126

چاچا خیرو بکرا منڈی میں

تحریر :محمد فیصل علی

چاچا خیرو کمال کے آدمی تھے، گاؤں والے تو خیر انہیں مانتے ہی تھے مگر اب ان کے کارنامے اخبارات میں بھی شائع ہونے لگے تھے۔ ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ چاچا خیرو کھیت میں پانی لگائے ہوئے تھے، رات کا وقت تھا، پانی کی باری دو گھنٹے پہ مشتمل تھی، اس دوران ان کی گھڑی خراب ہو گئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے وقت پہ پانی کو بند کرنا تھا۔ قریب قریب نہ کوئی گھر تھا نہ ہی گھڑی دستیاب تھی لیکن پھر اچانک ہی انہیں ایک نادر خیال سوجھ گیا۔ وہ مین روڈ پر جا پہنچے اور وہاں سے گزرنے والی ایک بس کو روک لیا۔ بس ڈرائیور نے سمجھا کہ شاید یہ مسافر ہے، مگر چاچا خیرو نے تو صرف وقت معلوم کرنا تھا، وہ ایک قدم بس کے اندر رکھ کر جھانکتے ہوئے بولے:
”یار ناراضی معاف، ذرا مجھے وقت بتانا، میری گھڑی خراب ہو گئی ہے۔“
اس بات کو سن کر بس ڈرائیور اور کنڈیکٹر تو کومے میں جاتے جاتے بچے تھے، دیگر مسافر بھی حیرانی کا عالمی ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔ انہی میں سے ایک صحافی بھی تھے جنہوں نے اپنی گھڑی اتار کر چاچا خیرو کے حوالے کی اور پھر اگلے دن اس نے یہ خبر اخبار میں لگوا دی، بس اسی دن سے چاچا خیرو کی شہرت میں اضافہ ہو گیا۔
عید الاضحٰی کی آمد آمد تھی، گاؤں کے لوگ عید کے لیے جانور خریدنے میں کمر بستہ تھے، گاؤں کی چھوٹی سی مارکیٹ میں موجود واحد ہوٹل پہ روزانہ اسی موضوع پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا۔ آج بھی وہاں گاؤں کے چند لوگ بات چیت کر رہے تھے:
رستم:یار اس بار دو منڈیوں میں مٹی مٹی ہو چکا ہوں مگر جانور ہاتھ ہی نہیں لگ رہے؟
نواب: کیوں رستم، قیمتیں زیادہ ہیں یا جانور پسند نہیں آئے؟
رستم: دونوں ہی باتیں ہیں بھائی، اور قیمت کی تو بات ہی ختم کرو یار، ایک ہی بات سناتے ہیں سب کہ ”تبدیلی آ گئی ہے“
ہاہاہا ہاہاہا، اس بات پر سبھی نے قہقہہ لگایا۔
”کیا ہوا لڑکو؟ بڑے ہنس رہے ہو آج کل۔“
سبھی اس آواز پہ چونکے اور مڑ کر دیکھا تو چاچا خیرو جلوہ افروز تھے۔ سبھی احتراماً اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر رستم بولا:
”آئیے چاچا جی! بیٹھیں اور ہمارا مسئلہ حل کریں، جب سے آپ کی خبر اخبار میں پڑھی ہے، یقین مانیں ہماری نظروں میں آپ کا قد اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ کیا بتائیں۔“
چاچا خیرو مزید پھول گئے، انہوں نے ایک فخریہ نظر اپنی اس گھڑی پہ ڈالی جو انہیں بس والے صحافی کی طرف سے عنایت ہوئی تھی اور پھر ان نوجوانوں کے درمیان بیٹھ گئے، ساتھ ہی وہ بولے:
” کیا مسئلہ ہے لڑکو، بتاؤ؟“
”بس چاچا جی، آپ کو تو پتا ہے کہ عید کا فرض سر پر ہے اور اس بار مہنگائی بھی عروج پر ہے۔ کئی بار منڈیوں کے چکر لگا چکے ہیں مگر کبھی جانور پسند آتا ہے تو قیمت پسند نہیں آتی، اور کبھی قیمت جیب کے مطابق ہوتی ہے تو جانور دیکھنے لائق نہیں ہوتا، اب کریں تو کیا کریں؟“
رستم نے روداد غم بیان کرتے ہوئے کہا۔
”واہ واہ، یہ بھی کوئی مسئلہ ہے؟ اس مسئلے کو تو حل سمجھو، کوئی اور”پرا با لم“ ہے تو بتاؤ؟“ چاچا خیرو نے ”جدیدیت“ کے تقاضوں کے مطابق لفظ ”پرابلم“ کا استعمال دیہی تلفظ سے کیا۔
ہائیں، واقعی؟
مگر کیسے چاچا خیرو؟
مسئلہ حل تو نہیں ہوا۔ رستم نے حیرانی سے پوچھا۔
باقی سب لوگ بھی حیرت سے چاچا خیرو کا منہ تک رہے تھے۔
چاچا خیرو پہلے تو خوب ہنسے پھر بولے:
اس بار منڈی پہ میں تمہارے ساتھ جاؤں گا، بس اگلی بات کا تمہیں پتا ہے کہ آگے کیا ہو گا…سمجھ گئے؟
چاچا نے جس اعتماد اور پراسراریت سے یہ بات کی تھی، سبھی کو چاروناچار ”جی“ کہنا پڑا اور یہ میٹنگ برخاست ہو گئی۔
منڈی میں بے تحاشا رش تھا، تل دھرنے کو جگہ تک نہ تھی۔ چاچا خیرو نواب، رستم اور نادر کے ساتھ بکرا منڈی میں داخل ہو چکے تھے، مگر ان لوگوں کے لیے چاچا خیرو سے آگے بڑھنا ممنوع تھا۔ چاچا خیرو کے علاوہ کسی کا جانور کو چیک کرنا اور مالک سے بات کرنا منع تھا، الغرض کچھ کڑی شرائط تھیں جن کی پاسداری لازمی تھی۔ چاچا خیرو اپنی تیز نگاہوں سے جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے پورے میدان کا راؤنڈ لگایا اور تمام جانوروں پہ طائرانہ نظر ڈالی اس کے بعد وہ ایک بکرے والے نوجوان کے پاس جا پہنچے اور کچھ یوں بات چیت ہوئی:
چاچا: ہاں بھئی نوجوان کہاں سے آئے ہو؟
نوجوان: سیت پور سے، خیریت چاچا؟
چاچا: کیا حال ہیں تمہارے، ویسے شکل سے تو خراب لگ رہے ہیں۔
نوجوان: جی ی ی ی؟؟؟( حیرت سے)
چاچا: جیتے رہو، بڑے نیک لگ رہے ہو، اچھا میں چلتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ واپس مڑے، اسی اثنا میں وہ نوجوان چلایا:
”رکو چاچا جی، بات سنو!!!“
چاچا خیرو ہنستے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا:
”جی بولو میرے بچے!“
جانور نہیں لینا کیا؟؟ نوجوان نے حیرانی سے پوچھا۔
”لینا ہے، جانور ہی تو لینے آئے ہیں بچے۔“ چاچا نے برا سا منہ بنایا۔
”مگر آپ نے تو پوچھا ہی نہیں جانور کا!“ وہ حیران تھا۔
”اور تم نے کب بتایا ہے؟“چاچا نے بھی فوراً جوابی وار کیا۔
”چلیے اب بتا دیتا ہوں، یہ پچیس کا ہے، یہ پینتیس کا اور یہ والا پورے پچاس ہزار روپے کا ہے۔“ نوجوان نے باری باری اپنے بکروں کی قیمتیں بتائیں۔
”اللہ اللہ، اتنے سستے بیچ رہے ہو، امید ہے جلد بک جائیں گے۔“ چاچا خیرو نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
”اوہو، آپ تو ناراض ہو گئے ہیں، آپ بھی تو بتائیں؟“ نوجوان مسکرایا۔
”ضرور کیوں نہیں، یہ دس کا ہے، یہ بارہ کا اور یہ والا پورے پندرہ ہزار روپے کا ہے۔“ چاچا خیرو نے اسی کے انداز میں کہا۔
ان کے لہجے میں تو سکون تھا مگر اب نوجوان کے چہرے پر زلزلے کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس کو غصے سے لال پیلا ہوتے دیکھ کر چاچا سکون سے مسکراتے ہوئے گویا ہوئے:
”اسے کہتے ہیں جیسے کو تیسا“
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے، دن بھر یہی تماشا مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں دیکھنے کو ملا۔ چاچا خیرو کسی سے مطمئن نہ ہوئے۔ چل چل کر ٹانگیں جواب دے چکی تھیں۔ چاچا خیرو کو ساتھ لانے والے رستم اور دیگر لوگ مارے تھکن کے نڈھال ہو چکے تھے، لہٰذا وہ ایک جگہ سائے میں بیٹھ گئے، کچھ دیر سستانے کے بعد رستم بولا:
”چاچا جی! واپس گاؤں چلتے ہیں، لگتا ہے اس بار قربانی کا جانور نہیں ملے گا ہمیں۔“
”کیوں نہیں ملے گا بھئی؟ مایوسی نہیں لڑکو، آخری چکر لگاتے ہیں اور اس بار بکرا لے کر ہی چلیں گے۔“ چاچا نے کہا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
”مرتا کیا نہ کرتا“کے مصداق باقی لوگوں کو بھی چاچا کا ساتھ دینا پڑا۔ اب کی بار چاچا نے دبلے دبلے جانوروں کو تلاش کیا تا کہ کم قیمت پہ جانور مل سکیں۔ سبھی لوگ تھکے ہوئے تھے اس لیے کوئی خاص جانچ پرکھ نہ کی گئی اور آدھے گھنٹے ہی میں تین جانور خرید لیے گئے۔
ایک بکری جو بکری کم اور بلی زیادہ نظر آتی تھی، رستم کے حصے میں آئی۔
دوسرا ٹیڈی قسم کا بکرا تھا، جس کے سینگ جلیبیوں کے مشابہ نظر آتے تھے، یہ شاہکار نواب کو الاٹ کیا گیا۔
تیسری خریداری میں ایک بھیڑ آئی تھی، جس کی بے ترتیب اون اور بگڑی ہوئی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ بھیڑیوں سے مقابلے کرتی رہی ہے۔ یہ عجوبہ نادر کو ملا ۔
چاچا خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے، واپسی کا سفر شروع ہوا، گاؤں پہنچ کر خریداروں نے اپنے اپنے جانور گھر باندھے اور ایسے سوئے جیسے سارا دن پتھر توڑتے رہے ہوں۔
اگلی صبح چاچا خیرو اپنے کمالات کے تذکرے پورے گاؤں میں سناتے ہوئے ہوٹل پہ پہنچے، وہاں پہ صبح کی چائے پینے والوں کا جم غفیر جمع تھا، چاچا خیرو نے وہاں اپنی تعریفوں کے خوب پل باندھے، زمین آسمان کے قلابے ملائے، ایسے میں کسی نے مطالبہ کیا کہ:
”ذرا ہمیں بھی تو جانور دکھائے جائیں!“
اس پہ رستم اورنواب نے بات کو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر سارے لوگ ہی زور دینے لگے، بالآخر وہ رضامند ہوگئے اور کچھ دیر بعد وہ تینوں مسکین شکلیں بنائے اپنے جانوروں کی رسیاں تھامے نمودار ہوئے۔انہیں دیکھ کر شور مچا۔
”ہائیں، یہ کیا!!!“
کیا یہی جانور ہیں چاچا خیرو؟
ایک آدمی اٹھ کر آگے بڑھتے ہوئے بولا۔
ہاں بالکل، کوئی مسئلہ ہے کیا؟ چاچا نے خفا ہونے والے انداز میں کہا۔
”یہ تو بہت کمزور لگ رہے ہیں۔“ کئی آوازیں ابھریں۔
اسی اثنا میں دو چار افراد جانوروں کو چیک کرنے کے لیے قریب پہنچ چکے تھے۔
”ارے یہ جانور تو بھینگا ہے یا شاید کانا ہے، ذرا اس کی آنکھ دیکھنا۔“ ایک آدمی نے کہا تو رستم یوں اچھلا جیسے اس کے پاؤں تلے بم پھٹ پڑا ہو،کیوں کہ وہ جانور رستم کا تھا۔
دوسرا آدمی جو ٹیڈی بکرے کو چیک کر رہا تھا، جیسے ہی اس نے سینگوں کو پکڑا، بکرے نے ادھر ادھر زور لگایا اور دوسرے ہی لمحے بکرے کے سینگوں کا ایک حصہ ٹوٹ کر ہاتھ میں آ چکا تھا۔ ان سینگوں کو شاید کسی چیز کے ساتھ جوڑا گیا تھا یا واپسی پر راستے میں کہیں ٹوٹے تھے، سبھی سانس روکے ٹوٹے سینگوں اور نواب کو دیکھ رہے تھے جو اس وقت پتھر کا بت بنا کھڑا تھا۔
اب وہ سب بھیڑ کی طرف بڑھے اور اس کو جو ٹٹولا تو اس کی گردن کے ساتھ بہت بڑا پھوڑا تھا جو اونی بالوں میں چھپا ہوا تھا۔
چاچا خیرو اور اس کی پارٹی کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہو گیا تھا، وہ تینوں سر پیٹ کر رہ گئے۔
لیکن اب کیا ہو سکتا تھا…
”اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیا چگ گئی کھیت۔“

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں