82

ایک طبع زاد کہانی
گل رعنا صدیقی

”اس بار سالانہ امتحانات سے قبل بیس نمبر کی اسائنمنٹ بھی دی جائے گی جو ہر بچے کو لازمی جمع کرانی ہے۔“
سر عاطف کی آواز کمرہ جماعت میں گونج رہی تھی اور بچے توجہ سے سن رہے تھے۔
”آپ کے پاس دس دن کا وقت ہے جس میں آپ سب کو ایک کہانی خود لکھنی ہے۔ کہانی کا موضوع ”استاد کا احترام“ ہو گا۔ کہانی بہت طویل نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ کاپی کے تین سے چار صفحات پر مشتمل ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گھر میں کسی بڑے سے کہانی لکھوا کے نہ لائیں اور نہ ہی کہیں سے نقل کر کے لکھیں ورنہ صفر حاصل کرنے کے لیے تیار رہیں۔“
پریشانی کے مارے حاشر کا برا حال تھا۔ وہ اُردو کے مضمون میں ویسے ہی بہت کمزور تھا، اوپر سے یہ کہانی لکھنے کی مصیبت گلے پڑ گئی تھی۔ صرف نصابی کتاب سے امتحان ہو تو بندہ رٹا لگا کے پاس بھی ہو جائے لیکن سر کو یہ کہانی لکھوانے کا خیال نہ جانے کہاں سے آ گیا تھا! 
”کیوں نہ یاسر بھائی سے مدد لی جائے، وہ تو کہانیاں پڑھنے کے بہت شوقین بھی ہیں۔ بلکہ مدد بھی کیا لینی، ان سے ہی کچھ لکھوا لیتا ہوں۔“
حاشر نے مطمئن ہو کر سوچا لیکن اس کا اطمینان عارضی ثابت ہوا کیوں کہ جب وہ اسکول سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ یاسر بھائی جلدی جلدی اپنا سامان باندھ رہے تھے۔
”ارے یاسر بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
حاشر نے حیران ہو کر پوچھا۔
”حیدرآباد…… چاچو کو دل کا دورہ پڑا ہے، وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہیں۔ ابو نے دفتر سے فون کر کے کہا ہے کہ میں آج ہی حیدرآباد چلا جاؤں اور جب تک چاچو خیریت سے گھر نہیں آ جاتے، وہیں رکوں۔“
انھوں نے جلدی جلدی کہا۔
”لیکن یاسر بھائی، مجھے آپ سے ایک ضروری کام تھا۔وہ اسکول میں ……“
حاشر نے کہنا چاہا مگر یاسر بھائی نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔
”بعد میں بات ہو گی۔ ابھی بہت جلدی میں ہوں، ٹرین کا وقت ہو رہا ہے۔ اچھا! خدا حافظ۔“
وہ اپنا سوٹ کیس اٹھا کے کمرے سے باہر نکل گئے۔
٭
یاسر بھائی کی واپسی کے انتظار میں آٹھ دن گزر گئے۔ آپریشن کے بعد چاچو گھر آ چکے تھے لیکن ان کی طبیعت ابھی سنبھلی نہیں تھی۔ حاشر فون پر یاسر بھائی سے اپنا مدعا کئی بار بیان کر چکا تھا لیکن ان کا جواب ہمیشہ یہی ہوتا،
”بس میں آ رہا ہوں دو چار روز میں، پھر دیکھتے ہیں۔ ابھی تو ذہن حاضر نہیں ہے۔“
یوں ان کے آسرے پر وہ آٹھ دن تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہا۔ نویں دن جب سر عاطف نے کمرہ جماعت میں یاد دہانی کرائی کہ کل کہانیاں جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے تو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ امی، ابو سے وہ پہلے ہی پوچھ چکا تھا اور دونوں نے معذرت کرتے ہوئے اسے خود کوشش کرنے کی تلقین کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر دوسرے بچے بھی تو خود کہانیاں لکھ کے لائیں گے۔ یہ کہانی کسی رسالے میں چھپوانے کے لیے نہیں لکھوائی جا رہی، بلکہ اُردو زبان پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک غیر نصابی سرگرمی ہے لہٰذا جس طرح بھی لکھنا سمجھ میں آئے، اسے خود ہی لکھنا چاہیے۔
”اب واقعی مجھے اپنی مدد آپ کرنا ہو گی۔ دوسروں کے آسرے پر رہا تو بیس نمبر ہاتھ سے جائیں گے۔“
حاشر نے کاپی اُٹھا کے لکھنا شروع کیا:
”میرے استاد کا نام عاطف ہے۔ وہ بہت عظیم ہیں۔ وہ بچوں کو بہت محنت سے پڑھاتے ہیں ……“
”دھت تیرے کی! یہ کہانی تو نہیں ہے، یہ تو معلوماتی مضمون ہو گیا ہے۔“
حاشر نے دو چار سطر لکھ کر اپنی ”کہانی“ خود ہی مسترد کر دی۔
”کیا کروں، کیا کروں؟“
وہ پریشان ہو کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک زبردست خیال آیا اور وہ یاسر بھائی کے کمرے کی طرف دوڑا۔ یاسر بھائی کی الماری کھول کر اس نے تیزی سے بچوں کے پرانے رسائل باہر نکالنا شروع کیے جو یاسر بھائی اپنی الماری میں نہایت ترتیب سے لگا کے رکھتے تھے۔ اس تلاش میں اسے تقریباً چار گھنٹے لگ گئے۔ آخرکار اسے بیس سال پرانے ایک رسالے میں ”استاد کے احترام“ پر لکھی گئی ایک نہایت پر اثر کہانی مل ہی گئی۔
”ہرا! یہ رہے میرے بیس نمبر!“
حاشر خوشی سے چلایا۔ اب وہ جلدی جلدی کہانی کو اپنی کاپی میں نقل کر رہا تھا۔
”کوئی میری چوری نہیں پکڑ سکتا کیوں کہ یہ بہت پرانا رسالہ ہے۔ میرے ہم جماعتوں نے اسے کبھی پڑھا ہی نہیں ہو گا اور سر تو اتنے بزرگ سے ہیں، وہ کہاں بچوں کے رسائل پڑھتے ہوں گے۔“
اس نے اپنی کاپی بند کر کے بستے میں ڈالی اور اطمینان سے سونے لیٹ گیا۔
٭
سب بچوں کو کہانیاں جمع کرائے ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ آج سر نے نتائج بتانے کا اعلان کیا تھا، سو سب ہی بچے بہت بے چین نظر آ رہے تھے۔ سر عاطف نے کمرہ جماعت میں داخل ہو کر سب بچوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور سلام کا جواب دینے کے بعد گویا ہوئے:
”میں نے آپ سب کی کہانیاں پڑھ لی ہیں اور آج میں ان کہانیوں کے نمبر بتانے جا رہا ہوں۔ سب سے پہلے حاشر!“
اور حاشر کا دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔
”ضرور میرے نمبر کلاس میں سب سے زیادہ ہیں جب ہی تو سر نے سب سے پہلے میرا نام لیا اور کیوں نہ زیادہ ہوں، باقی سب کی الم غلم کہانیوں کے مقابلے میں میری ہی کہانی سب سے اچھی تھی۔“
وہ یہ سب سوچتے ہوئے قدرے فخر سے اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا۔
”جی سر!“
اس نے مسکراتے ہوئے کہا لیکن سر نہیں مسکرا رہے تھے۔
”حاشر! کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے اسائنمنٹ دیتے ہوے کیا شرائط بتائی تھیں؟“
”جی سر! مجھے یاد ہیں۔ کہانی بہت طویل نہ ہو اور گھر میں کسی بڑے سے نہ لکھوائی ہو۔“
حاشر نے سعادت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوے کہا۔
”اور نہ ہی کہیں سے نقل کر کے لکھی جائے۔“
سر نے اضافہ کیا۔ 
”جی سر، بالکل۔“
”تو آپ نے اس شرط پر عمل کیوں نہیں کیا؟“
سر نے خشکی سے پوچھا۔
”جج……جی سر؟ جی میں نے نقل تو نہیں کی سر، خود……لکھی……ہے۔“
حاشر نے اب کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔ اس کا اطمینان رخصت ہو چکا تھا۔
”تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بیس سال پہلے ابن آدم صاحب نے آپ کی یہ کہانی نقل کر کے رسالہ چھپن چھپائی میں چھپوا لی تھی؟“
سر کا لہجہ مزید سخت ہو گیا۔
”ابن آدم سر؟ چھپن چھپائی……سر!آ……آپ کو کیسے پتا چلا؟“
حاشر کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
”کیوں کہ آج سے بیس سال پہلے میں ابن آدم کے قلمی نام سے بچوں کے رسالوں میں کہانیاں لکھا کرتا تھا۔“
سر عاطف نے یہ کہتے ہوئے حاشر کو اس کی کاپی واپس کر دی جس میں بڑا سا سرخ صفر یہ کہتا ہوا محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا گول ہے۔
٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں