asaanurdu.com 82

اور مینا لوٹ آئی …… عاطف حسین شاہ

”مینا! یہ دیکھو میں تمھارے لیے دیسی گھی کی روٹی لے آئی۔“
فہمیدہ نے مینا کو لاڈ سے پکارا، مگر مینا نے منہ پھیر لیا۔ فہمیدہ کچھ سمجھ نہ پائی۔اُس نے ایک بار پھر کوشش کی۔
”پیاری مینا! یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ میں نے اتنی محنت سے تمھارے لیے روٹی بنائی ہے اور تم ہو کہ نخرے دکھا رہی ہو۔ پلیز ایسا نہ کرو،کھا لو روٹی۔“
مینا پر ذرا اثر نہ ہوا۔ فہمیدہ کو اسکول کے لیے دیر ہو رہی تھی۔ اُس نے روٹی والا برتن پنجرے میں رکھا اور کنڈی لگا کر اسکول جانے کی تیاری کرنے لگی۔
مینا اپنے والدین کے ساتھ ایک پیارے سے گھر میں رہتی تھی۔ یہ گھر عمدہ لکڑی اور مضبوط جالیوں سے بنایا گیا تھا۔ اس میں پانی کے لیے مٹی کا ایک دل کش پیالہ تھا۔کھانے کے لیے ایک کشادہ برتن، جس میں باجرہ، کبھی مکئی کی چھلی اور دیگر کھانے کی اشیا رکھی جاتی تھیں۔ جھولنے کے لیے پیلے رنگ کا ایک رِنگ موجود تھا۔ اِس گھر کو بالکونی میں اِس انداز سے رکھا گیا تھا کہ باہر کا نظارہ صاف دیکھا جا سکے اور بلی سے بھی محفوظ رہے۔
مینا اکثر لکڑی کے ڈنڈے پر بیٹھی باہرکی فضا دیکھتی رہتی۔ مینا کی پیدائش اِسی گھر میں ہوئی تھی۔ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ مینا کو ایک دوست کی کمی محسوس ہونے لگی۔ فہمیدہ نے اِس کمی کو کافی حد تک پورا کیا۔ وہ اُسے مزے دار چیزیں کھلاتی، ڈھیر ساری باتیں کرتی مگر مینا جب باہر کی فضا میں اُڑتے پنچھی دیکھتی تو اُس کا جی کرتا کہ وہ بھی اُن کے ساتھ آزادی کا مزا لے۔ یوں تو والدین کے ساتھ اُسے کبھی کبھار فضا میں اُڑنے کا موقع مل جایا کرتا تھا، مگر اُس میں حد لگی ہوتی تھی۔ کچھ دیر اُڑنے کے بعد گھر واپس آنا پڑتا تھا اور یہی واپسی مینا کے لیے وبالِ جان تھی۔
مینا کا جی کرتا کہ کاش وہ ایسا اُڑے کہ کبھی واپس نہ آئے۔ اب مینا کا اس گھر میں دَم گھٹنے لگا تھا۔ خوب صورت گھر اُسے قیدخانہ محسوس ہونے لگا۔ اُس کی طبیعت میں بے زاری آنے لگی۔ یہی وجہ تھی کہ مینا نے کھانے پینے سے بھی منہ موڑ لیا تھا۔ فہمیدہ نے روٹی والا برتن جس حالت میں رکھا تھا، وہ ویسے ہی پڑا رہا۔ مینا کے والدین نے اُسے کھانے کے لیے قائل کرنے کی خاصی کوشش کی مگر بے سود۔
فہمیدہ جب اسکول سے واپس آئی تو اُس نے دیکھا پنجرے میں برتن اب بھی ویسے ہی پڑا تھا۔ وہ رنجیدہ ہو گئی۔ بستہ رکھنے کے بعد اُس نے پنجرا کھولا پھر روٹی والے برتن کے ساتھ مینا کو بھی باہر نکالا اور پنجرے کو کنڈی لگا دی۔ وہ اپنے ہاتھوں سے مینا کو روٹی کھلانا چاہتی تھی۔ چناں چہ اُس نے مینا کو کچن میں آزاد چھوڑا، ذرا سا دھیان ہٹنے کی دیر تھی کہ مینا پُھر کر کے اُڑ گئی۔ فہمیدہ پیچھے سے چیختی چلاّتی، مینا کو پکارتی رہ گئی۔
مینا اُڑتے اُڑتے گھر سے کافی دُور آگئی تھی۔ آس پاس کوئی آبادی نہ تھی، ذرا فاصلے پر ایک گھنا جنگل واقع تھا۔ کھلی فضا میں مینا کافی دیر اُڑتی رہی۔ وہ خود کو آزاد محسوس کر کے بہت خوش تھی۔ کوّے، چیلیں اور دیگر پرندے بھی اُس کے ساتھ محو پرواز تھے۔ مینااب خوب مستی میں اُڑ رہی تھی۔ یکایک فضا میں تیز جھکڑ چلنے لگے۔ طوفانی ہوا نے فضا کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اِس صورت میں اُڑنا مشکل ہو رہا تھا۔
مینا نے دیکھا، آس پاس موجود پنچھی غائب ہو چکے تھے۔ وہ سارے اپنی پناہ گاہوں میں چلے گئے تھے۔ مینا کا دِل بیٹھنے لگا۔ طوفانی ہوا کے تھپیڑے اُسے خوف زدہ کر رہے تھے۔ مینا ہمت کر کے کسی طرح جنگل میں پہنچ گئی۔ وہاں بڑے بڑے درخت طوفانی ہوا کے راستے میں ڈھال بنے ہوئے تھے۔ شاں شاں کی آوازیں مینا نے پہلی بار سنی تھیں۔ اچانک کہیں سے ایک بھیانک کوّا مینا کے سر پر پہنچ گیا۔ وہ مینا کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا۔
مینا کا دِل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اُس نے خوف سے آنکھیں مُوند لیں۔ اچانک پروں کے پھڑپھڑانے کی زوردار آواز آئی اور جیسے ہی مینا نے آنکھیں کھولیں تو اُس کی چیخ نکل گئی۔ ایک جنگلی کبوتر اور بھیانک کوّا آپس میں لڑ رہے تھے۔ کبھی اُن کی چونچیں ٹکراتیں اور کبھی پر…… کچھ ہی دیر میں کوّا وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔
”کہاں سے آئی ہوتم؟“
بوڑھاجنگلی کبوتر اب مینا سے مخاطب تھا۔
”مم….میں….بہت دُور سے آئی ہوں۔“
مینا ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔
”ڈرو مت!مجھے اپناخیرخواہ سمجھو۔ کس لیے اتنی دُور چلی آئی اور باقی گھر والے کہاں ہیں؟“
کبوتر نے پوچھا۔
”میں ایک بڑے سے گھر میں قید تھی۔ وہ گھر بہت خوب صورت تھا، کھانے پینے کی ہر چیز ملتی تھی مگروہاں آزادی نہیں تھی۔ میں آزاد ہونا چاہتی تھی،اِس لیے اُڑ آئی، امی ابو وہیں گھر ہیں۔“
بوڑھا کبوتر سمجھ گیا کہ مینا کسی انسانی دیس سے بھاگ آئی ہے۔
”ہاہا…اِسے تم آزادی سمجھتی ہو؟ اری کم عقل،آزاد تو وہ ہے جس کا اپنا گھر ہو اور اس گھر میں وہ محفوظ ہو۔“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آزادی کا مطلب تویہ ہے کہ کوئی پابندی نہ ہو۔ جہاں مرضی گھومو پھرو اور خوب موج کرو۔“
”یہ گھنا جنگل دیکھ رہی ہو؟ یہاں اکثر پرندے آوارہ ہیں۔یہ ہر جگہ گھومتے پھرتے ہیں، آوارہ گردی کرتے ہیں۔ آوارگی،گمراہی ہوتی ہے آزادی نہیں۔پابندیاں حفاظت کے لیے ہی ہوتی ہیں۔تم ہوش کے ناخن لو اور صبح ہوتے ہی واپس اپنے گھر جاؤ۔کیا پتا کب کس کا لقمہ بن جاؤ۔“
یہ سنتے ہی مینا نے خوف سے جھرجھری لی۔ اب اُسے اپنے ماں باپ یاد آ رہے تھے۔ فہمیدہ کا چہرہ بھی اُس کے سامنے گھوم گیا۔ اُس نے پچھتاتے ہوئے اپنا سر جھکا لیا۔ جنگلی کبوتر کو مینا پر ترس آ گیا۔ وہ بولا:
”دِل چھوٹا نہ کرو….شکر کرو تمھارا گھر ہے، ہم گھر کو ترستے ہیں۔ اب تو درخت بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ایک جگہ گھر بناتے ہیں تو اُسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ تم خوش قسمت ہوکہ تمھارا اتنا پیارا اور محفوظ گھر ہے۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں نے ہی ناشکری کی، مگر اب میں واپس کیسے جاؤں؟ مجھے توگھرکا راستہ بھی بھول چکا ہے۔“ مینا مایوسی سے بولی۔
”اللہ کا نام لے کر ہمت کرو، منزل تک ضرور پہنچ جاؤ گی۔“
جنگلی کبوتر کی باتوں نے مینا کو بہت حوصلہ دیا۔ اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔ اُس نے خدا خدا کر کے رات کاٹی۔ تڑکا ہوتے ہی وہ وہاں سے پرواز کر گئی۔ جانے سے پہلے وہ جنگلی کبوتر کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولی تھی۔ کافی دیر وہ ہوا میں اُڑتی رہی۔ اب وہ تھکن محسوس کر رہی تھی۔ اُسے اپنی منزل کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی اور ہمت جواب دیتی جا رہی تھی، مگر اُس پر آج جنون سوار تھا۔
وہ خود پر جبر کر کے مسلسل اُڑتی رہی۔ نیچے کئی گھر آباد تھے مگر مینا کا گھر جانے کہاں رہ گیاتھا۔وہ دیوانوں کی طرح اُڑتی رہی۔ اچانک اُسے ایک گھر کی بالکونی دکھائی دی۔ پھر خوشی کے مارے وہ چیخ اُٹھی۔ اُس بالکونی میں مینا کا پیارا سا گھر موجود تھا۔ وہ بجلی کی تیزی سے اُس گھر کی جانب لپکی۔ مینا نے دیکھا کہ اُس کے امی ابو غم سے نڈھال سر جھکائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی اُن کی نظریں میناسے ٹکرائیں، اُن کی جان میں جان آگئی۔ پورا گھر مینا کی سُریلی آوازوں سے گونج اُٹھا۔
فہمیدہ بھاگتی ہوئی پنجرے کے پاس آئی تواُسے مینا اپنی چونچ سے کنڈی کھولتی دِکھائی دیا۔ فہمیدہ نے آگے بڑھ کر مینا کے لیے آسانی پیدا کر دی۔ کافی دیر تک مینا کے والدین اُسے پیار کرتے رہے۔ فہمیدہ کو بھی مینا پر بہت پیار آ رہا تھا۔وہ اُس کے لیے تازہ روٹی بنانے کے لیے کچن میں چلی گئی۔ میناکی تو جیسے ساری تھکن ہی اُتر گئی تھی۔ وہ اپنے گھر میں آ کرآزادی کا اصل مطلب جان چکی تھی۔ وہ اب بہت سکون محسوس کر رہی تھی۔ بالکل وہی سکون جو کسی آزاد رہنے والے کو ہوتا ہے۔٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں