hands, people, table tennis ball-3623531.jpg 84

چھوٹی گیند کا کمال ___ عاطف حسین شاہ

”کک…… کہاں ہیں آپ؟جلدی گھر آئیں، ہانی کھو گیا ہے۔“
بیوی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں فون پر اطلاع دی تو مجھے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میں نے جلدی سے رابطہ منقطع کیا اور اپنے ساتھی ملازم کو آگاہ کر کے گھر کی جانب دوڑ پڑا۔ دفتر سے گھر کا فاصلہ چند گلیوں کا تھا لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے فاصلہ سمٹنے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ عجیب طرح کے خدشات میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہے تھے۔ ویرانے کی وحشت اپنی جگہ مسلم ہے مگر گنجان آباد علاقے میں کچھ کھو جائے تو اُس کا ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اغوا کیے جانے کا خدشہ تو جیسے جان لیے جا رہا تھا۔ گھر پہنچا تو بیگم اور عزیز کی دادی کے اُترے ہوئے چہرے دکھائی دیے۔
”کہاں گیا عزیز؟ کیسے ہوا یہ؟“
بڑی مشکل سے میرے لبوں سے یہ الفاظ نکلے۔ اس دوران آواز ضرورت سے زیادہ بلند ہو گئی تھی تو بیوی ذرا سہم کر بولی:
ٍ”یہیں صحن میں گیند بلے کے ساتھ کھیل رہا تھا، ہم اندر پیٹی میں سے چادریں نکال رہی تھیں۔ چادریں نکال کر جب باہر نکلیں تو دیکھا،وہ گیند بلے سمیت غائب تھا۔“
اس خبر نے میرے اعصاب پر بہت برا حملہ کیا۔ میرا پیارا بیٹا، میرے جگر کا ٹکڑا کھو گیا تھا۔ ابھی تو اس نے اپنی زندگی کی پانچ بہاریں ہی دیکھی تھیں۔ دل تو جیسے مٹھی میں آ رہا تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ پہلے کس طرف جاؤں، ریحان کو کیسے تلاش کروں کہ بینش نے چیخوں سے در و دیوار ہلا ڈالے۔ یہ اُس کا معمول تھا، وہ نیند سے بیدار ہوتے ہی گلا پھاڑ کر رویا کرتی تھی۔ اُس کی آواز لاؤڈ اسپیکر کی طرح کافی اونچی تھی۔ میری برداشت جواب دے گئی، میں شدید غصے کے عالم میں دہاڑتے ہوئے بولا:
”کیا موت پڑ گئی ہے تمھیں، چپ کرو!“
وہ یوں چپ ہوئی جیسے پہلے جھوٹ موٹ کا رو رہی تھی اور جھولے کے اندر ہی سمٹ سی گئی۔ میں نے بہ مشکل خود پر قابو پایا اور اپنے عزیز کی تلاش میں چل نکلا۔ طرح طرح کے وسوسوں سے میرا دم گھٹ رہا تھا۔ قدم اُٹھانا مشکل ہو رہا تھا۔ ابھی دو گلیاں ہی کھنگالی تھیں کہ اچانک ایک خیال نے میرے قدم روک لیے۔
”گیند بلا ساتھ لے کر گیا ہے، کہیں گراؤنڈ میں ہی نہ چلا گیا ہو۔“
اس خیال کے آتے ہی میرے قدموں میں جان پڑ گئی۔ تیز مگر لرزتے قدموں کے ساتھ چلتا ہوا میں سیدھا کھیل کے میدان میں پہنچ گیا۔
میدان ایک تھا اور کھیلنے والی ٹیمیں درجن کے قریب تھیں۔ اتوار کا دن تھا تو بچے آزاد تھے، خوب مستی کر رہے تھے اور ادھر ہم پرائیویٹ نوکری کرنے والوں کو اتوار کے دن بھی آرام نصیب نہ ہوتا تھا۔ ذہن بھٹکتے بھٹکتے کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔
”میں تو عزیز کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔“
میں نے خود کو ملامت کیا اور گراؤنڈ میں چکر کاٹنے لگا۔ جدھر نگاہ دوڑاتا، مایوسی مقدر بنتی۔ دل ڈوبتا جا رہا تھا کہ اچانک ایک کونے میں چھوٹا سا بچہ اُداس بیٹھانظر آیا۔ وہ میرا ریحان ہی تھا…… ریحان عزیز۔ امی اُسے ہانی کے نام سے بلاتی تھی اور میرے لیے وہ عزیز تھا، کیوں کہ وہ مجھے جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔ میں دیوانہ وار بھاگ کر اُس کے پاس جا پہنچا۔ اُس نے پہلے عجیب سی نظروں سے میری جانب دیکھا، اُس کی آنکھوں میں اُداسی تیر رہی تھی اور پھر وہ کھل اُٹھا۔ دیر تک ہم باپ بیٹا ایک دوسرے کے گلے لگ کر ملتے رہے۔ خوشی کے اِک عجیب احساس کے ساتھ میں عزیز کے ہمراہ گھر کی جانب چل دیا۔
”عزیز بیٹا! گراؤنڈ میں کیسے پہنچ گئے تھے آپ؟“
میں نے راستے میں اُس سے پوچھا۔
”ابو جی! مجھ سے اکیلے کھیلنے ہی نہیں ہو رہا تھا تو میں گیند بلا لے کر باہر نکل گیا۔ لوگوں سے پوچھتے پوچھتے میں گراؤنڈ تک پہنچ گیا۔“
اپنے طور پر اُس نے خود کو سمجھ دار ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ حرکت خطرے سے بھرپور تھی۔ میں نے اُسے پیار سے سمجھایا، ”میرے عزیز بیٹے! آیندہ اکیلے گھر سے باہر کبھی مت نکلنا!“ جواب میں اُس نے اپنے سر کو ہولے سے جنبش دی۔
جب ہم گھر پہنچے تو عزیز کی امی نے شکرانے کے طور پر فضا میں ہاتھ بلند کر دیے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے ہانی سے لپٹ گئی۔ انھیں ملتا دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ آخر عزیز کو باہر جانے کی کیا سوجھی، گھر میں بھی تو کھیل ہی رہا تھا۔ ذرا غور کرنے پر مجھے اپنی ہی کوتاہی معلوم ہوئی۔ عزیز بے شک میری آنکھوں کا تارا تھا اور ساری محبت کا محور بھی وہی تھا مگرمیں دنیا کے جھمیلوں اس قدر کھو گیا تھا کہ اپنے بچے کے ساتھ کھیلنے کے لیے دو گھڑی بھی فرصت نہیں نکال پاتا تھا۔ اتوار کے دن دفتر جانے میں خود میرا ہی تو کردار تھا۔ چار پیسے اضافی کما نے کے لالچ نے مجھے گھر والوں سے دور کر دیا تھا۔ اگر آج عزیز نہ ملتا تو پھر کیا ہوتا! اس سے آگے سوچنا بھی محال تھا۔
میں نے عہد کیا کہ آیندہ عزیز کے ساتھ کھیلنے کے لیے ضرور وقت نکالا کروں گا۔ اسی وقت گیند پکڑی، بلا پہلے ہی عزیز کے ہاتھ میں تھا، سو کھیل شروع ہوگیا۔ میں عزیز کی جانب گیند پھینکتا اور وہ بلے کی مدد سے اُسے ہوا میں اچھال دیتا۔ گیند کبھی کس جانب گرتا تو کبھی کس جانب…. میں بھاگ کر اُٹھاتا اور پھر سے اپنے مقام پر آ جاتا۔ کچھ دیر تو یہ کھیل تک یونہی جاری رہا،پھر میں تھکنے لگا۔ میراسانس بھی پھول رہا تھا مگر عزیز بالکل تروتازہ تھا۔ وہ کسی طور بھی بلا چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ میری چھوٹی بیٹی بینش ایک جانب خاموشی سے سہمی بیٹھی تھی۔ اُس نے اپنی دائیں مٹھی کو زور سے بھینچ رکھا تھا۔ مجھے ہلکا سا تجسس ہواکہ اس مٹھی میں کیا ہو سکتا ہے۔ عزیز نے یہ بات محسوس کر لی، وہ چہک کر بولا:
”ابو! اس نے گیند چھپائی ہوئی ہے۔ آپ نے عید پہ جو مجھے پستول لے کر دیا تھا نا، اس کے ساتھ یہ پلاسٹک والی گیند بھی تھی۔ پستول ٹوٹ گیا تھا تو میں نے گیند بینش کو دے دی۔“
”اچھا! تو یہ چھپا کیوں رہی ہے؟“
”یہ خود کھیلتی نہیں ہے اور گیند مانگتے ہیں تو دیتی بھی نہیں ہے۔ آپ بال کرائیں نا، کھیلیں!“
میں ”ہونہہ!“ کہہ کر پھر سے گیند پھینکنے لگا اور عزیز خوشی سے نہال ہو کر بلا گھمانے لگا۔ ورزش کا معمول نہ ہونے کی وجہ سے میں مسلسل ہانپ رہا تھا۔ بیٹے کو اتنا خوش دیکھ کر رُکنے کو من بھی نہیں کر رہا تھا۔ اچانک بینش کو نہ جانے کیا سوجھی، وہ بھاگتے ہوئے ہم باپ بیٹے کے درمیان آ گئی۔ پھر اُس نے اپنی ننھی سی مٹھی کھولی اور چھوٹی گیند عزیز کی جانب زور سے اُچھال دی۔ گیند بلے سے ٹکرانے کے بجائے عزیز کی ٹانگوں میں الجھ کر رہ گئی۔ یکایک چیخوں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ بینش جشن منا رہی تھی کہ اُس نے عزیز کو آؤٹ کر دیاہے۔ اُسے اپنی چھوٹی گیند پر پورا اعتماد تھا۔ عزیز نے پہلے تو منہ بنایا پھر ہارے ہوئے انداز میں بلا پٹخ دیا۔ ادھر میں حیران تھا کہ بینش کھیلنے پر کیسے آمادہ ہو گئی۔ اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ میرے باپ کے لیے عزیز صرف اُس کا بیٹا ہی ہے۔بیٹیاں شاید ایسی ہی ہوتی ہیں۔ اُن کے لیے سب سے بڑھ کر عزیز اُن کا باپ ہوتا ہے۔
بینش گلا پھاڑ کر لاؤڈاسپیکر جتنی آواز میں چیخ رہی تھی۔ ان چیخوں پر مجھے ذرا غصہ نہ آیا۔ میں اُسے حیرانی سے دیکھ ہی رہا تھا کہ مجھے اپنی آنکھوں میں جلن سی محسوس ہوئی، پھر اُن میں سے چند قطرے نکل کر مجھے بھگونے لگے۔ میں نے آگے بڑھ کر اپنی بینش کو اُٹھا لیا اور اس کے ساتھ مل کر عزیز کے آؤٹ ہونے کا خوب جشن منایا۔ اب محمد عزیز کے لیے ریحان کے ساتھ ساتھ بینش بھی عزیز تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں