انوکھا مُرّبا… قیصر مشتاق

اسکول کے آہنی دروازے سے کسی نے اسے ”موٹا بندر“ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا تھا۔ روز کی طرح آج بھی وہ سکول سے اکتاہٹ زدہ چہرہ لیے لوٹا تو اسے گھر میں کچھ غیر معمولی ماحول کا سامنا کرنا پڑا۔ امی ابو جلدی جلدی کچھ سامان پیک کر رہے تھے اور ایک طرف دادی عجب انداز میں سُکڑی بیٹھی تھیں۔ اس نے حیرانی سے پہلے بستہ ایک طرف رکھا اور پھر ابو کے پاس جا کھڑا ہوا جو ایک چھوٹے تھیلے میں کچھ رکھ رہے تھے۔ ریحان کو وہ کچھ پریشان لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا، امی فوراً بولیں:
”ریحان! تمھاری دادی کی طبیعت خراب ہے اور ہم انھیں لے کر اسپتال جا رہے ہیں۔ ہمیں وہاں کچھ گھنٹے لگ سکتے ہیں تب تک تم گھر میں ہی رہنا، کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمھارے پرچے چل رہے ہیں تو کھانا کھا کر اپنے اگلے پرچے کی تیاری کرنے بیٹھ جانا۔“
امی نے جلدی جلدی اسے سمجھایا اور پھر دادی کو اٹھنے میں مدد دینے لگیں۔
”لیکن امی، دادی کو ہوا کیا ہے؟ صبح تک تو وہ بالکل ٹھیک تھیں؟“
ریحان نے ان کے ساتھ ساتھ چلتے پوچھا، ابو اب گاڑی کی چابی اٹھا رہے تھے۔
”بس بیٹا! اچانک سے ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ہے۔ تم زیادہ سوال نہیں کرو اور دروازہ اچھی طرح بند کر لو۔“ امی نے تنبیہ کی۔
دادی آہستہ آہستہ چل رہی تھیں۔ ریحان نے دیکھا، وہ کچھ بول نہیں رہیں اور ان کا چہرہ دوپٹے میں ڈھکا ہوا تھا۔ وہ بے دلی سے دروازے تک آیا۔
”ہاں اور خبردار جو تم دادی کے کمرے میں گئے اور تم نے وہاں بے ترتیبی پھیلائی۔ اس طرف بالکل نہیں جانا اور اپنے کمرے میں ہی رہنا۔“
امی جاتے جاتے مڑیں تو ریحان نے ان کی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا۔
بارہ سال کا وہ ایک خوش شکل لیکن نہایت فربہ جسم کا لڑکا تھا۔ قدرتی طور پر مضبوط اور توانا تو تھا ہی لیکن کھانے پینے کا بھی بے حد ہی شوقین تھا۔ اس کی جسامت اور ڈیل ڈول دیکھ کر سکول اور محلے والے سبھی لڑکے اس کو چِڑاتے رہتے۔ پہلے پہل وہ چِڑ بھی جاتا، جھگڑ بھی جاتا لیکن پھر وہ خاموش ہو جاتا، شاید اس نے اس سب کو قبول کر لیا تھا یا اسے اب رتی برابر فرق نہیں پڑتا تھا کہ کوئی اسے کس نام سے اور کس انداز سے پکار رہا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر وہ کڑھتا رہتا تھا۔ اسے بس ایک چیز کی پروا تھی اور وہ تھا ہر وقت کا کھانا۔ وہ کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوؤں کو بہت دور سے سونگھ لیا کرتا تھا۔
ابھی بھی وہ ہاتھ منہ دھو کر آیا تو اسے بھوک کا شدید احساس ہوا۔ اسے یاد آیا کہ امی ابو اور دادی کی روانگی کے وقت اسے قدر بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے باورچی خانے کا رخ کیا اور اس جگہ کو ٹٹولنے لگا جہاں امی اس کے لیے کھانا رکھا کرتی تھیں۔ سامنے ہی تازہ پکی ہوئی دیسی مرغی اور اس کے ساتھ نرم نرم چپاتیاں اس کی منتظر تھیں۔ ریحان نے جھٹ سے کھانا اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی۔ اچھی طرح سے سیر ہو کر کھانے کے بعد وہ وہیں بیڈ پر ڈھے گیا۔ وہ اب کچھ سوچ رہا تھا۔
مصالحہ دار مرغی کھانے کے بعد اب اسے کچھ میٹھا کھانے کی طلب ہو رہی تھی۔ بغیر ہاتھ دھوئے، وہیں برتن چھوڑے وہ دوبارہ باورچی خانے میں آیا۔ اُس نے فریج کھول کر ہر جگہ نظریں گھمائیں لیکن اسے کچھ میٹھا نہ ملا۔ بے چارگی بھرے چہرے کے ساتھ وہ نتھنوں کو پھیلائے اِدھر سے اُدھر دیکھ رہا تھا جب اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں بجلی کی مانند کوندا۔ وہ دادی کے کمرے کی طرف بھاگا۔ خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
٭
دروازہ کھولتے ہی وہ کچھ دیر تو نا سمجھی سے کمرے میں پھیلے سامان کی طرف دیکھتا رہا، پھر دادی کی اس پرانی طرز کی الماری تک آیا جس میں چابی لگی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے چابی گھمائی، اگلے لمحے وہاں الماری میں ڈھیروں مرتبان اس کے سامنے تھے۔
اس کی دادی دراصل مختلف اشیا کے مرّبے بنایا کرتی تھیں۔ سیب، ہرڑ، آڑو اور جانے کیا کیا…… وہ ہمیشہ سے ان مرتبانوں کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ ان مرتبانوں میں موجود لذیذ اور شیریں مربے اسے دور سے ہی للچا دیا کرتے تھے۔ لیکن نہ دادی اسے قریب آنے دیتیں، نہ گھر میں اسے کوئی وہ مربا جات کھانے دیتا۔
جانے کیوں دادی ان سے ملنے آنے والے لوگوں کو وہ مربے بانٹتی رہتی تھیں۔ آج موقع محل تھا، کوئی نہیں تھا جو اسے روکتا۔ آج وہ ان ذائقوں سے محظوظ ہونے کو تھا۔ اس نے تینوں خانوں کو بغور دیکھا اور تب اس کی نظر سب سے زیریں حصے میں رکھے ایک شیشے کے مرتبان پہ پڑی۔ یہ مرتبان اس نے پہلی بار یہاں دیکھا تھا۔ اس کا حجم بھی باقی مرتبانوں سے کافی بڑا اور وسیع تھا۔ یوں ریحان نے اس مرتبان کا ڈھکن کھولا تو قلاقند کی پیاری مہک پورے کمرے میں پھیل گئی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب ریحان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور میٹھے مرّبے پر ٹوٹ پڑا۔ اُس نے پیٹ بھر کر کھایا یہاں تک کہ وہ کھاتے کھاتے تھک گیا، پھر وہ اٹھا اور انگلیاں چاٹتا کمرے سے باہر نکلنے لگا۔ لیکن یہ کیا! وہ تو اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ اس نے دوسری اور پھر تیسری بار کوشش کی لیکن ہر کوشش بے سود ثابت۔ شاید اس نے میٹھا اس قدر کھا لیا تھا کہ اب اس سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ وہ بہ مشکل خود کو گھسیٹتا مرکزی کمرے میں آیا اور صوفے کی پُشت کے سہارے کھڑا ہو گیا۔
”یا خدا! مجھ سے تو چلا بھی نہیں جا رہا۔“
اس نے افسردہ ہو کر سوچا اور صوفے کے سہارے ہی ٹِک گیا۔ اس کے پیٹ میں اب عجیب قسم سے مروڑ اٹھ رہے تھے۔ وہ قلاقند کا مرّبا شاید اس کے لیے موزوں نہیں تھا۔ وہ یہی سوچتا، بے زاری سے سامنے دیکھنے لگا۔ تبھی اس کی نظر کچھ دور رکھے آئینے پر پڑی، اس میں اس کا عکس نظر آتا تھا۔ لیکن وہ اپنے آپ کو دیکھ کر بری طرح چونک گیا۔ اس کے چہرے کے خدو خال تبدیل ہو رہے تھے۔ وہاں کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
اس کے کان بڑے ہو چکے تھے، چہرہ پہلے جیسا نہ تھا، آنکھیں بَڑی دکھائی دیتی تھیں۔ وہ ایک بندر کے مشابہ لگ رہا تھا۔ وہ بے یقینی اور خوف کی حالت میں آئینے کی طرف کھسکا۔ اب وہ خود کو آئینے میں بالکل واضح دیکھ سکتا تھا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ ممکن نہیں!“
اس نے اپنے چہرے کو چھوا۔ وہ واقعی ایک بندر کا روپ دھار چکا تھا۔ تب اچانک اسے خیال آیا کہ اسے وہ قلاقند نہیں کھانا چاہیے تھی۔ یہ یقیناً اسی وجہ سے ہوا تھا۔ دادی کے مرتبان میں رکھے مربے انوکھے تھے یا جادوئی۔ یہ سوچتے سوچتے وہ دوبارہ کمرے کی طرف آیا۔ چند لمحوں کے اس کھیل نے اسے بھونچکا کر دیا تھا اور اب وہ ہونقوں کی طرح سارے مرتبان باری باری دیکھ رہا تھا۔
”یہ……یہ میرا وہم ہے، ایسا نہیں ہو سکتا۔“
بڑبڑاتا ہوا وہ سارے مرتبان دیکھ چکا تو سر پکڑے وہیں بیٹھ گیا۔ لیکن جلد ہی اسے اٹھنا پڑا کیوں کہ کچھ تھا جو اسے بیٹھنے میں مشکل پیش کر رہا تھا۔ وہ تھی اس کی دُم……
”یہ میں نے کیا کر دیا!یہ میرا کیا حال ہو گیا؟“
وہ اپنے کانوں کو چھوتے ہوئے روہانسا ہوا۔
”مجھے کچھ کرنا ہو گا، ورنہ پہلے مجھے سب لحیم شحیم، ہَمپٹی ڈَمپٹی اور جانے کیا کیا بلاتے ہیں اور اب بندر بھی بلائیں گے۔ ہر مسئلے کا حل بھی وہیں ہوتا ہے جہاں سے وہ نمودار ہوتا ہے۔ یقیناً اس مسئلے کا حل بھی یہیں دادی کے کمرے میں ہو گا۔“
اِدھر اُدھر ٹہلتا ہوا وہ یک دم رکا اور کچھ سوچنے لگا۔
اس نے قلا قند کھایا تھا جو طبیعت کے لیے بے حد بھاری ہوتا ہے۔ کیا پتا اب کچھ ہلکا پھلکا کھا لینے سے اس کے اثرات ختم ہو جائیں یا کم ہی ہو جائیں۔ یہ سوچ آتے ہی وہ ہر شے کو غور سے دیکھنے لگا۔ وہاں بے تحاشا جڑی بوٹیاں، پھل اور خشک میوے تھے۔
وہ اتنا عقل مند یا ہوشیار نہیں تھا کہ فوراً کسی مشکل کا حل تلاش کر لیتا لیکن اس کشمکش میں کہ اس کے دوست، اس کے ساتھی اسے اب کس کس نام سے مذاق کا نشانہ بنائیں گے، وہ پہلی بار فکر و سنجیدگی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ جبھی اچانک بکھرے سامان میں اسے سبز رنگ کا کچھ نظر آیا تھا، وہ چونک گیا۔
وہ اس کے بارے میں جانتا تھا، وہ آملہ تھا۔ اس نے اس کے متعلق استانی صاحبہ سے سنا تھا کہ اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ اگر دادی وہاں آملہ کا مربا بنانے والی تھیں تو ممکن تھا وہاں انھوں نے پہلے سے مربا بنا رکھا ہو۔ اس نے ہر مرتبان کا دوبارہ جائزہ لیا لیکن وہاں اس کا مطلوب مربا نہیں تھا۔
بالآخر شکست تسلیم کرتے اس نے اسی کچے آملے کو ایک چھوٹی ٹوکری میں ڈالا اور واپس صوفے پہ آ بیٹھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اب کیا کرے۔ امی، ابو اور دادی واپس آئیں گے تو وہ انھیں کیا جواب دے گا۔ کیا وہ ان سے یہ کہے گا کہ قلاقند کھانے سے اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے؟ کیا ان سے جھوٹ بولنا پڑے گا؟
اُداس اور اکتائے انداز میں وہیں بیٹھے بیٹھے اس نے ایک چھوٹا سا آملہ منہ میں رکھ لیا اور اسے چبانے لگا۔ رہ رہ کر اسے خود پہ غصہ آ رہا تھا کہ اس نے قلا قند کا مرّبا کیوں کھایا۔ وہ بہت سے کھٹے اور کڑوے آملے چبا گیا اور نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلا گیا، اسے پتا ہی نہ چلا۔ اس کے دماغ میں ہنوز یہی سوال ہتھوڑا بن کر گونج رہا تھا کہ کیا وہ ٹھیک ہوجائے گا؟ یا اس کے سارے دوست اس کا نیا نام رکھیں گے؟
٭
جانے کتنی دیر بعد کسی شور کی آواز سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا، امی ابو، دادی کو سہارا دے کر دروازے سے داخل ہو رہے تھے۔
”بیٹا! کب سے گھنٹی بجا رہے ہیں، تم سو گئے تھے کیا؟اور وہ بھی یہاں!“ امی نے اسے دیکھتے ہی سوال کیا۔
”اوہ! ہاں وہ میں ……“
وہ جلدی سے اٹھا اور بے اختیار اس کے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر جا ٹھہرے۔
”وہ تو شکر ہے ہم گھر کی چابیاں ساتھ لے کر گئے تھے ورنہ ہم تو دروازے پہ ہی کھڑے رہ جاتے۔“
ابو نے بھی اسے دیکھا۔
”اچھا ادھر آؤ! دادی کو ذرا سہارا دو، انھیں کمرے تک چھوڑ آؤ۔ اب کافی بہتر طبیعت ہے ان کی۔“
امی نے اسے بلایا تو وہ ساری باتیں بھول کر دادی کی طرف بڑھا۔ ریحان نے انھیں سہارا دیا اور جیسے ہی صوفے کے پاس سے گزرنے لگا تو اس کی نظر سامنے رکھے آئینے پہ جا پڑی۔ وہ اب بالکل ٹھیک تھا۔ اس نے زندگی میں پہلے کبھی ایسی خوشی محسوس نہیں کی تھی جو اسے اس وقت محسوس ہوئی تھی۔
”تو کیا آملہ نے واقعی کام کر دکھایا؟“
وہ بڑبڑایا۔
”کیا کہا تم نے؟“
دادی نے فوراً اس سے پوچھا۔ وہ اب ان کے کمرے میں داخل ہورہے تھے.
”کچھ نہیں دادی،کچھ بھی نہیں! اچھا اب آپ آرام کریں۔“
اس نے فوراً جواب دیا اور مڑ کر جانے لگا۔ دادی جانچتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”تم نے مرتبان کھولے اور مربا کھایا؟“
دادی کی آواز کسی دھماکے کی طرح اس کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔ اتنی جلدی اس کی حرکت پکڑی جائے گی، اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
”وہ……دادی! دراصل میں کچھ…… میٹھا کھانا چاہتا تھا۔“
وہ آہستگی سے بولا۔
”اوہ!اور تم نے قلاقند کھا لیا؟“
وہ اب کھلی الماری کی طرف متوجہ تھیں جہاں شیشے والا مرتبان کھلا پڑا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ چپ رہا۔ کچھ دیر بعد وہ ہمت جمع کر کے بولا:
”جی دادی؟“
سر جھکائے اس نے بے حد آہستگی سے جواب دیا۔
”میں باہر ہی تمھارے پاس بکھرا آملہ دیکھ کر سمجھ گئی کہ تم نے یقیناً میرے کمرے کا رخ کیا ہے۔ میرے بچے! میں نے وہ مربا اپنے ایک گاہک کے لیے بنایا تھا اور تم نے اسے کھا لیا۔ جانتے ہو صحت کے لیے وہ کتنا سخت ہوتا ہے، مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد تمھاری طبیعت خراب ہو گئی ہو گی جبھی تم نے وہ آملہ…… ایک منٹ، ایک منٹ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تمھیں کس نے بتایا کہ آملہ سے طبیعت بہتر ہو سکتی ہے، وہ تو بہت کھٹا اور کڑوا ہوتا ہے؟“
وہ حیران تھیں، متاثر تھیں یا پتا نہیں کیا لیکن ریحان کو غصے میں بالکل نہ لگی تھیں۔
”میں نے سکول میں پڑھا تھا دادی……“
اس نے جواب دیا۔ دادی اس کا جواب سن کر خاموش ہو گئیں۔
”ٹھیک ہے بیٹا!لیکن آئندہ یہ مربے کھانے کا سوچنا بھی مت! ضروری نہیں کہ ہر مربا میٹھا ہو، یہاں ترش ذائقے والے مرتبان بھی رکھے ہیں۔ انھیں اگر تم کھاتے تو تمھاری زبان تک جل سکتی تھی۔“ دادی نے اسے ڈانٹنے کے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو وہ ”جی دادی“ کہتا مڑنے لگا تبھی اچانک وہ بات پوچھ بیٹھا جو اُسے بے چین کیے جا رہی تھی۔
”دادی! کیا آپ نے بھی کوئی مربا کھایا تھا، کیا آپ بھی بندر بن گئی تھیں؟“ اس نے جھجک کر پوچھا۔
”کیا!کیا کہا تم نے……بندر؟ مربا کھانے سے بندر کون بن جاتا ہے؟“
وہ ہنسیں۔ اب وہ زمین پر بکھرے سامان کو سمیٹ رہی تھیں۔
”کچھ نہیں،میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا۔“
اس نے شرمندگی سے جواب دیا۔
”نہیں بچے! ایسا تو کوئی مربا نہیں ہوتا۔“
دادی نے اسے غور سے دیکھا تو وہ خاموشی سے وہاں سے چل پڑا۔
کمرے میں آئینے کے سامنے کھڑا وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آخر وہ سب کیا تھا؟ کیا وہ مربا واقعی جادوئی تھا یا وہ محض اس کا وہم تھا۔ لیکن اس سب کے بیچ اس کے ذہن میں اب بھی کہیں بار بار گونج رہا تھا:
”او موٹے بندر! راستے سے ہٹو، او موٹے بندر کم کھایا کرو!“
وہ اسی فکر میں ڈوبا بستہ لیے پڑھنے بیٹھ گیا لیکن بظاہر عام سے کہے گئے یہ دو فقرے اُس کا سارا تخیل، اُس کی ساری سوچ کے زاویے بدل رہے تھے۔٭

Leave a Comment