چھوڑ دیں گی۔ براہ کرم اب تو اپنا وعدہ پورا کریں۔
جادوگرنی:(زور سے ہنستی ہے،پھر غضب ناک نگاہوں سے لڑکی کو گھورتی ہے)میں نے تمھیں کہاتھا کہ اب گھر کو بھول جاؤ،آزادی کو بھول جاؤ اور تمھارا بھائی، وہ تو اسی آئینے میں ہی بوڑھا ہوگا۔
چھوٹی لڑکی:(روتے ہوئے)لیکن آپ نے وعدہ کیا تھا وعدہ!
جادوگرنی:چپ ہو جاؤ اے بے وقوف!اگر تمھارے بازوؤں پہ پر بھی لگے ہوتے تب بھی تم اس جگہ سے نہ نکل سکتے،لہٰذا یہاں سے نکلنے کی امیدیں چھوڑدو۔ (اچانک جادوگرنی اپنا لہجہ بدلتی ہے اور کچھ نرمی سے کہتی ہے)دیکھو! مجھے تمھاری ضرورت ہے،مجھے چھوڑ کر نہ جاؤورنہ میرا خیال کون رکھے گا؟میں تم سے پیار کرتی ہوں چھوٹی لڑکی(اسے اپنے سینے سے لگالیتی ہے)
چھوٹی لڑکی:(خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے)نہیں نہیں! تمھیں کسی سے پیار نہیں تم خود غرض ہو،مکار ہو دھوکے باز ہو،تم بری ہو! بری ہو!(لڑکی چلاتے ہوئے کمرے سے نکل جاتی ہے)
جادوگرنی: جاؤ جاؤ،سیدھی باروچی خانے جانا اور میرے لیے مزے دار کھانے تیار کرو،بے وقوف لڑکی!کہتی ہے کہ ان بچوں کو چھوڑ دوں،اس کے بھائی کو چھوڑ دوں،یہی بچے اور ان کی روحیں تو مجھے زندگی بخشے ہوئے ہیں اور عن قریب میرا عمل پورا ہوجائے گا اور میں پھر سے جوان ہوجاؤں گی،پہلے کی طرح،پہلے کی طرح (اس کے بعد جادوگرنی رقص کرنے لگتی ہے،اس کے رقص کرتے ہی کمرے میں موجود کھلونے بھی ناچنے لگتے ہیں،ساتھ ہی موسیقی کی دھن بھی بجنے لگتی ہے،جادوگرنی اور کھلونے کافی دیر رقصاں رہتے ہیں۔)
جادوگرنی: (کراہتے ہوئے) اف مجھے تھکاوٹ محسوس ہورہی ہے،(کانپنے لگتی ہے)لگتا ہے میری جان نکل جائے گی،لڑکی او لڑکی!! جلدی آؤ،میں سونا چاہتی ہوں،میری جادوئی چادر لے آؤ جلدی!(چھوٹی لڑکی دوڑتی ہوئی آتی ہے اور ایک طرف پڑی چادر اس پہ ڈال دیتی ہے،جادوگرنی کچھ دیر بڑبڑاتی رہتی ہے اور پھر اس کو نیند آجاتی ہے۔اب صندوق والا لڑکا آہستگی سے باہر نکلتا ہے،اسے دیکھ کر لڑکی ششدر رہ جاتی ہے۔
چھوٹی لڑکی: تم کون ہو اور یہاں کیسے آئے ہو؟
اسد: کیا یہ سوگئی ہے؟
چھوٹی لڑکی: جی ہاں،مگر تم؟
اسد:(گہری سانس لیتے ہوئے) شکر ہے،اب سنو،ہمیں یہاں سے نکلنا ہے اور ان بچوں کو بھی نکالنا ہے۔
چھوٹی لڑکی: یہ ممکن نہیں،یہاں کے دروازے جادوئی ہیں،یہ صرف جادوگرنی کے خاص کلمات ہی سے کھلتے ہیں۔
اسد:اللہ کافی ہے،ہمیں اسی پہ بھروسہ رکھنا چاہیے،کیا ہم اسے باندھ کر قید کرسکتے ہیں؟
چھوٹی لڑکی: نہیں،اس طرح تو نہیں البتہ…..
اسد: البتہ کیا،بتاؤ؟
چھوٹی لڑکی: اگر ہم اسے بڑے آئینے میں دھکیل دیں تو یہ وہاں قید ہوجائے گی۔
اسد: واہ تو پھر ابھی اسے اٹھاکر پھینک دیتے ہیں۔
چھوٹی لڑکی: دماغ کا استعمال کرو،اس نے ابھی جادوئی چادر پہن رکھی ہے اوراس پہ اپنامنتر پھونک رکھا ہے،اب ہم اسے ہاتھ تک نہیں لگاسکتے۔
اسد: تو پھر کیسے ہوگا یہ؟
چھوٹی لڑکی:(روتے ہوئے) میں نہیں جانتی۔
اسد: نہیں نہیں چھوٹی بہن روؤ نہیں،ہم کوئی راستہ نکال لیں گے۔(لڑکی کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اور اسے تسلی دیتے ہوئے۔)
چھوٹی لڑکی: (روتے ہوئے)ہم نہیں نکل سکتے،تم یہ کھلونے دیکھ رہے ہو نہ،یہ سب بچے تھے،جادوگرنی نے انھیں آئینے میں قید کرکے ان کی روح حاصل کرلی تاکہ اس کی طاقت میں اضافہ ہو،رفتہ رفتہ کھلونے بڑھتے جارہے ہیں اور بچوں کی روحیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔
اسد: اوہ،اف خدایا،یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟
چھوٹی لڑکی: یہ سچ ہے،یہ بہت ظالم ہے اور اب تم بھی یہاں پھنس چکے ہو۔(اچانک ایک مکھی بھائیں بھائیں کرتی آتی ہے اور لڑکی کے کندھے پر بیٹھ جاتی ہے۔لڑکی اپنا ہاتھ سیدھا کرتی ہے تو وہ مکھی ہاتھ پہ آبیٹھتی ہے،لڑکا یہ سب حیرت سے دیکھ رہاہوتاہے۔)
اسد: یہ کیا ہے؟
چھوٹی لڑکی: یہ میری دوست ہے۔
اسد: (حیرانی سے)یہ مکھی؟
چھوٹی لڑکی: ہاں یہ مکھی،میں نے جادوگرنی کی کتاب سے ایک منتر سیکھا ہے تاکہ میں اس مکھی سے بات چیت کرسکوں۔(مکھی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھتی ہے) دوست! کیسی ہو تم؟
اسد: مکھی سے دوستی،عجیب ہے ویسے،یہ تو کاٹتی بھی ہیں اور خارش بھی کرتی ہیں،بہتر ہے تم کسی اور سے دوستی کرلیتی۔
چھوٹی لڑکی:(دھیرے سے ہنستی ہے) نہیں،نہیں فکر نہ کرو،یہ نہیں کاٹتی،یہ اچھی مکھی ہے۔
اسد: ترکیب! واہ! جانتی ہو میرے ذہن میں کیا ترکیب آرہی ہے؟
چھوٹی لڑکی: (حیرت سے)نہیں تو،تم بتاؤ۔
اسد: تم اپنی دوست مکھی سے کہو کہ وہ جادوگرنی کی ناک پہ کاٹے،اس کے بعد اگلا کام تم کرنا کہ تم جادوگرنی سے کہنا کہ اس کی ناک پہ زخم بن گیا ہے،یقینا وہ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھنے کے لیے جائے گی،جیسے ہی وہ آئینے کے سامنے پہنچے گی،میں اسے دھکا دے کر آئینے میں دھکیل دوں گا۔
چھوٹی لڑکی: واہ یہ تو کمال ترکیب ہے،ہم اس پہ عمل کرسکتے ہیں۔
اسد: زبردست تو پھر شروع کرتے ہیں۔
چھوٹی لڑکی: ٹھیک ہے میں اپنی دوست سے بات کرتی ہوں۔
(لڑکی مکھی سے باتیں کرتی ہے اور مکھی بھی بھائیں بھائیں کرکے جواب دیتی رہتی ہے،اس کے بعد لڑکا اور لڑکی صندوق کے پیچھے چھپ جاتے ہیں جب کہ مکھی جادوگرنی کی ناک پہ زور سے کاٹ لیتی ہے،اگلے ہی لمحے جادوگرنی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہے۔)
جادوگرنی: اف یہ کس نے کاٹ لیا مجھے،اف میری ناک،لگتا ہے یہ سوج رہی ہے۔(ناک کو ہاتھ لگاتے ہوئے)
(اسی وقت چھوٹی لڑکی سامنے آتی ہے)
چھوٹی لڑکی: ملکہ کیا ہو اآپ کو؟اف آپ کی ناک تو لہو کی مانند سرخ ہورہی ہے اور یہ غبارے کی مانند پھولتی جارہی ہے۔
جادوگرنی: اٖ ف مرگئی،کیاواقعی؟
چھوٹی لڑکی: جی ہاں،آپ آئینے میں دیکھ لیں تو بہتر ہے۔
(جادوگرنی اٹھتی ہے اور بڑے آئینے کے سامنے جاکھڑی ہوتی ہے اور اپنی ناک کامعائنہ کرنے لگتی ہے،ایسے میں لڑکا چپکے چپکے اس کی طرف بڑھتا ہے اور پھر وہ اچانک جادوگرنی کو دھکا دیتا ہے جس سے جادوگرنی آئینے کے اندر گھس جاتی ہے۔
اسد: اللہ اکبر! ہم کامیاب ہو گئے۔
چھوٹی لڑکی: الحمدللہ،اب اس کا جادو بھی بے کار ہوگیا ہے،اب یہ کچھ نہیں کرسکتی۔
(اسی وقت جادوگرنی آئینے کے اندرسے نمودار ہوتی ہے،اس کے چہرے پر غصہ،بے چینی اور بے بسی ہوتی ہے،وہ چلاتی ہے)
جادوگرنی: (چلاکر) مجھے یہاں سے نکالو،اس چھڑی کی مدد سے جلدی کرو ورنہ تم سب مارے جاؤ گے۔
اسد: (مسکراتے ہوئے جادوگرنی کی چھڑی اٹھالیتا ہے)یہی چھڑی نہ؟ بچوں کی رہائی کا طریقہ بتانے کا شکریہ پیاری جادوگرنی!
جادوگرنی: (اپنا سر پکڑ لیتی ہے کیوں کہ اس نے جلدی میں آئینے سے نکالنے کا طریقہ بتادیا ہوتا ہے)ایسا نہ کرو،دیکھو مجھے چھوڑ دو ورنہ تم یہاں سے نہیں نکل پاؤ گے۔
چھوٹی لڑکی: ہرگز نہیں،اب بھگتو اپنے ظلم کانتیجہ مکار جادوگرنی!
(اسد اسی چھڑی سے سب کھلونوں اور آئینوں پہ چھڑی لگاتا جاتا ہے اور پھر کمرے میں مختلف رنگ و شکل کے بچے ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں،جیسے ہی بچوں کی روح اور طاقت لوٹتی ہے،بڑھیا کمزور پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔اس دوران کچھ لڑکے ایک کرسی اٹھاتے ہیں اور وہ کرسی بڑے آئینے پہ ماردیتے ہیں جس سے جادوگرنی کی دل دوز چیخیں ابھرتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے۔لڑکا سب بچوں کی طرف متوجہ ہوتاہے اور کہتا ہے۔)
اسد: دوستو!اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب گھر جائیں،اس لیے باری باری اس صندوق میں داخل ہوتے جاؤ یہ تمھیں باہر پہنچادے گا، باہر پہنچ کر تم اپنے اپنے گھر جانا اور ہاں!آئندہ اپنے والدین کے بغیر اکیلے کہیں بھی نہ جانا،ٹھیک ہے چلو!
(سب بچے صندوق کے ذریعے باہر نکلتے ہیں اور آخر میں اسد باہر نکلنے کے لیے صندوق میں بیٹھتا ہے اور پھر صندوق میں سفید دھواں بھر جاتا ہے اور تاریکی چھاجاتی ہے۔)


تیسرا منظر


منظر: (ایک پرانے دور کا بازار جہاں دکان دار خیمے لگائے ہوئے ہیں اور اپنا سامان بیچ رہے ہیں۔یہاں مختلف دکانیں ہیں،کپڑوں کی،جوتوں کی، کھانے پینے کی اشیا کی، پھلوں، سبزیوں اور گوشت کی۔ ایک طرف ایک خیمہ الگ تھلگ نظر آ رہاہے۔اس خیمہ پہ ایک جادوگر کی بڑی سی تصویر لگی ہے۔ جادوگر نے ایک ہاتھ میں کاغذ تھاما ہوا ہے جب کہ دوسرے ہاتھ میں ایک خرگوش۔ اس خیمے کے ایک طرف داداجان کا پرانا صندوق پڑا دکھائی دے رہاہے۔ اچانک صندوق کا ڈھکن ہلتا ہے اور پھر اسد کا چہرہ نظرآتا ہے، اس کے چہرے پہ عجیب و غریب اُداسی اور مایوسی چھائی ہوتی ہے۔)
اسد: یہ میں کہاں آگیا پھر؟ میں ابھی تک گھر نہیں پہنچ سکا، کیا یہ صندوق جادو کا ہے؟(وہ جھلا کر صندوق پہ ہاتھ مارتا ہے اور پھر ڈھکن کھول کر باہر نکل آتا ہے۔ اچانک ایک طرف سے غبارے بیچنے والا آنکلتا ہے۔)
غبارے والا:غبارے لے لو بچو! رنگ برنگے غبارے!نیلے پیلے سرخ غبارے!غبارے غبارے!
(اچانک اسد کو اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے،وہ مڑ کر دیکھتا ہے تو اس کے سامنے ایک نوجوان لڑکا کھڑا ہوتا ہے۔ اسے دیکھ کر اسد کہتا ہے۔)
اسد: غبارے تو خوب صورت ہیں لیکن میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے۔(اسی وقت وہاں ایک حلوہ فروش آن پہنچتا ہے اور یوں صدا لگاتا ہے۔)
حلوہ فروش:مزے دار،ذائقے دار حلوہ لے لو!خوشبودار حلوہ!تازہ حلوہ!(حلوہ فروش اور حلوے کو دیکھ کر اسد کی بھوک چمک اٹھتی ہے،وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔)
اسد:(پیٹ پکڑتے ہوئے)مجھے تو زور کی بھوک لگی ہے، ہائے میرا پیٹ!
نوجوان لڑکا:کیا تم بھوکے ہو؟
اسد: بالکل،بہت زیادہ
نوجوان لڑکا: ٹھیک ہے میرے پیچھے آؤ!
اسد: کہاں؟
نوجوان لڑکا:ادھر ہمارے خیمے میں،ڈرو مت!وہاں کچھ کھانے کو ہو گا تو میں تمھیں دوں گا۔
اسد:(خود کلامی کرتے ہوئے)میں اس کے ساتھ نہ جاؤں تو ہی بہتر ہوگا کیوں کہ امی نے کہا تھا کہ اجنبی کے ساتھ کہیں بھی نہیں جانا چاہیے۔(نوجوان لڑکا خیمے میں داخل ہوجاتا ہے،اسد باہر ہی رکا رہتا ہے،اسی اثنا میں نوجوان لڑکاباہر آتا ہے،اس کے ہاتھ میں ایک تھالی ہوتی ہے۔)
نوجوان لڑکا:یہ کل رات کا بچا ہو اکھانا ہے،لذیذ ہے امید ہے تمھیں پسند آئے گا۔(بھوک کی وجہ سے مجبورا کھانا لے لیتا ہے اور ایک طرف بیٹھ جاتا ہے۔)
اسد: شکریہ دوست
نوجوان لڑکا: مرحبا،کیا تمھارا کوئی گھر نہیں ہے؟
اسد: فی الحال نہیں
نوجوان لڑکا: اور کام؟
اسد: وہ بھی نہیں ہے۔
نوجوان لڑکا: کیاتم ہمارے ساتھ کام کرو گے؟
اسد: تمھارے ساتھ؟ کون ساکام کرتے ہو تم؟
نوجوان لڑکا:وہی جو تم نے جادوگر کے خیمے کے باہر لگے پوسٹر پر پڑھا تھا۔
اسد:اچھا ٹھیک ہے،دیکھ لیتے ہیں چل کر۔(وہ کھاناختم کرتا ہے اور نوجوان کے ساتھ چل پڑتا ہے،وہ نوجوان جادوگر کے خیمے کے باہر جا کرایک طرف کھڑا ہوجاتا ہے اور آوازیں لگانا شروع کردیتا ہے۔)
نوجوان لڑکا:اے لوگو! ادھر آؤ اور عجائبات کا نظارہ کرو، جلدی آؤ کہیں رہ نہ جانا! آؤ آؤ!
اسد:(خود کلامی میں)کیا پتا یہ جادوگر بھی اس جادوگرنی کی طرح برا ہو؟ (اسی وقت خیمے سے ایک آدمی نکلتا ہے۔ اس نے جادوگروں والا لباس پہن رکھا ہوتا ہے۔وہ آتے ہی لوگوں پہ ایک نگاہ ڈالتا ہے اور انھیں جھک کر مرحبا کہتا ہے۔)
جادوگر:(گانا گانے والے اندازمیں)
میں جادو کروں ستاروں پر
اور تصویر بنالوں ہواؤں پر
صحر اکی ریت کا پانی بناؤں
ایک چیز کودوسری میں لاؤں
نوجوان لڑکا: یہ ہیں عظیم جادوگر شوگانی
(لوگ یہ سن کر تالیاں بجاتے ہیں اور اسد سب کو حیرانی سے دیکھتا ہے۔اس کے بعد جادوگر چھوٹے موٹے کرتب دکھانے لگتا ہے اورلوگ اس کھیل میں منہمک ہوجاتے ہیں،عین اسی لمحے نوجوان لڑکا ان کی جیبوں سے ماہرانہ اندازمیں پیسے چوری کرنے لگتا ہے۔تھوڑی دیر بعد پروگرام ختم ہوجاتا ہے)
جادوگر:(جھک کر)آپ سب کاشکریہ
اسد: (نوجوان سے) تم تو لوگوں کے پیسے چوری کررہے ہو۔
نوجوان لڑکا: آہستہ بولو اور کام کرنے دو۔
اسد:یہ سب تو حرام ہے،اگر وہ سامنے والا پولیس والا یہ سب دیکھ لے تو تم پکڑے جاسکتے ہو۔
نوجوان لڑکا:(ناگواری سے)عجیب گناہ ہوگیا آج مجھ سے کہ تمھیں کھانا کھلایا اور اپنے ساتھ لے آیا،اب تم میرا کام خراب کررہے ہو۔
اسد: ٹھیک ہے لیکن میں اس جیسے کام میں تمھارا ساتھی نہیں بن سکتا۔مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے اپنا گھر چھوڑا اور یہاں آیا۔
(اسی اثنا میں ہجوم میں سے آوازیں آنے لگتی ہیں،میرے پیسے؟ میرے زیور کہاں ہیں؟ میری تھیلی گرگئی ہے،اف میں تو لٹ گیا ہوں،پھر وہ سب جادوگر کو گھیر لیتے ہیں کہ یہ سب تم نے کیا ہے۔)
ایک آدمی:(چلا کر) یہ سب تمھارا جادو دیکھنے کے دوران ہوا، چور ہو تم!پکڑلو اسے!
(یہ شور سن کرپولیس والا ادھر آنکلتا ہے)
پولیس والا: کیا معاملہ ہے؟
ایک آدمی: جناب ہم نے اس جادوگر کے کرتب دیکھے اس دوران ہماری جیبیں خالی ہوگئی ہیں،ہمیں لگتا ہے کہ اس چوری میں جادوگر کا ہاتھ ہے۔(پولیس والا جادوگر اور اس کے ساتھی لڑکے کو پکڑ لیتا ہے،پھراس کی نگاہ اسد پہ جم جاتی ہے۔)
پولیس والا: کیا یہ لڑکا بھی تمھارے ساتھ ہے؟
نوجوان لڑکا: جی، جی یہ بھی ہمارا ساتھی ہے لیکن ہم چور نہیں ہیں۔
اسد:(غصیلے اندازمیں)تم چور ہو! میں چور نہیں،نہ ہی تمھاراساتھی ہوں۔میں وہ کام کیوں کروں گا جس سے میرا اللہ مجھ سے ناراض ہوجائے۔
پولیس والا:ہونہہ!تم سب پولیس اسٹیشن چلو گے، باقی تحقیقات وہاں ہوں گی۔
اسد: نہیں،نہیں! مجھے چھوڑ دو،میرے امی ابو میرا انتظار کررہے ہوں گے۔میں تو اس صندوق میں بیٹھا تھا،پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہوگیا؟(یہ کہتے ہوئے اسد اس صندوق کی طرف بھاگتا ہے اور اس کا ڈھکن کھولتا ہے کہ اچانک اسے سامنے سے ایک با وقار بوڑھا آدمی نظر آتا ہے،اسے دیکھتے ہی اسد خوشی سے چلاتا ہے) ارے یہ تو آپ ہیں دادا جان! آپ کہاں سے آگئے؟
دادا:میرے پیارے پوتے! (سبھی لوگ حیرانی سے یہ منظر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ساکت وصامت ہوجاتے ہیں۔)
اسد:آپ یہاں کیسے آئے؟
دادا: میں تمھارے لیے آیا ہوں بچے!! میں نے دیکھا تھا تم نے اس مکار جادوگرنی کا خاتمہ کیا اس کے بعد بچوں کو رہا کرایا، مجھے خوشی ہے کہ تم نیکی کی راہ پر ہو،بس ایسے ہی چلتے رہنا۔
اسد: شکریہ داداجان لیکن یہ تو مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔
دادا: نہیں نہیں!یہ صرف ایک خواب ہے،اب اس خواب سے نکلو تم کافی دیر سے سورہے ہو،جلدی سے اس صندوق میں داخل ہوجاؤ اور پھر اس کا ڈھکن بند کردو،بس تم اپنے گھر والے بالا خانے میں پہنچ جاؤ گے۔
اسد: اوہ،یہ سب خواب ہے کیا؟
دادا: ہاں،اچھے بچے خوابوں میں بھی اچھے کام کرتے ہیں۔(یہ کہتے ہوئے دادا مسکراتے ہیں اور اسد بھی مسکرا دیتا ہے)
اسد: اور آپ؟ آپ بھی آئیے نہ میرے ساتھ؟
دادا: نہیں بچے،میں اس جہان میں نہیں،میں تو دوسرے جہان میں ہوں اللہ کے پاس، جلدی کرو تمھارے گھر والے تمھیں تلاش کرکے تھک چکے ہیں۔
(اسد دادا جان سے مصاٖفحہ کرتا ہے اور اس کے بعد بھاگ کر اس صندوق میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا ڈھکن بند کردیتا ہے،دوسرے ہی لمحے صندوق سفید دھوئیں سے بھر جاتا ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے۔)


چوتھا منظر


منظر:(اسد کے گھر والے بالا خانے کامنظر،اسد صندوق میں پڑا سورہا ہوتا ہے کہ اچانک اسے جھٹکا سا لگتا ہے اوراس کی آنکھ کھل جاتی ہے،اب وہ جلدی سے صندوق کا ڈھکن کھول کر باہر آجاتا ہے اور گہری گہری سانسیں لینے لگتا ہے۔ اچانک قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے اور پھر سب گھر والے اس کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔)
ارقم:اُف میرے خدا یہ تو یہیں ہے جب کہ میں پہلے بھی یہاں دیکھ چکا تھا۔
امی: شکر ہے تم مل گئے،ہم سب بہت پریشان تھے۔
ابو: اسد ایسا نہیں کرنا چاہیے، اگر تم سے موبائل ٹوٹ گیا تھا تو تم مجھے بتاتے نہ؟
اسد: ابو امی اور بڑے بھائی،براہ کرم مجھے معاف کردیں،میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا۔(بھرائے ہو ئے لہجے میں)
ارقم: ارے ارے رو نہیں! تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔ ایسی کوئی بات نہیں (آگے بڑھ کر چھوٹے بھائی کو گلے لگالیتا ہے۔)
اسد: میں سمجھتا تھا کہ آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور مجھے پسند نہیں کرتے لیکن اب میں نے آپ کی محبت دیکھ لی،بھائی آپ کا بہت شکریہ
امی: شاباش مجھے تم دونوں پہ فخر ہے۔
ابو: اور مجھے آپ سب پر!(یہ سن کر سبھی کھلکھلا کر ہنس دیتے ہیں،اسی وقت اسد کی نگاہ اس صندوق پہ پڑتی ہے اور وہ دل ہی دل میں خوش ہوجاتا ہے کیوں کہ آج شام کی چائے پہ اس نے سب گھروالوں کو اپنے خواب والے کارنامے بھی تو سنانے تھے۔)
(ڈاکٹر محمدعزیز حسن کی کتاب ”الطاؤس،عشر مسرحیات للاطفال“ میں سے ڈرامہ ”صندوق جدی القدیم“کاترجمہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں