102

اپنا وطن ___ محسن حیات شارف

”واہ! کتنی خوب صورت تتلیاں ہیں۔ بھلا دیکھو تو سہی! کیسے پیارے رنگوں سے سجی ہوئی ہیں۔“
امی نے پیار سے کہا۔
تتلیوں کے ساتھ کھیلنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ رنگ برنگی تتلیوں کے آگے پیچھے بھاگنا اسے بہت پسند تھا۔ وہ اکثر اپنی امی سے اس بات کی شکایت کیا کرتا تھا کہ ان کے جنگل میں ایسی پیاری تتلیاں کیوں نہیں ہیں۔ مگر اب یہاں تو ان کی کمی نہیں تھی لیکن وہ بے زاری سے بیٹھا تھا۔ امی کے کہنے پر اس نے ایک نظر پھولوں پر ڈالی اور پھر سر جھکا لیا۔
”یہ سامنے والے درخت پر رہنے والے بندر تو بہت شرارتی ہیں۔“
امی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔”میں نے سنا ہے کہ یہاں آتے ہی ان کے چھوٹے بیٹے ٹنکو سے تمہاری دوستی ہوگئی ہے۔“
ٹنکو کے نام پر اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ اس نے مسکرا کر درخت پر ایک نظر ڈالی۔ وہاں ٹنکو اپنے امی ابو کے ساتھ درخت پر اچھل کود کر رہا تھا۔ اس نے مسکرا کر اپنی امی کی طرف دیکھا لیکن یہ مسکراہٹ چند لمحوں میں ہی دم توڑ گئی۔ جب بھوک کے مارے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہو تو پھر کوئی نظارہ بھی بھلا محسوس نہیں ہوتا۔
اس نے ایک دفعہ پھر اس طرف دیکھا کہ جہاں شیروں کا ایک خاندان جنگلی بھینسے کی چیر پھاڑ میں مصروف تھا۔ وہ بھی تو شیر تھا لیکن اس جنگل میں پناہ گزین۔ اس کا اپنا جنگل تو ٹیلے کی دوسری طرف تھا کہ جہاں اب انسانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
وہ اپنے ننھے ننھے قدم اٹھاتا ٹیلے کی چوٹی پر پہنچا۔ وہاں جا کر اس جنگل کی طرف دیکھا کہ جہاں اس کا گھر ہوا کرتا تھا۔ اس کی امی بھی اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئی تھیں۔
”امی! کیا ہم اپنے گھر کبھی نہیں لوٹ سکیں گے؟ مجھے اپنے گھر کی یاد آ رہی ہے۔“
ننھے شیر نے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔
امی نے حیرت سے اسے دیکھا۔ انہیں یاد آیا کہ کس طرح وہ اس ہرے بھرے جنگل کا موازنہ اپنے جنگل سے کیا کرتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ پڑوسی جنگل والوں کے مزے ہیں۔ وہاں شکار کی فراوانی ہے اور سر سبز ماحول جنگل کو مزید خوب صورت بنا دیتا ہے جب کہ ہمارا جنگل تو ایک بے رونق زمین کا ٹکڑا ہے کہ جہاں پیٹ بھر کھانے کو کھانا ہے نہ پھولوں سے بھری ہوئی وادیاں۔
٭
چند دن پہلے کی تو بات ہے کہ جب صبح صبح انسان اپنی مشینیں لے کر ان کے جنگل میں گھس آئے تھے۔ اپنی جان بچانے کے لیے تمام جانور بھاگ کھڑے ہوئے۔ جنگل کے شیروں نے کچھ دیر مقابلہ کیا لیکن آتشیں اسلحے کے سامنے کب تک ٹک سکتے تھے۔ جب سارے جانور غمگین چہروں کے ساتھ اس نئے جنگل میں پناہ لے رہے تھے۔اس وقت ننھا شیر بہت خوش تھا۔وہ اپنے من پسند جنگل میں آگیا تھا۔ وہ حیرت سے اپنے امی ابو کے غمگین چہرے دیکھ رہا تھا۔
رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے اور ٹنکو کے ساتھ کھیلتے ہوئے اسے بہت مزہ آ رہا تھا۔ حیرت کا پہلا جھٹکا اس وقت لگا کہ جب اس جنگل کے شیروں نے ایک نیل گائے کا شکار کیا تھا۔ ننھا شیر بھاگتے ہوئے گوشت کھانے آیا تھا لیکن اسے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ اس نے حیرت سے اپنی امی کی طرف دیکھا تھا۔
اسے سمجھایا گیا تھا کہ پہلے یہاں کے شیر کھانا کھائیں گے اور اس کے بعد ہماری باری آئے گی۔ اسے جتا دیا گیا تھا کہ وہ یہاں دوسرے درجے کا شیر ہے۔ اس کے بعد یہاں اسے ہمیشہ بچا کھچا کھانا ہی ملا۔ اگرچہ یہ کھانا بھی مقدار میں کافی ہوتا تھا لیکن اب اس کی بھوک نہ مٹتی تھی۔ گھومنے پھرنے کے بہت سے مقامات تھے۔ موسم دل کش اور ماحول خوش گوار تھا لیکن اس پر پابندیاں تھیں۔ وہ پہلے کی طرح آزاد نہیں تھا۔ اس لیے آج وہ اپنے جنگل کو یاد کر رہا تھا۔
٭
اس کی ماں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا بلکہ خاموشی سے اس کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ ننھا شیر سمجھ چکا تھا کہ اپنے وطن میں آزادی سے رہنے کی نعمت کا مقابلہ دنیا کی کسی اور نعمت سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے دل میں پختہ ارادہ کر چکا تھا کہ وہ اپنے جنگل میں ضرور واپس لوٹے گا۔ انسانوں میں اچھے لوگ بھی تو ہوتے ہیں۔ یقیناً وہ اس کی جدوجہد میں ساتھ دیں گے۔ وہ اپنے گھر کو آزاد کروانے اور خوب صورت بنانے کے لیے پرعزم تھا۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں