67

چوزے کا جذبہ __ محمد فیصل علی

وہ ایک خوب صورت مرغی تھی۔ اس کا نام انوتھا۔ انو کے چھوٹے چھوٹے چوزے تھے جو اسے”امی جی“کہہ کر پکارتے تھے۔ ایک دن گرمی شدت پہ تھی۔ سب جان دار گرمی کی شدت سے بے حال تھے۔ اتنے میں اچانک ایک گھٹا اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پہ چھا گئی۔ اب آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے سجا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی چل پڑی تھی۔ اب گرمی کی شدت ٹوٹ چکی تھی اور سبھی جان دار اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل آئے تھے۔مرغی کے چوزوں کا بھی دل للچایا اور انہوں نے اپنی امی سے سیر پہ جانے کی درخواست کی جسے امی نے فوراً قبول کر لیا۔
اب تمام ننھے چوزے اپنی امی کے ساتھ سیر پہ نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے سرسبز کھیتوں کا رخ کیا۔ منظر بہت ہی دل فریب تھا۔ ہری ہری گھاس ہوا میں لہلہا رہی تھی جیسے خوشی سے جھوم جھوم کر گیت گا رہی ہو۔ ننھے چوزے خوب کھیلے، خوب بھاگا دوڑی ہوئی اور انہوں نے اپنی حسرت پوری کی۔انو مرغی دور بیٹھی یہ سب دیکھ کر خوش ہو رہی تھی، اس کا دل خوشی کے جذبات سے معمور تھا۔
اچانک ایک چوزے کی چیخ سنائی دی۔انو نے چونک کردیکھا تو اس کا ایک بچہ پاس پڑی اینٹ سے ٹکرا کر نیچے گر اہوا رورہاتھا۔ اس کی چیخ سن کردیگر چوزے کھیل کود چھوڑ کر اس کے پاس آ پہنچے۔چونکہ چوزہ بری طرح رو رہا تھا،اس لیے اس کے بہن بھائی اسے چپ کرانے لگے، مگر وہ تو مسلسل روئے جا رہا تھا۔ جب وہ چپ نہ ہوا تو اس کی امی قریب آئیں اور بولیں:
”بچے چپ ہو جاؤ، میں اس اینٹ کو ماروں گی جس نے تمھیں گرا دیا ہے۔“
”آپ کے مارنے سے اینٹ کو کیا ہوگا؟“ننھے چوزے نے معصومیت سے پوچھا۔
”اسے درد ہوگا اور پھر یہ بھی روئے گی۔“انو مرغی نے مسکرا کرجواب دیا۔
”افف!! اسے بھی میری طرح تکلیف ہو گی؟“
چوزے نے اپنا پاؤں سہلاتے ہوئے ایک اور سوال داغا۔
”ظاہر ہے، تکلیف تو ہو گی اسے،اب تم بتاؤ کہ اسے ماریں یا نہیں؟“مرغی مسکرائی۔
”ہوں ں۔۔اچھا امی!! پھر آپ اسے نہ ماریں کیوں کہ اسے تکلیف ہوگی اور یہ روئے گی اور رونے سے دکھ ہوتا ہے،اور میں کسی کو بھی دکھ نہیں پہنچانا چاہتا۔“
چوزے کا معصومیت سے لبریز جواب سن کر انو ہنس پڑی اور کہا:
”بھئی اس نے تمھیں گرایا ہے، کیا تم اپنا بدلہ نہیں لوگے؟“
”نہیں امی، میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔“چوزے نے جواب دیا۔
”شاباش!! یہ ہوئی نہ بات، معاف کرنا بہت اچھی عادت ہے، اللہ تعالیٰ بھی معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے بچے اچھی عادات اپنا رہے ہیں۔“انو نے چوزے کے ننھے جذبات کو سراہا۔
عین اسی وقت بادل زور سے گرجے۔چوزے دہل گئے اور جلدی سے امی کے پروں تلے پناہ لے لی۔
”امی امی یہ بادل کیا کہہ رہے ہیں؟“ایک چوزے نے سوال کیا۔
”بچو!! بادل ہمیں بتارہے ہیں کہ جلدی جلدی گھر چلے جاؤ، ہم بارش برسانے والے ہیں۔“
مرغی نے کہا اور چوزوں کو ساتھ لیے واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑی، ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔وہ سب بھیگتے ہوئے گھر کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں